حیرت کی بات یہ ہے کہ کئی واقعات کی پیشگی اطلاعات تھیں، مگر ان کو وقوع پذیر ہونے دیا گیا۔ بڑا سوال یہ ہے کہ مکمل انٹلی جنس ہونے کے باوجود ایسے حملوں کو کیوں نہیں روکا گیا؟ کوئی واضح جواب نہیں ہے۔
گزشتہ 13 جولائی کو سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملہ اور پھر 31 جولائی کو تہران میں حماس کے اعلیٰ رہنما اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت بلا شبہ ایک طرح سے خفیہ ایجنسیوں کی ناکامی کے مظہر تھے۔
مجھے یاد ہے کہ اسی طرح کے واقعات میرے رپورٹنگ کیریئر کے دوران ہندوستان میں بھی پیش آئے ہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ ان میں سے کئی واقعات کی پیشگی اطلاعات تھیں، مگر ان کو وقوع پذیر ہونے دیا گیا۔ جس کی توجیہہ ابھی تک سامنے نہیں آرہی ہے۔
چھبیس جنوری 1995 کوہندوستان کے یوم جمہوریہ کی تقریبات جموں کے مولانا آزاد اسٹیڈیم میں منعقد ہو رہی تھیں۔
جموں و کشمیر کے اس وقت کے گورنر، سابق آرمی چیف جنرل کے وی کرشنا راؤ نے قومی پرچم لہرایا اور اب اپنی تقریر کا آغاز کردیا۔
انہوں نے خطے میں سیکورٹی فورسز کی کارکردگی کو سراہا اور انگریزی میں کہا کہ وہ ہیو بروکین دی بیکس آف…. ہم نے کمر توڑ دی ہے…ان کا یہ جملہ ادھورا ہی رہ گیا۔
گیٹ کے پاس اسٹیڈیم کے پارکنگ کی جگہ سے دھماکہ کی آواز آگئی اور دھواں اٹھ گیا۔
سامعین کھڑے ہوگئے اور معلوم کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ کیا ہوا؟ اس دن معلوم ہوا کہ ایک فوجی اور سویلین کا کیا فرق ہوتا ہے۔
کرشنا راؤ اسٹیج پر کھڑے رہے، اورلوگوں کو پرسکون رہنے کی تلقین کرتے رہے۔ وہ بتا رہے تھے کسی نے پٹا خہ چھوڑا ہے۔ اسی دوران ان کے دائیں سائڈ کے اسٹینڈ میں جس میں زیادہ تر انفارمیشن اور دیگر محکموں کا عملہ بیٹھا ہوا تھا، میں دھماکہ ہوا۔
انسانی اجسام کے چیتھڑے ہوا میں اڑتے ہوئے، خون کی بارش کرتے ہوئے اسٹیڈیم کے گراؤنڈ کو لال بناکر نیچے آگئے۔
اس دوران اب نیشنل سیکورٹی گارڈ کے کمانڈوز نے گورنر کو ایک گاڑی میں دھکیل کر گولی کی رفتار سے اسٹیڈیم سے باہر نکل گئے۔ وہ ابھی شاید گیٹ تک بھی نہ پہنچے ہوں گے کہ تیسرا بم اسٹیج کے نیچے پھٹ گیا۔ اسٹیج، جس پر چند لمحے قبل گورنر تقریر کر رہے تھے، کے چیتھڑے اڑ گئے۔ نفسا نفسی کے عالم میں اسٹیڈیم خالی ہوگیا۔ دھماکے کے نتیجے میں 18 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔
برسوں بعد، دہلی میں ایک سیمینار میں خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالیسز ونگ یعنی راء کے سربراہ سی ڈی سہائے، جو اس وقت جموں و کشمیر میں ایجنسی کے کمشنر تھے، نے انکشاف کیا کہ اس حملے کے بارے میں ان کو علم تھا اور گورنر کو بھی اس کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ 25 جنوری 1995 کی شام کوگورنر کرشنا راؤ نے سرحد پر تعمیر و ترقی و انفرا اسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے سیکورٹی اداروں کی ایک میٹنگ بلائی تھی۔
وہ ایک روز قبل کرشنا گھاٹی کے دورے سے واپس آگئے تھے اور سرحد پار کے انفرااسٹرکچر سے خاصے متاثر تھے۔ وہ اسی طرح کا اسٹرکچر اپنی سائڈ میں بھی بنانے کے خواہش مند تھے۔ سہائے کا کہنا تھا کہ اس میٹنگ میں جانے سے قبل انہوں نے جموں میں اپنے دفتر کے اہلکاروں سے پوچھا کہ کہ کوئی ایسی اطلاع یا کوئی ایسا ایشو تو نہیں ہے، جس کو گورنر کے ساتھ میٹنگ میں اٹھا یا جائے؟انہوں نے منع کیا۔سر بس روٹین سی انفارمیشن ہے، انہوں نے جواب دیا۔
چونکہ وہ فارغ ہی تھے، اس لیے انہوں نے اہلکاروں سے کہا کہ گورنر کے ساتھ پچھلی میٹنگ کے بعد کی جو فائلیں آئی ہیں، وہ ان کوپیش کی جائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تقریباً 13 فائلیں تھیں۔ جن میں چھ میں 26 جنوری کو مولانا آزاد اسٹیڈیم میں دھماکے اور گورنر کو ہلاک کرنے کی واضح اور مفصل اطلاعات موجود تھیں۔
حیرت کی بات یہ تھی کہ یہ سبھی فائلیں خود سہائے کے ہی دستخطوں سے ہی داخل دفتر یعنی الماریوں کی نذر کی گئی تھیں۔ کسی کو ان کو پڑھنے کی توفیق نہیں ہوئی تھی۔
سہائے کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے یہ اطلاع گورنر کے ساتھ میٹنگ میں شیئر کی، تو وہاں سانپ سونگھ گیا۔ کسی نے تجویز دی کہ تقریب کی جگہ کو تبدیل کیا جائے۔ مگر گورنر نے پہلے خود اور پھر نئی دہلی میں خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان نے اس کو مسترد کیا اور دلیل دی کہ اس سے ان کے اطلاع کے سورس کا قلع قمع ہو جائےگا۔
خیر یہ تو طے ہوا کہ تقریب اسٹیڈیم میں ہی ہوگی، مگر بم ڈسپوزل اسکارڈ کو دوبارہ بلایا گیا کہ وہ باریکی کے ساتھ تلاشی لیں۔وہ رات بھر تلاشی لیتے رہے اور صبح سویرے انہوں نے اسٹیڈیم کو محفوظ قرار دیا۔سہائے کے مطابق یہ بم پریڈ گراؤنڈ میں دو فٹ نیچے دبا دئے گئے تھے اور جاپانی پلاسٹک کے ٹائمر میں لپٹے ہوئے تھے۔ جس کو پولیس کے کتے سونگھ سکتے تھے نہ ایکسرے ان کا پتہ لگا سکتا تھا۔
ریموٹ ٹرگر کو بعد میں برآمد کیا گیا۔ معلوم ہو اکہ ریموٹ دبانے والے کوپہلے گورنر کے اسٹیج کے نیچے والا بٹن دبانا تھا، مگر اس نے پہلے تین نمبردبایا، جس سے پارکنگ کا بم پھٹ گیا۔ یعنی اگر گورنر اسٹیج سے بچ جاتا، تو ریسکیو ہوتے ہوئے اسٹیڈیم کے اسٹینڈ کے بم نمبر دو کی زد میں آجاتا اور اگر اس سے بھی بچ جاتا، تو گیٹ کے پاس والا بم کا م کردیتا۔
اسی طرح ممبئی میں 26 نومبر 2008 کی خوفناک رات کو کئی جانیں بچائی جا سکتی تھیں اگر تاج پیلس انتظامیہ ٹاور لابی کے باہر پکیٹ پر کھڑے سکیورٹی گارڈز کو کھانا فراہم کرنے پر راضی ہو جاتی۔
برطانوی تحقیقاتی صحافیوں ایڈرین لیوی اور کیتھی سکاٹ کلارک کے مطابق 26 انٹلی جنس الرٹ تھے۔ انتباہات اس قدر درست اور مخصوص تھے کہ ڈپٹی کمشنر آف پولیس وشواس نانگرے پاٹل نے اکتوبر 2008 میں تاج کے عملے کے ساتھ ایک حفاظتی مشق کی تھی۔ تاہم، ان کے چھٹی پر جاتے ہی حفاظتی اقدامات کو ختم کر دیا گیا تھا، اور قریب ہی حفاظتی پکیٹ لگا دیے گئے تھے۔
نومبر کے پہلے ہفتے میں ٹاور کو برخاست کر دیا گیا تھا۔ ہوٹل کے مینیجرز سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ سکیورٹی گارڈ ہوٹل کے کچن سے کھانا مانگ رہے تھے۔مصنفین کا دعویٰ ہے کہ 26/11 کا حملہ اس لحاظ سے الگ تھا کہ سی آئی اے، انڈیا کے انٹلی جنس بیورو (آئی بی)، ریسرچ اینڈ اینالائسز ونگ (راء) اور یہاں تک کہ تاج انتظامیہ سمیت تقریباً ہر کوئی جانتا تھا کہ آفت آنے والی ہے۔
ہریانہ کے مانیسر میں مقیم بلیک کیٹ کمانڈوز کے ذریعے تیار کردہ فرانزک اکاؤنٹ کا حوالہ دیتے ہوئے مصنفین کا کہنا ہے کہ انہیں رات 10:05 بجے غیر سرکاری طور پر متحرک کیا گیا تھا۔ 26 نومبر کو، ممبئی میں پہلی گولیاں چلنے کے صرف 22 منٹ بعد۔لیکن 70 منٹ بعد، انہیں کابینہ سکریٹری کے ایم چندر شیکھر اور بعد میں ایک جوائنٹ سکریٹری (داخلی سلامتی) نے بغیر احکامات کے متحرک ہونے کے خلاف خبردار کیا۔
صبح 12:34 بجے، اس وقت کے ہوم سکریٹری مدھوکر گپتا نے مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ولاس راؤ دیشمکھ کی طرف سے باضابطہ درخواست موصول ہونے کے بعد این ایس جی کے سربراہ جیوتی دت کو اجازت دے دی۔
تاہم، دہلی کے ہوائی اڈے پر انہیں اطلاع ملی کہ ٹرانسپورٹ طیارہ چندی گڑھ میں 156 میل دور ہے۔لیکن 70 منٹ بعد، انہیں کابینہ سکریٹری کے ایم چندر شیکھر اور بعد میں ایک جوائنٹ سکریٹری (داخلی سلامتی) نے بغیر احکامات کے متحرک ہونے کے خلاف خبردار کیا۔
اس کے بعدای ایس جی کے سربراہ جے کے دت نےراء کو ایلیوشین 76 طیارہ ادھار دینے کے لیے فون کیا، لیکن اس کا عملہ غائب تھا اور طیارے میں ایندھن نہیں تھا۔جب دت نے 1 بجے ہوم سکریٹری کو فون کیا تو اس نے پایا کہ ہوم سکریٹری خود پاکستان میں پھنسے ہوئے ہیں اور انہیں صبح تک فلائٹ نہیں مل سکی۔آخر کار، 45 منٹ بعد، جب دت نے ہوائی پٹی کے لیے روانہ ہونے کی کوشش کی، تو ان سے وزارت داخلہ کے اہلکاروں کو لینے کی درخواست کی گئی۔
جب جہاز اگلے دن صبح 5:30 بجے ممبئی میں اترا تو وزارت داخلہ کے اہلکاروں کو لے جانے کے لیے بیکن لائٹ والے سفید ایمبسڈر گاڑیوں کے علاوہ کوئی ٹرانسپورٹ دستیاب نہیں تھی۔ جب تک این ایس جی نے چارج سنبھالا، دہشت گرد مکمل کنٹرول میں تھے اور ممبئی پولیس اور بحریہ کے کمانڈوز دونوں کو مؤثر طریقے سے دھچکا لگا چکے تھے۔
اسی طرح، 14 فروری 2019 کو پلوامہ حملے کے بارے میں فرنٹ لائن کی طرف سے ایک سال تک جاری رہنے والی تحقیقات کے مطابق حملے کی پیشین گوئی کرنے والے کم از کم 11 انٹلی جنس ان پٹس تھے۔ کشمیر کے گورنر، ستیہ پال ملک نے بعد میں انکشاف کیا کہ انہیں کسی بھی حفاظتی ناکامی کے بارے میں خاموش رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
بڑا سوال یہ ہے کہ مکمل انٹلی جنس ہونے کے باوجود ایسے حملوں کو کیوں نہیں روکا گیا؟ کوئی واضح جوابات نہیں ہیں۔
اسی طرح مجھے یا دہے کہ شاید یکم اکتوبر 1996کی صبح سرینگر سے حریت لیڈر سید علی گیلانی کے دفتر سے فون آیا اور انہوں نے استدعا کی کہ کیا میں گیلانی صاحب کو ایر پورٹ تک چھوڑ سکتا ہوں؟چند ماہ قبل ہی میری شادی ہوچکی تھی۔ وہ ان دنوں شاید علاج کی غرض سے دہلی میں تھے اور انہی دنوں جموں و کشمیر میں نو سال بعد اسمبلی کے انتخابات ہو رہے تھے، جن کی انہوں نے بائیکاٹ کی کال دی تھی۔
اگلے روز شاید حریت کانفرنس کی کوئی میٹنگ ہونے والی تھی، جس کے لیے ان کو سرینگر بلایا گیا تھا۔ خیر میں نے ان کو ایر پورٹ پر رخصت کردیا۔
جب وہ دہلی میں ہوتے تھے، تو دارالحکومت میں جموں و کشمیر کے سی آئی ڈی محکمہ کے اہلکار ان کے ساتھ سائے کی طرح رہتے تھے۔ ان سے اب جا ن پہچان بھی تھی۔ مگر ایر پورٹ پر ایک اور شخص میرے پاس آکر بار بار ان کی فلائٹ کا نمبر، وقت وغیر ہ پوچھ رہا تھا۔ میں نے سی آئی ڈی والوں سے پوچھا کہ یہ شخص کس محکمہ کا ہے۔
معلوم ہوا کہ وہ ان کے لیے بھی اجنبی تھا۔ ابھی موبائل فون کا زمانہ نہیں تھا۔ رات کو میری اہلیہ کو پتہ چلا کہ گیلانی صاحب تو سرینگر پہنچے ہی نہیں ہیں، کیونکہ سرینگر میں اس دن فلائٹ لینڈ ہی نہیں ہوسکی۔ جہاز نے امرتسر میں لینڈ کیا ہے اور مسافروں کو کسی ہوٹل میں ٹھہرایا گیا ہے۔
اسی رات حیدر پور میں ان کے گھر پر دو راکٹ داغے گئے۔ نشانہ اتنا اچوک تھا کہ یہ راکٹ دوسری منزل پر ان کے بیڈ روم کی دیوار میں شگاف کرتے ہوئے، سیدھے بیڈ کو، اڑا کر باتھ روم کو تباہ کرتے ہوئے دوسری دیوار سے نکل گئے۔
یعنی اسی بیڈ کو ان راکٹوں نے نشانہ بنایا، جس پر ان کو اس رات سونا تھا۔ مگر دہلی والے اس نامعلوم شخص کو شاید پتہ نہیں چل سکا تھاکہ جہاز سرینگر کے بجائے امرتسر میں لینڈ ہو گیا ہے۔
یہ اسی طرح کی کاروائی تھی، جس طرح تہران میں اسماعیل ہنیہ کے کمرے کو تباہ کرکے ہلاک کیا گیا۔ یعنی کہ دیگر کمرو ں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا۔ اس دن حیدر پورہ کے مکان میں نیچے جو افراد سو رہے تھے، انہوں نے دھماکوں کی آوازیں سنیں تو ضرور، مگر ان کو بھی پتہ نہیں چل سکا کہ ان کی اوپری منزل کو ہی نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان دنوں رات بھر کشمیر میں دھماکوں کی آوازیں آنا تو معمول کی بات تھی۔
جب تصویروں میں اس بلڈنگ کو جس میں ہنیہ کو نشانہ بنایا گیا تھا، دیکھ رہا تھا، تو یہ واقعہ یاد آگیا۔ اس لیے نیویارک ٹائمس کی یہ کہانی کہ اس کمرے میں اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں نے بم رکھا گیا تھا، مجھے ہضم نہیں ہوئی۔ بم تو پورے کمرے کو ہی اڑا دیتا۔ یہ میزائل یا راکٹ کا حملہ تھا، جو بالکل ٹارگٹ پر لگا۔
Categories: فکر و نظر