کشمیر اسمبلی انتخابات میں جماعت اسلامی کی آمد نے نئی الجھنیں پیدا کر دی ہیں۔
شوپیاں/کولگام/سرینگر: ‘جماعت اسلامی الیکشن لڑ بھی رہا ہےاورنہیں بھی لڑ رہا ہے،’شوپیاں میں جماعت اسلامی کے ایک کارکن نے مجھ سے کہا۔ اس سے پہلے کہ میں ان کی بات کا مطلب سمجھ پاتا، وہ زور سے ہنس پڑے۔
اس طرح کے بیان کا کیا مطلب نکالا جائے،جب پہلے مرحلے کی ووٹنگ مکمل ہو چکی ہے ؟ کولگام اور پلوامہ کی دو اہم نشستیں، جہاں جماعت اسلامی نے سب سے زیادہ دم لگایا تھا، ان دونوں پر ساٹھ فیصد کے قریب ووٹ پڑے ہیں۔ ’انتخابی نتائج جماعت اسلامی کی قسمت کا فیصلہ کریں گے‘،انہوں نے کہا ۔
دراصل، جماعت اسلامی نے زمین پر ایک دلچسپ بھرم بنا کر رکھا ہے۔ انتخابات میں ایک وقت جہاں جماعت اسلامی ‘ڈسرپٹر’ کے کردار میں نظر آرہا تھا، وہ پہلے مرحلےکی ووٹنگ کےچوبیس گھنٹے قبل اچانک ‘کمزور’ نظر آنے لگا۔ ایک طرح سےوہ انتخابات سے دستبردار ہوتا نظر آیا۔
پہلے مرحلے کی مہم ختم ہونے کی رات یعنی 16 ستمبر کی دیر رات جماعت اسلامی کے مبینہ آفیشل ہینڈل سے ایک پریس ریلیز جاری کی گئی۔ ریلیز میں جموں و کشمیر کے لوگوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ ‘جموں و کشمیر میں بی جے پی-آر ایس ایس کے سیاسی طور پر بے اختیار بنانے اور ڈی اسلامائزیشن کے ناپاک منصوبوں کو ناکام بنائیں’۔
‘ہم اپنے زمینی کیڈر کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ جماعت اسلامی کے خود ساختہ پینل کےجھانسے میں نہیں پھنسے،’جماعت اسلامی نے ایک پریس ریلیز میں کہا، اس طرح جماعت نے خود کو ان امیدواروں سے الگ کر لیا جو جماعت اسلامی کی حمایت کا دعویٰ کر رہے تھے۔
جماعت کے ان بیانات نے اچانک جنوبی کشمیر میں سنسنی پیدا کردی۔ مختلف حلقوں نے ان بیانات سے نئے معنی اخذ کرنا شروع کر دیے۔
‘اگر یہ امیدوار جماعت اسلامی کے نہیں تھے تو پھر جماعت اسلامی کو ان کے پروپیگنڈے کو مسترد کرنے میں اتنا وقت کیوں لگا؟’، فیضان ڈار نے کولگام میں اس رپورٹر کو بتایا۔
فیضان جماعت اسلامی کی کولگام ریلی میں شامل تھے۔ ‘ اتنی بڑی سیاسی ریلی ہوئی کولگام میں جماعت اسلامی کے نام پر ۔ آزاد امیدوار آپ کی تنظیم کا نام سرعام استعمال کر رہے تھے، لیکن آپ نے تب کچھ نہیں کہا۔ جب مہم ختم ہوگئی تو آپ نے رات گیارہ بجے بیان جاری کر دیا، فیضان نے جماعت کے موقف پر اپنی برہمی کا اظہار کیا۔
فیضان کے کزن بھائی نوے کی دہائی میں عسکریت پسندی سے وابستہ تھے۔ وہ سیکورٹی فورسز کے ساتھ تصادم کے دوران مارے گئے۔ فیضان کے لفظوں میں ان کے بھائی نے جماعت اسلامی سے تحریک لے کر ‘شہادت’ قبول کی تھی۔ فیضان کے مطابق، ان کے خاندان نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، لیکن جماعت اسلامی کے ‘موقع پرست رویہ’ کی وجہ سے انہوں نے سی پی آئی (ایم) کے امیدوار یوسف تاریگامی کو ووٹ دیا۔
جماعت اسلامی کے انتخابی مخمصے کو دیکھ کر کئی ماہرین اور خود جماعت سے وابستہ افراد کا خیال ہے کہ جماعت اپنی زمین تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسمبلی انتخابات جماعت کے لیے ایک تجربہ ہے۔
‘جماعت دیکھنا چاہتاہے کہ ان کی انتخابی واپسی پر عوام میں کس قسم کا جوش و خروش پیدا ہو رہا ہے۔ جماعت اگر پانچ دس سیٹوں پر بھی اثر انداز ہو سکے تو سمجھ لیجیےکہ کشمیر کی سیاست کروٹ لے گی۔ جماعت سمجھ رہا ہے کہ اس دور میں مسلح بغاوت کی بات کرنا غلط ہو گا لیکن اس کی تاریخ اس کے حال پر حاوی ہے۔یہی جماعت کے لیے الجھن کا سبب ہے،‘اننت ناگ کے ایک رہائشی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا۔
ان کے بقول، ‘انجینئر رشید کی جیت نے جماعت کو ایک امید دلائی کہ شاید لوگ حریت یا حریت جیسی سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ عبداللہ اور مفتی اپنی توجہ کھو چکے ہیں۔ اگر آپ غور کریں تو پائیں گے کہ انجینئر رشید نے اپنی ریلیوں میں کشمیر کے حقیقی مسائل کو ایڈریس کیا ہے۔ انہوں نے عسکریت پسندوں یا ان کے خاندانوں کے تئیں ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ یہ بھی وجہ رہی کہ جماعت اسلامی نے عوامی اتحاد پارٹی کے ساتھ اتحاد کیا۔‘
سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر کے ایک پی ایچ ڈی اسکالر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جماعت کے دو دھڑے ہیں۔ ایک جو ہمیشہ سے الیکشن میں حصہ لینا چاہتا ہے۔ دوسرا وہ ، جس نے الیکشن سے فاصلہ برقرار رکھنے پر توجہ دی ہے۔ کشمیر کے ہر گھر میں آپ کو جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے لوگ ملیں گے۔ الیکشن میں جانے کے فیصلے سے پرانے لوگ خوش نہیں ہیں۔ وہ شاید ووٹ بھی نہ دیں۔
جماعت کے پرانے لوگوں کا کہنا ہے کہ جب الیکشن میں جانا ہی تھا تو کشمیریوں کی اتنی قربانیاں کیوں دلوائی؟ کیوں لڑکوں کو عسکریت پسندی کا سہارا لینا پڑا؟ تب ہی بتاتے کہ کشمیر کا مسئلہ انتخابات کے ذریعے حل ہونا چاہیے،’جماعت کے ایک بزرگ حامی کہتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح جماعت اسلامی کے حمایت یافتہ امیدواروں کی باتیں میڈیا کے ذریعے لوگوں تک پہنچ رہی ہیں اس سے ان کے کٹر جماعتی ہونے پر بھی شک پیدا ہو رہا ہے۔
’جماعت اسلامی کے امیدوار تعلیم کو بندوق کے خلاف رکھ رہے ہیں۔ کشمیر میں پہلے بھی تعلیم کی اہمیت رہی ہے۔ ناخواندہ نوجوانوں کا برین واش کر کےانہیں بندوق تھمایا جاتا ہے، یہ ہندوستان کا پسندیدہ بیانیہ رہا ہے۔ کشمیر میں مایوسی نے لوگوں کو بندوق اٹھانے پر مجبور کیا تھا۔ پی ایچ ڈی سکالر، پروفیسر اور ڈاکٹرتک نے عسکریت پسندی کا راستہ اختیار کیا ہے۔ اسی لیے جماعت اسلامی کے حمایت یافتہ امیدواروں کی باتیں شکوک و شبہات کو جنم دیتی ہیں کہ کہیں انہیں ہندوستانی ایجنسیاں تو کھڑا نہیں کروا رہی ہیں،‘انہوں نے مزید کہا۔
انتخابات میں ایجنسیوں کے کردار پر بحث اس وقت شروع ہوئی، جب نیشنل کانفرنس کے اسٹار امیدوار اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کے خلاف گاندربل سیٹ سےجیل میں بند علیحدگی پسند مولوی سرجن برکتی (کشمیر میں برکتی’آزادی چاچا’ کے نام سے مشہور ہیں۔) نے اپنی بیٹی صغریٰ برکتی کے ذریعے نامزدگی کا پرچہ داخل کیا۔ تاہم، الیکشن کمیشن نے ان کی نامزدگی مسترد کر دی تھی۔ لیکن کچھ دنوں کے بعد جب عمر عبداللہ نے اعلان کیا کہ وہ بیرواہ سیٹ سے بھی پرچہ نامزدگی داخل کریں گے تو سرجن برکتی بھی پرچہ نامزدگی داخل کرنے وہاں پہنچے۔
تاہم، عمر عبداللہ کے مطابق بیرواہ سے الیکشن لڑنے کا اعلان ان کی حکمت عملی تھی۔ انہوں نے جان بوجھ کر بیرواہ کا اعلان کیا تھا۔ جبکہ بڈگام سیٹ سے ان کی نامزدگی کے لیے تمام تیاریاں مکمل کر لی گئی تھیں۔ ایک طرف جہاں برکتی کا پرچہ نامزدگی بیرواہ میں داخل ہوا، عمر عبداللہ نے بڈگام سے پرچہ نامزدگی داخل کر یا۔ اس وقت دونوں دو دو سیٹوں سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔
جنوبی کشمیر کے برکتی کا عمر کی سیٹ سے الیکشن لڑنا، کئی لوگوں کو ایجنسیوں کی سازش معلوم پڑتی ہے۔ صغریٰ کا کہنا ہے کہ انہوں نے انجینئر رشید کی جیت سے متاثر ہو کر اپنے والد کو الیکشن میں اتارنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان کی ایجنسیوں کے ساتھ کوئی ڈیل نہیں ہوئی ہے۔ برکتی کے حامیوں کو لگتا ہے کہ ان کے جیل میں ہونے کی وجہ سے ہمدردی کے ووٹ برکتی کے حق میں پڑیں گے۔
کشمیریوں کو ان آزاد امیدواروں کی امیدیں دلچسپ لگتی ہیں۔ ‘یہ امید کرناکہ آپ ایم ایل اے منتخب ہو جائیں گے اور حکومت آپ کی تنظیم پر سے پابندی ہٹا دے گی یا آپ کو جیل سے رہا کر دیا جائے گا- امیدواروں کو یہ امید کیسے ہے، یہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ کشمیر کے کئی نوجوان برسوں سے جیلوں میں ہیں، کیا انہیں رہائی کے لیے الیکشن لڑنا پڑے گا؟ دوسرا، آپ ان امیدواروں کی باتوں پر غور کریں۔ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ کشمیر میں سب کچھ نارمل ہے۔ انہیں انتخابات آزادانہ اور منصفانہ لگتے ہیں۔ انجینئر رشید کی جیت نےبھلے ہی انہیں الیکشن لڑنے کی تحریک دی ہو، لیکن ان کے مسائل عوام کے مسائل نہیں ہیں۔ اسی لیے مجھے ان کے آزاد ہونے کے دعووں پر شک ہے،’ شوپیاں کے ایک بڑے تاجر نے کہا۔
واضح ہو کہ جماعت نے اس سے قبل 2014 میں مفتی محمد سعید کی پی ڈی پی کی حمایت کی تھی۔ تب پی ڈی پی نے وادی میں 28 سیٹیں حاصل کی تھیں اور بی جے پی کے ساتھ مخلوط حکومت بنائی تھی۔
‘کئی عسکریت پسند حکومت سے بات چیت کرکے قومی دھارے میں شامل ہونا چاہتے تھے، لیکن محبوبہ مفتی کی حکومت نے انہیں مروا دیا۔ پی ڈی پی آج اس کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔ اگر کل جماعت اسلامی کے حمایت یافتہ امیدوار کسی بھی طرح سے بی جے پی کے ساتھ کام کرتے نظر آتے ہیں تو یہ وادی میں ایک طرح کی بغاوت کو جنم دے سکتا ہے،’ جماعت اسلامی سے وابستہ ایک بزرگ نے بتایا۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ جماعت انجینئر رشید کی عوامی اتحاد پارٹی کو بھی سپورٹ کر رہا ہے، ‘کیونکہ انجینئر کم از کم ہمت کرکے وہی باتیں کررہا ہےجو کشمیریوں کے حقیقی مسائل ہیں۔’
تاہم، یہ کشمیر کے لیے ایک خصوصی انتخاب ہے جہاں پرانے ‘کھلاڑیوں’ کے بارے میں کم بات کی جا رہی ہے اور نئے ‘کھلاڑیوں’ نے دھما چوکڑی مچا رکھی ہے۔
(روہن کمار آزاد صحافی ہیں۔)
Categories: الیکشن نامہ, گراؤنڈ رپورٹ