اگر اعلیٰ ذات یا اشرافیہ کو آئینی اور مساوی حقوق پر مبنی معاشرے کے مطابق اپنے عالمگیر فلسفہ کو ڈھالنا ہے، تو انہیں اپنے حق خصوصی پر سوال اٹھانے ہوں گے۔
یونیورسٹی میں سماجی تحریکات پر ڈسکورس کے دوران کئی کتابوں میں ایک کتاب ہوا کرتی تھی – ’وہائٹ پریوِلج: اَن پیکنگ دی ان ویزیبل نیپ سیک۔‘ اس کتاب میں مصنفہ پیگی میکنتوش نے دلیل دی ہے کہ ریاستہائے متحدہ میں سفید فام لوگوں کو معاشرے میں محض ان کے رنگ کے باعث بلا استحقاق یا غیر مکسوبہ فائدے ملتے ہیں یا مراعات حاصل ہوتی ہیں۔
میکنتوش ’غیر مرئی بیگ‘ کے استعارہ کی روشنی میں کہتی ہیں کہ یہ حق خصوصی یا امتیازی حقوق اکثر ان لوگوں کے ذریعےاوجھل یانظر انداز کر دیے جاتے ہیں جو ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ لیکن سیاہ فام لوگوں کی زندگی پر اس کا خاصا اثر پڑتا ہے۔ ایک اور کتاب ہے ڈیوڈ گولڈن کرانز کی’وہائٹ میل’وہائٹ پریوِلج؛ ہاؤ دس ہیپنڈ اینڈ وہائی اٹز ایون ورس دین وی تھاؤٹ‘ (سفید فام مردانہ استحقاق: یہ کیسے ہوا اور یہ ہماری سوچ سے بھی بدتر کیوں ہے)،اس میں بھی کم و بیش اسی نقطہ نظر کو پیش کیا گیا ہے اور بتایا گیاہے کہ کیسے رنگ و نسل کے سہارے اس طرح کے مراعات یافتہ لوگوں کی نام نہاد تاریخی یادداشت اور جنرل نالج کا حصہ بن جاتے ہیں۔
دونوں کتابیں اس بات پراصرار کرتی ہیں کہ یہ مراعات حاصل نہیں کی گئی ہیں،یعنی یہ انفرادی صلاحیت یاحصولیابی کا نتیجہ نہیں ہیں، بلکہ یہ مراعات سسٹم سے پیدا شدہ عدم مساوات کا نتیجہ ہیں۔ اس طرح کے حق خصوصی کی دوسری صورتیں (مثلاً: مردانہ استحقاق) سفید فام مراعات کے ساتھ مل کر اس کے دائرہ کو اور وسیع کردیتی ہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ جو لوگ مراعات یافتہ ہیں، وہ اکثر اس پریوِلج کوپہچان نہیں پاتے یا پھر شعوری طور پرتسلیم نہیں کرنا چاہتے۔ امریکی معاشرے کے اس ‘سفید فام مراعات’ کےڈسکورس کو نقل کرنے کے پس پردہ میری منشا یہی ہے کہ سیڑھی نما درجہ وارطبقہ والے (کاسٹ سسٹم)ہندوستانی معاشرے کی نبض بھی ذراٹٹولی جائے۔
بے شمار ذاتوں میں منقسم ہمارے معاشرے میں کیا اس درجہ بندی کی چوٹی پر موجود ذاتوں نے کبھی اپنے حق خصوصی کو پرکھنے، سمجھنے یا اس کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے؟ اس بات سے نہ تو یادداشت اور نہ ہی شواہد کی بنیاد پر انکار کیا جا سکتا ہے کہ اعلیٰ ذات میں پیدا ہونے محض سے ثقافتی اور سماجی تناظر میں کئی طرح کےامتیازی حقوق حاصل ہوجاتے ہیں۔
ہندوستان جیسےذات پات کے نظام والے معاشرےمیں، اسی حق خصوصی کے باعث اس طبقے کو اکثر تعلیم، ہیلتھ کیئر، اور معاشی وسائل تک بہتر رسائی حاصل ہوتی ہے۔ان کے لیے نوکری کے مواقع اور مالی استحکام کے وسیلے دوسری ذاتوں کے مقابلے نسبتاً بہتر ہوتے ہیں۔وہیں ،نسل اور جنس کا باہمی تعلق بھی تضادات کو جنم دیتا اور پروان چڑھاتا ہے۔ نتیجے کے طور پر عدم مساوات میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور وقت کے ساتھ غیر براری عام زندگی کا حصہ بن جاتی ہے۔ اسے سماجی علوم میں تقاطع کا عمل (انٹرسیکشنالٹی)کہا جاتا ہے۔
اعلیٰ یا اشرافیہ طبقہ سماجی حیثیت کی علامت ہوتا ہے، جس کے باعث سماجی اور پیشہ ورانہ شعبوں میں عزت واحترام اور اثرورسوخ ہونا عام ہے۔ اعلیٰ طبقہ کے پاس عام طور پر نیٹ ورکنگ کے بہتر مواقع اور رابطے بھی ہوتے ہیں جو نہ صرف کیریئر کی ترقی بلکہ دیگر پیشہ ورانہ مواقع کو بھی آسان اور قابل رسائی بناتے ہیں۔ مقامی اور قومی تناظر میں دیکھا جائے تو اعلیٰ طبقےکوپیدائشی طور پر ہی سیاسی اثر و رسوخ حاصل ہوتا ہے اور ان کی نمائندگی بھی زیادہ ہوتی ہے۔
ریاستی مقننہ سے لے کر ملک کی پارلیامنٹ تک کا تجزیہ کریں تو سارے شواہداسی بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ لیکن اس سے بھی زیادہ بڑی سچائی یہ ہے کہ اعلیٰ طبقہ کے فرد کو ثقافتی اور سماجی پونجی کا بھروسہ رہتا ہے۔ اس گروپ کا حصہ ہونے کی وجہ سے اکثر ثقافتی، فکری اور سماجی سرمایہ سے بلا تعطل اس کا رابطہ قائم رہتا ہے۔ دشوار گزار راستوں پر اگر قدم ڈگمگابھی جائے توان ہاتھوں کی کمی نہیں ہوتی جو انہیں سہارا دیتے ہیں۔ اس قسم کے سرمائے کی دستیابی زندگی کے مختلف پہلوؤں تک رسائی اور کامیابی کو مزید آسان بنا دیتی ہے۔
مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی جھجھک نہیں ہے کہ مجھے زندگی کے کئی موڑ پر صرف اس لیے فائدے ملے ہیں کہ میں مرد ہوں اور نام نہاد ‘اعلیٰ ذات’ میں پیدا ہوا ہوں۔ خواتین، ‘پسماندہ ذات’، دلتوں اور اقلیتی ہم منصبوں کو اس طرح کے فائدے نہیں ملے۔ اس لیے میرا ماننا ہے کہ مواقع میں برابری سماجی انصاف کا بنیادی حصہ ہے۔
اپنی شہرہ آفاق تصنیف ‘ذات کا خاتمہ’ میں، ڈاکٹر بی آر امبیڈکر ہندوستان میں ذات پات کے نظام کی مؤثر تنقید پیش کرتے ہیں، جس کے بارے میں ان کی دلیل ہے کہ یہ ایک سماجی درجہ بندی ہے جو عدم مساوات اور امتیاز کو برقرار رکھتی ہے اور اس کے لیے خدائی ثبوت تک ڈھونڈلانے کی کوشش کرتی ہے۔ جبر کے نظام کے طور پر ذات پات کے بارے میں اپنی تنقید میں، امبیڈکر نے ذات کو ایک ایسے نظام کے طور پر بیان کیا ہے جو معاشرے کو پیدائش کی بنیاد پر سخت درجہ بندیوں میں تقسیم کرتا ہے، جہاں ‘نچلی’ ذاتوں کو ‘اعلیٰ’ ذاتوں کے ذریعےحاشیے پر رکھا جاتا ہے اور ان کا استحصال کیا جاتا ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ یہ نظام نہ صرف سماجی عدم مساوات کی قواعد ہے بلکہ یہ سنگین ناانصافی کا دستاویز بھی ہے جو لوگوں کو غیر انسانی بناتا ہے اور ان کی صلاحیتوں کو دباتا ہے۔
حالیہ دنوں میں، خصوصی طور پر 2016 میں روہت ویمولا کی المناک خودکشی کے بعد، جب میکنتوش کی کتاب کا مرکزی موضوع ایک بار پھر زیرِ بحث آیا، تو ایسا لگا کہ امریکی معاشرے کے خطوط پرہمارے اپنے ماحول میں اعلیٰ ذات کے لوگوں میں’اشرافیہ استحقاق‘کے تناظر میں اس نظام کو تسلیم کرنے کے بعدغور و فکر کی روایت پروان چڑھے گی۔ یہ توقع بھی تھی کہ اگر سفید فام امریکی کمیونٹی کے ایک حصے نے اپنے حق خصوصی کو تسلیم کرنے کے بعد بعض ٹھوس تبدیلیوں کی طرف قدم اٹھایا ہے تو کیا ہمارے معاشرے میں ایسی کوئی کوشش نہیں ہونی چاہیے؟
’بلیک لائیوز میٹر‘ تحریک سے امریکی معاشرے کا کوئی حصہ اچھوتا نہیں رہا۔ سیاست، کاروبار، اکادمی، مواصلات اور ثقافتی شعبوں میں یہ ڈسکورس گہرا اور تیز ہوا کہ نسل پرستی کی براہ راست اور بالواسطہ پالیسیوں اور نظاموں کو توڑنا پڑا۔
اگر ہندوستان کے اعلیٰ ذات کے لوگوں کو اپنے آفاقی فلسفے کو آئین اور مساوات پر مبنی معاشرے کے کردار کے مطابق ڈھالنا ہے تو انہیں اپنے حق خصوصی کو سوالیہ نظروں سے دیکھنا شروع کرناہوگا۔ ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ اگر یہ حق خصوصی زندگی کے مواقع اور تجربات کو متاثر کرتے رہے ہیں تو ان کے ساتھ اخلاقی اور سماجی ذمہ داریاں بھی آتی ہیں۔
ان ‘حق خصوصی سے لبالب’ فوائد کو تسلیم کرنا عدم مساوات کو دور کرنے اور زیادہ مساوی معاشرےکے لیے کام کرنے کی سمت میں ایک قدم ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ اجتماعی طور پر اور بلا تاخیرہونا چاہیے۔ حق خصوصی پر سوال اٹھانے کے اس عمل میں ہمیں تکلیف دہ سچائیوں کا سامنا کرنا ہو گا۔ اپنے حق خصوصی کو قبول کرنا تہمت نہیں بلکہ بڑی تبدیلی کا موقع ہے۔
(منوج کمار جھاراشٹریہ جنتا دل کے رکن پارلیامنٹ ہیں۔)
Categories: فکر و نظر