وقتاً فوقتاً جاری ہونے والی سرکاری رپورٹ، پرائیویٹ اداروں کے جاری کردہ لیبر فورس کے اعداد و شمار اور روزگار بازار کے رجحانات سے اپوزیشن پارٹیوں، بالخصوص کانگریس کو یہ اعتماد ملا ہے کہ وہ بے روزگاری کا مسئلہ اٹھا کر بی جے پی کو اقتدار میں واپسی کرنے سے روک سکتی ہیں۔
چنڈی گڑھ: ہریانہ اسمبلی انتخابات کے لیے ووٹنگ میں تین ہفتے سے بھی کم کا عرصہ باقی ہے۔ اس دوران بے روزگاری انتخابات کے بڑے ایشوز میں سے ایک بن کر ابھری ہے، جس نے حکمراں بی جے پی کے لیے مشکلیں پیدا کر دی ہیں۔
وقتاً فوقتاً جاری ہونے والی سرکاری رپورٹ، پرائیویٹ اداروں کی جانب سے جاری لیبر فورس کے اعداد و شمار اور روزگار بازار کے مجموعی رجحانات کے کئی اشاروں نے اپوزیشن پارٹیوں،بالخصوص کانگریس ،کو یہ بھروسہ دیا ہے کہ 5 اکتوبر کو ہونے والے انتخابات سے پہلے بے روزگاری کے ایشو کو اٹھانے سے انہیں حکمراں بی جے پی کو اقتدار میں واپسی سے روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔
حال ہی میں ہوئے لوک سبھا انتخابات کے بعد سینٹر فار دی اسٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹیز (سی ایس ڈی ایس) کے ایک سروے میں بھی ہریانہ میں بے روزگاری ایک بڑا انتخابی مسئلہ بتایا گیا تھا۔ قابل ذکر ہے کہ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی اپنی نصف سیٹیں کانگریس کے ہاتھوں ہار گئی تھی اور 5 سیٹوں پر سمٹ گئی تھی۔
حزب اختلاف اور حکمراں جماعت کے درمیان سیاسی الزام تراشیوں سے قطع نظر سچائی یہ ہے کہ ہریانہ میں پچھلے کچھ سالوں سے بے روزگاری ایک مستقل مسئلہ ہے۔ مرکزی وزارت شماریات کی طرف سے ہر سہ ماہی میں جاری ہونے والے متواتر لیبر فورس سروے (پی ایل ایف ایس) کے اعداد و شمار بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں۔
پی ایل ایف ایس کے اعداد و شمار کے مطابق، 15 سے 29 سال کی عمر کے لوگوں کے لیے ہریانہ کی مجموعی شہری بے روزگاری کی شرح چھ سہ ماہیوں تک قومی اوسط سے بہت زیادہ رہی، جو جنوری-مارچ 2022 اور اپریل-جون 2023 کے درمیان کی مدت تھی۔ اس مدت کے دوران اکتوبر-دسمبر 2022 میں یہ 29.9 فیصد کی بلند ترین سطح کو چھوگئی تھی۔
ریاست کی بے روزگاری کی شرح اپریل-جون 2023 کی سہ ماہی سے کم ہونا شروع ہوئی، لیکن اس سال جنوری-مارچ سہ ماہی سے اس میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
مثال کے طور پر، اس سال اپریل-جون سہ ماہی کے لیے ہریانہ میں بے روزگاری کا تازہ ترین اعداد و شمار 11.2فیصد ہے، جو جنوری-مارچ سہ ماہی میں ریکارڈ کیے گئے 9.5فیصد اور اکتوبر-دسمبر 2023 میں ریکارڈ کیے گئے 8.3فیصد سے بہت زیادہ ہے۔
ہریانہ کی لیبر فورس کی شرکت کی شرح، جس میں کام کرنے والے، کام کرنے کے خواہشمند اور فعال طور پر نوکری تلاش کرنے والے لوگوں کو شامل کیا جاتا ہے، 2023 اور 2024 کی اپریل-جون سہ ماہیوں کے درمیان 35-40فیصد کے درمیان رہی۔
خواتین کی حالت بے روزگاری کے لحاظ سے بدترین ہے۔ 15 سے 29 سال کی شہری خواتین کے لیے بے روزگاری کی شرح جنوری سے مارچ 2022 کی سہ ماہی اور اپریل تا جون 2023 کی سہ ماہی کے درمیان قومی اوسط سے اکثر دس فیصد یا اس سے زیادہ رہی۔ اس میں جولائی تا ستمبر 2023 میں بہتری دیکھی گئی، جب یہ تقریباً 17 پوائنٹ گر کر 30.6 سے 13.9فیصد پر آ گئی، جو کہ قومی اوسط سے کم تھی۔ اس کے بعد سے یہ قومی اوسط سے نیچے رہی، حالانکہ جنوری-مارچ 2024 سے اس میں دوبارہ اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی (سی ایم آئی ای) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ہریانہ میں بے روزگاری کی صورتحال اور بھی خراب ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ دسمبر 2022 میں ہریانہ میں ہندوستان میں سب سے زیادہ بے روزگاری کی شرح (37.4فیصد) تھی۔
کانگریس لیڈر اور ہریانہ کے سابق وزیر اعلیٰ بھوپیندر سنگھ ہڈا بے روزگاری کے معاملے پر بی جے پی حکومت کو گھیرنے کے لیے بار بار سی ایم آئی ای کے اعداد و شمار کا حوالہ دے رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ریاست میں بے روزگاری سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ حالات اتنے خراب ہیں کہ گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ نوجوان صفائی کارکن کے طور پر کام کرنے کو تیار ہیں۔
ہڈا ہریانہ حکومت کے حالیہ اعداد و شمار کا حوالہ دے رہے تھے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ تقریباً 46012 گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ نوجوانوں نے ہریانہ اسکل ایمپلائمنٹ کارپوریشن میں صفائی کارکن کے طور پر کام کرنے کے لیے درخواست دی تھی۔
موجودہ وزیر اعلیٰ نایب سنگھ سینی کی قیادت میں بی جے پی کانگریس کے الزامات کو محض انتخابی بیان بازی کہہ کر خارج کر رہی ہے اور دعویٰ کر رہی ہے کہ اس کی حکومت نے اپنے دو ٹرم کے دوران رشوت لیے بغیر 1.5 لاکھ لوگوں کو سرکاری نوکریاں دی ہیں۔
ان الزام تراشیوں کے درمیان آئندہ انتخابات پر بے روزگاری کے اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
لوک نیتی-سی ایس ڈی ایس کے ریسرچ ایسوسی ایٹ جیوتی مشرا نے دی وائر کو بتایا کہ بے روزگاری اسمبلی انتخابات کے نتائج کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرنے والی ہے۔
ان کا خیال ہے کہ خاطر خواہ روزگار کے مواقع کی کمی پر ووٹرز، خاص طور پر نوجوانوں میں عدم اطمینان حکمران پارٹی سے ان کی حمایت چھین سکتا ہے۔
مشرا نے اس بات کو سمجھاتے ہوئے کہ بی جے پی نے اپنی انتخابی مہم کو نوکری پیدا کرنے کے معاملے پر مرکوز کیا ہے رائے دہندگان- خاص طور پر نوجوانوں کو – یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ بغیر کسی ‘خرچی اور پرچی’ (رشوت اور طرفداری) کے روزگار فراہم کیے جائیں گے۔
ان کے مطابق، 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے دوران بھی ہریانہ میں بے روزگاری ایک سنگین مسئلہ بن کر ابھری تھی۔
لوک نیتی-سی ایس ڈی ایس کے پوسٹ پول سروے سے پتہ چلتا ہے کہ 26فیصد ووٹرز نے حکومت کی جانب سے روزگار فراہم کرنے میں ناکامی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
مشرا نے یہ بھی کہا کہ مہنگائی بھی تشویش کا ایک اہم معاملہ ہے۔ 21 فیصد ووٹروں نے بڑھتی ہوئی قیمتوں سے نمٹنے کے حکومتی طریقوں پر تنقید کی ہے۔
انہوں نے مزید کہا، ‘اس کے علاوہ، پانچ میں سے دو رائے دہندگان (40فیصد) بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت کو ایک اور مدت دینے کے حق میں نہیں تھے، جس کی بنیادی وجہ بے روزگاری کا بحران تھا۔’
انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔
Categories: الیکشن نامہ, فکر و نظر