سری لنکا کے بڑے سیاسی گھرانوں کو شکست دے کر انورا کمارا ڈسانائیکے عوام کی پہلی پسند بنے ہیں۔ سری لنکا کے نو منتخب صدر محنت کش طبقے کی وکالت اور سیاسی اشرافیہ کے خلاف اپنی جارحانہ تنقید کے لیے معروف ہیں۔
نئی دہلی: اقتصادی بحران کا سامنا کررہے سری لنکا کے لوگوں نے بےحد معمولی دیہی پس منظر سے تعلق رکھنے والے بائیں بازو کے رہنما انورا کمارا ڈسانائیکے کو اپنا نیا صدر منتخب کر لیا ہے۔ 55 سالہ ڈسانائیکے جنتھا ومکتی پیرامونا (جے وی پی) کے لیڈرہیں، جو مارکسسٹ-لیننسٹ کی طرف جھکاؤ رکھنے والی پارٹی ہے۔ وہ صدارتی انتخابات میں نیشنل پیپلز پاور (این پی پی) اتحاد کے امیدوار تھے۔
ووٹ فیصد کی بات کریں تو ڈسانائیکے نے 42.31 فیصد ووٹ حاصل کیے اور ان کے سب سے قریبی حریف سجت پریماداسا (سابق صدر رانا سنگھے پریماداسا کے بیٹے) کو 32.71 فیصد ووٹ ملے۔
وہیں موجودہ صدر رنیل وکرما سنگھے صرف 17.27 فیصد ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے۔ سابق صدر مہندا راجا پکشے کے بیٹے نمل راجا پکشے کو تین فیصد سے بھی کم ووٹ ملے۔
یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سری لنکا کے بڑے سیاسی گھرانوں کو شکست دے کر انورا کمارا ڈسانائیکے عوام کی پہلی پسند بنے ہیں۔ ڈسانائیکے محنت کش طبقے کی وکالت اور سیاسی اشرافیہ کے خلاف اپنی جارحانہ تنقید کے لیےمعروف ہیں۔
بتادیں کہ سال 2022 میں بڑے پیمانے پراحتجاجی مظاہروں کے بعد گوٹابایا راجہ پکشے کو صدارتی عہدہ چھوڑنا پڑا تھا، اس کے بعد سے ملک میں عوام کی منتخب کردہ کوئی حکومت نہیں تھی۔
کون ہیں انورا کمارا ڈسانائیکے ؟
انورا کمارا ڈسانائیکے 24 نومبر 1968 کو وسطی صوبے کے ایک چھوٹے سے گاؤں گالیویلےمیں پیدا ہوئے۔ تاہم، ان کی پرورش کیکی راوا میں ہوئی۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق ، ان کی تعلیم کا آغاز دمبوتھ گاما کے گامنی اسکول سے ہوا اور بعد میں انہوں نے دمبوتھ گاما سینٹرل کالج میں داخلہ لیا۔ وہ پڑھائی میں اول تھے۔ وہ اپنے اسکول سے یونیورسٹی میں داخلہ پانے والے پہلے طالبعلم تھے۔
سال 1992 میں ڈسانائیکے نے کولمبو کے قریب یونیورسٹی آف کیلانیہ میں زرعی علوم کا مطالعہ شروع کیا۔ گریجویشن کے دوران ہی وہ جنتھا ومکتی پیرامونا (جے وی پی) کی طرف متوجہ ہوئے، جس کی شناخت 1971 اور 1987-89 کی مسلح بغاوتوں سے تھی۔ اس وقت یہ پارٹی مظلوم سنہلی دیہی نوجوانوں کی نمائندگی کے لیےمعروف تھی۔
جنتھا ومکتی پیرامونا کا مقصد اس سیاسی اور معاشی نظام کو اکھاڑ پھینکنا تھا، جسے وہ استحصالی اور جاگیردارانہ سمجھتے تھے۔
ڈسانائیکے نے 1995 میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی اور 1997 میں جے وی پی کے یوتھ ونگ سوشلسٹ یوتھ آرگنائزیشن کا نیشنل کوآرڈینیٹر بنایا گیا۔ ڈسانائیکے نے جلد ہی پارٹی کے اندر ایک تبدیلی لانے والی شخصیت کے طور پر اپنی شناخت بنالی۔ ایک سال بعد 1998 میں انہیں جے وی پی کی مرکزی کمیٹی اور پھر اس کی سیاسی کمیٹی میں شامل کیا گیا۔ انتخابی سیاست میں ان کا پہلا امتحان 1998 کے مرکزی صوبائی کونسل کے انتخابات میں آیا۔ تاہم، جے وی پی اس میں جیت حاصل نہیں کر سکی۔
دو سال بعد ڈسانائیکے پارلیامنٹ کے لیے منتخب ہوئے۔ 2004 میں بنی مخلوط حکومت میں انہوں نے زراعت اور آبپاشی کے وزیر کے طور پر کام کیا۔ وزیر کے طور پر انہوں نے ایک اہل منتظم کی حیثیت سے عزت حاصل کی۔ اپنے دور میں انہوں نے زرعی اصلاحات اور دیہی ترقی کو سیاسی بحث کے مرکز میں رکھا۔
ڈسانائیکے 2014 سے جے وی پی کی قیادت کر رہے ہیں۔ اپنی قیادت میں ڈسانائیکے نے نہ صرف پارٹی کو مسلح جدوجہد سے پارلیامانی سیاست تک پہنچایا بلکہ پارٹی کی پرتشدد شبیہ کو مٹانے کا کام بھی کیا۔ ڈسانائیکے کی قیادت میں جے وی پی نے اپنے سرمایہ دار مخالف موقف کو نرم توکیا لیکن اپنے سامراج مخالف بیان بازی کو برقرار رکھا۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق ، ‘ایک رہنما کے طور پر انورا کمارا ڈسانائیکے نے طبقاتی جدوجہد جیسے کلاسیکی مارکسی نظریات کے مقابلےکرپشن مخالف اقدامات، گورننس اصلاحات اور قوم پرستی پر توجہ مرکوز کی ہے۔’
کیسے ملی جیت؟
سال 2019 میں ڈسانائیکے سری لنکا کی سیاست میں ایک نمایاں شخصیت کے طور پر ابھرے، اور انہیں نو تشکیل شدہ نیشنل پیپلز پاور (این پی پی) اتحاد کا صدارتی امیدوار بنایا گیا۔ اگرچہ انہیں صرف 3.16فیصد ووٹ ملے، لیکن یہ 2019 کی مہم تھی جس نے 2024 کے انتخابات کی بنیاد رکھی۔
اس پس منظر میں ڈسانائیکے کے حق میں ماحول بنایا گیا اس کی وضاحت کرتے ہوئے سینئر صحافی نروپما سبرامنیم دی وائر کو بتاتی ہیں،’گوٹابایا راجا پکشے کی حکومت میں سری لنکا کے لوگوں کو صاف نظر آرہا تھا کہ وہ کس قدر غربت میں زندگی گزار رہے ہیں،کھانے پینےکی چیزوں اور بنیادی سہولتوں کو ترس رہے ہیں اور حکومت کچھ بھی کرنے سے قاصر ہے۔ دوسری طرف حکومت چلانے والوں کی دولت بڑھتی جا رہی تھی اور ان کے خاندان کے افراد بیرون ملک عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے تھے۔ لوگ حکومت کی اس کرپشن اور اقربا پروری سے تنگ آچکے تھے۔‘
انہوں نے مزید کہا، ‘2022 میں اس کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے اور گوٹابایا راجا پکشے کو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا۔ جے وی پی 2022 کے ‘آراگلیا’ (اس لفظ کا مطلب سنہلی زبان میں جدوجہد ہوتا ہے) میں بھی شامل تھا، لیکن ایک لیڈر کے طور پر نہیں۔ اس کے بعد رنیل وکرما سنگھے صدر بنے۔ جبکہ ان کے پاس پارلیامنٹ میں ایک بھی سیٹ نہیں تھی۔ دراصل، عام طور پر صدارتی انتخاب ووٹرز کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ لیکن خاص حالات میں پارلیامنٹ یہ کام بھی کر سکتی ہے۔ گوٹابایا کے عہدہ چھوڑنے کے بعد ان کی پارٹی نے رنیل وکرما سنگھے کی حمایت کر دی۔ اب تحریک اور جدوجہد میں شامل لوگ اپنے آپ کو ٹھگا ہوا محوس کر رہے تھے کیونکہ وہ پورے سیاسی نظام میں تبدیلی کا مطالبہ کرتے ہوئے سڑکوں پر اترے تھے۔‘
سبرامنیم نے مزید کہا، ‘2022 کے بعد بھی لوگوں کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ مہنگائی بڑھتی رہی۔ بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی پر لوگوں کے کنکشن کاٹ دیے گئے۔ لوگ ایندھن اور ادویات کی فکر میں مبتلا رہے۔ لیکن اس بار لوگوں نے اپنے غصے کا اظہار احتجاج کی صورت میں نہیں کیا اور اس دوران ڈسانائیکے نے خود کو تبدیلی کے چہرے کے طور پر پیش کیا۔ لوگوں نے ‘آراگلیا’ کے دوران قومی سطح پر ڈسانائیکے کو دیکھا تھا، اس لیے وہاں جو بھی حکومت مخالف ووٹ تھا، جو تبدیلی چاہتے تھے، بائیں بازو کے رہنما کی طرف شفٹ ہو گیا۔ ویسے بھی، جے وی پی سری لنکا میں واحد کیڈر بیس پارٹی ہے۔‘
انڈین ایکسپریس کی ایک خبر بھی اس جانب اشارہ کرتی ہے، ‘اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں ہے کہ بائیں بازو کی جے وی پی سری لنکا کی تاریخ میں پہلی بار فاتح بن کر ابھری، کیونکہ اس کے آثار گزشتہ ڈھائی سال سے نظر آرہے تھے۔ ‘
ہندوستان کے لیے اس جیت کے کیا معنی ہیں ؟
جے وی پی کی تشکیل 1960 کی دہائی میں کمیونسٹ پارٹی آف سری لنکا (سی پی ایس ایل) سے الگ ہونے والے ایک گروپ نے کی تھی، جسے چین نواز سمجھا جاتا تھا۔ درحقیقت، اس وقت عالمی کمیونسٹ تحریک دو بڑے دھڑوں میں بٹی ہوئی تھی- ایک سوویت یونین سے منسلک تھی، جو اپنی فطرت میں زیادہ اصلاح پسند اور پارلیامانی سوشلسٹ تھی، اور دوسری چین کے ساتھ، جو انقلابی جدوجہد اور ماؤسٹ اصولوں کی وکالت کرتی تھی۔
جے وی پی نے سری لنکا میں ہندوستان کے اثرات کو کم کرنے کے لیے پرتشدد تحریک بھی شروع کی ۔ 1980 کی دہائی میں تامل علیحدگی پسندوں (خاص طور پرایل ٹی ٹی ای سے وابستہ جنگجوؤں) کو کچلنے میں سری لنکا حکومت کی مدد کرنے کے لیے راجیو گاندھی کی حکومت نےانڈین پیس کیپنگ فورس (آئی پی کے اید) بھیجی تھی، جس کی جے وی پی نے سخت مخالفت کی تھی۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق ، اس عرصے میں جے وی پی نے ہندوستانی اشیا اور کاروبار کو نشانہ بنایا تھا۔ اس مہم کے دوران 1989 میں ایک دوا ساز کمپنی کے سربراہ کو بھی قتل کر دیا گیا تھا۔
جے وی پی کا سنہلی قوم پرست طرز عمل سری لنکا کی اقلیتی برادریوں جیسے تمل اور مسلمانوں کے خلاف بھی رہا ہے۔ تاہم ،ماہرین کا خیال ہے کہ یہ پرانی باتیں ہیں۔ اب جے وی پی کا راستہ بدل گیا ہے۔
سبرامنیم بھی کہتی ہیں کہ جے وی پی میں کافی تبدیلی آئی ہے۔ سنہلی قوم پرستی کے نظریات اور بائیں بازو کی پرانی اقتصادی پالیسی پر اختلافات کی وجہ سے پارٹی تقسیم بھی ہو چکی ہے۔ جب سے ڈسانائیکے نے پارٹی کی کمان سنبھالی ہے، وہ پرانے داغوں سے چھٹکارا پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جہاں تک ہندوستان کے ساتھ تعلقات کا تعلق ہے تو اس نے ہندوستان کو ایک اقتصادی طاقت کے طور پر قبول کیا ہے، ان کا ماننا ہے کہ ہندوستان کے بغیر کام نہیں چل سکتا۔ ویسے بھی سری لنکا کا زیادہ تر انحصار ہندوستان سے درآمد ہونے والی اشیا پر ہے، چاہے وہ آلو، دال اور ٹماٹر ہی کیوں نہ ہو۔‘
سری لنکا میں بحران کے دوران ہندوستان نے مالی مدد کی تھی، چین بھی سری لنکا کی مدد کرتا رہا ہے۔ ایسے میں سری لنکا کی نئی حکومت اس بات کو سمجھے گی کہ کسی بھی پڑوسی ملک کے ساتھ خراب رشتہ اس کی معیشت کے لیے کتنا نقصاندہ ہو سکتا ہے۔
سبرامنیم کا ماننا ہے کہ ایک دوسرے کے تئیں دونوں ملکوں کی خارجہ پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ جب سری لنکا میں ڈسانائیکے کی ہوا کی آہٹ ملی تو دہلی نے بھی انہیں فوراً مدعو کیا۔ وہ اس سال فروری میں ہندوستان آئے تھے۔ ان کی وزیر خارجہ ایس جئے شنکر اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال اور دیگر سینئر حکام سے ملاقات ہوئی تھی ۔ انہوں نے دہلی اور کیرالہ سمیت کئی مقامات کا دورہ کیا تھا۔
اگرچہ انڈین ایکسپریس نے لکھا ہے کہ ڈسانائیکے کچھ محاذوں پر ہندوستان کے مفادات کے لیےچیلنج پیش کر سکتے ہیں، ‘ڈسانائیکے نے سری لنکا کے آئین کی 13ویں ترمیم کے نفاذ کی حمایت نہیں کی ہے، جو ملک کی تامل اقلیت کو اختیارات دیتا ہے اور یہ طویل عرصے سے حکومت ہندکا مطالبہ رہا ہے۔ …انہوں نے لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلم (ایل ٹی ٹی ای) اور سری لنکن آرمی کے درمیان خانہ جنگی کے دوران ہونے والے مبینہ جنگی جرائم کی تحقیقات کی بھی مخالفت کی ہے۔ حالیہ مہینوں میں انہوں نے سری لنکا میں الیکشن میں کامیابی کے بعد اڈانی کے 450 میگاواٹ کے ونڈ پاور پروجیکٹ کو منسوخ کرنے کی بھی بات کہی ہے۔ انہوں نے اس معاہدے کو کرپٹ اور ملکی مفادات کے خلاف قرار دیا ہے۔‘
سبرامنیم کا کہنا ہے کہ اڈانی کے خلاف ناراضگی صرف جے وی پی یا ڈسانائیکے میں نہیں ہے۔ جس طرح سے یہ معاہدہ ہوا تھا،اس کے خلاف ایک طرح سے پورسے سری لنکا میں ناراضگی ہے۔
Categories: عالمی خبریں, فکر و نظر