خبریں

ہندوستان نے چینی سرمایہ کاری کے لیے دروازہ کھولا

شعبہ برائے فروغ صنعت اور داخلی تجارت نے 2020 میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی پالیسی میں ترمیم کی تھی تاکہ غیر ملکی کمپنیوں کی  سرمایہ کاری کے لیے حکومت کی پیشگی منظوری کو لازمی قرار دیا جا سکے۔ یہ ترمیم گلوان گھاٹی میں ہندوستانی اور چینی فوج کے درمیان سرحدی تنازعہ کے دوران پیش کی گئی تھی۔

(تصویر: پبلک ڈومین)

(تصویر: پبلک ڈومین)

نئی دہلی: ہندوستان نے چین سے آنے والی سرمایہ کاری کی تجاویز کو قبول کرنا شروع کر دیا ہے۔ اکنامک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ایک بین وزارتی کمیٹی نے الکٹرانکس مینوفیکچرنگ سیکٹر میں سرمایہ کاری کی پانچ سے چھ تجاویز کو منظوری دی ہے۔ ان میں کچھ چینی کمپنیاں بھی ہیں، دوسری کمپنیاں دوسرے پڑوسی ممالک سے تعلق رکھتی  ہیں۔

یہ ہندوستان اور چین دونوں کے لیے ایک اہم پیش رفت  ہے۔ سرحد پر کشیدگی کے حالیہ واقعات کے بعد ہندوستان کی طرف سے دی جانے والی یہ پہلی منظوری ہے۔

جن بڑے ناموں کی منظوری دی گئی ہے ان میں چین کی معروف الکٹرانکس کمپنی لکس-شیئر بھی شامل ہے۔ یہ کمپنی ایپل کے لیے وینڈر کے طور پر بھی کام کرتی ہے۔

اس کے علاوہ بھگوتی پروڈکٹس ( مائیکرو میکس ) اور ہواکن ٹکنالوجی ( چینی کمپنی ) کے جوائنٹ وینچر کو بھی منظوری دی گئی ہے۔ تاہم، جوائنٹ وینچر میں چینی کمپنی کا حصہ بہت کم ہے ۔

منظور شدہ دیگر تجاویز میں ہانگ کانگ کی لسٹیڈ یا وہاں سے سرمایہ کاری کرنے والی تائیوان کی کچھ کمپنیاں شامل ہے۔

ہندوستانی صنعت کا تھا دباؤ

میڈیا رپورٹ کے مطابق، سپلائی چین کو مضبوط کرنے کے لیے ہندوستان کی الکٹرانک مینوفیکچرنگ انڈسٹری چین کی سرمایہ کاری کی تجویز کو قبول کرنے کا دباؤ  بنارہی تھی۔

اب تک بین وزارتی کمیٹی کے اجلاس کے دو دور ہو چکے ہیں اور سات سے آٹھ تجاویز کو منظوری دی جا چکی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر الکٹرانکس کے شعبے میں ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ حکومت اب بتدریج مناسب حفاظتی اقدامات کے ساتھ چینی سرمایہ کاری کے لیے دروازے کھول رہی ہے ، شاید اس لیے کہ حکومت نے یہ بھی سمجھ لیا ہے کہ الکٹرانکس مینوفیکچرنگ سیکٹر میں خود انحصاری کو حقیقت بنانے کے لیے یہ ضروری ہے۔

حکومت کس قسم کے حفاظتی اقدامات کر رہی ہے ؟

شعبہ برائے فروغ صنعت اور داخلی تجارت ( ڈی پی آئی آئی ٹی ) نے 2020 میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی ) پالیسی میں ترمیم کی تھی تاکہ غیر ملکی کمپنیوں کی سرمایہ کاری کے لیے حکومت کی پیشگی منظوری کو لازمی بنایا جا سکے۔ یہ ترمیم ہندوستان چین سرحدی تنازعہ کے دوران پیش کی گئی تھی ۔

لیکن ، اب ہندوستانی کمپنیاں چین کے ساتھ تجارتی تعلقات پر نظرثانی پر اصرار کر رہی ہیں۔ ہندوستانی الکٹرانکس انڈسٹری نے حکومت کو بتایا تھا کہ چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے تناؤ اور اس کے شہریوں کے لیے ویزوں کی کمی کی وجہ سے مقامی صنعتکاروں کو 15 بلین  ڈالر کا پیداواری نقصان ہوا ہے اور ساتھ ہی ماضی میں 100000 نوکریوں  کا بھی نقصان ہوا ہے ۔ مختلف وزارتوں کو جمع کرائی گئی درخواست میں الکٹرانک مینوفیکچرنگ انڈسٹری نے یہ بھی کہا تھا کہ ہندوستان نے 10ارب  ڈالر کے برآمدی مواقع بھی کھو دیے ہیں ۔

اس کے بعد سے حکومت کچھ حفاظتی اقدامات اپنانے کے بعد ہی تجاویز کو منظوری دے رہی ہے۔

حکومت نے الکٹرانکس انڈسٹری کو بتایا ہے کہ وہ ہندوستان میں کام کرنے کے لیے چینی کمپنیوں کی جانب سے سرمایہ کاری کی تجاویز کی منظوری میں تیزی لا رہی ہے ، لیکن غیر ملکی کمپنیوں کو کچھ معیارات پر پورا اترنا ہو گا، جیسے کہ  کوئی بھی چینی شہری ہندوستان میں کام کرنے والے  کسی بھی  جوائنٹ وینچر یا غیر ملکی کمپنی میں کلیدی ایگزیکٹو کا کردار ادا نہیں کر سکتا۔ اس کے علاوہ ، چینی کمپنیاں ہندوستانی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ ملک میں کام کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری میں بہت کم  حصہ داری  رکھ سکتی ہیں ۔

ماضی میں ، حکومت نے ہندوستان میں کام کرنے کی خواہش رکھنے والی مختلف چینی الکٹرانکس کمپنیوں کی تجاویز کو مسترد کر دیا تھا۔ مثال کے طور پر ،ویوو اپنے پرزہ فراہم کرنے والے کو ملک میں لانا چاہتا تھا لیکن تجاویز کو مسترد کر دیا گیا۔ اسی طرح ایپل کے کانٹریکٹ پر آئی پیڈ بنانے والی کمپنی بی وائی ڈی کو بھی منظوری نہیں ملی تھی، جس کی وجہ سے اس نے ویتنام میں کام کرنے کا انتخاب کیا۔