آسٹریلیائی فلمساز ڈیوڈ بریڈبری نے 2012 میں تمل ناڈو کے کوڈنکلم نیوکلیئر پاور پلانٹ کے خلاف احتجاجی مظاہرے کو ایک ڈاکیومنٹری کے طور پرریکارڈ کیا تھا۔ حال ہی میں اپنے بچوں کے ساتھ ذاتی دورے پر چنئی پہنچے بریڈبری کو حراست میں لینے کے بعد ملک بدر کر دیا گیا۔
ممبئی: تمل ناڈو کے 2012 کے کوڈنکلم نیوکلئیر پاور پلانٹ کی مخالفت پر فلم بنانے والے آسٹریلیائی ڈاکیومنٹری فلمساز ڈیوڈ بریڈبری کو ہندوستان میں داخلے سے روک دیا گیا۔
رواں مہینے 10 ستمبر کو 73 سالہ ڈیوڈ بریڈبری اپنے دو بچوں کے ساتھ چنئی ہوائی اڈے پر اترے تھے، جہاں سے انہیں حراست میں لے لیاگیا اور ان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی۔ اس دوران ان کے بچوں (14 سالہ بیٹی اور 21 سالہ بیٹے) کو جانے دیا گیا۔
معلوم ہو کہ بریڈبری دو ہفتوں کے لیے ہندوستان آئے تھے، انھوں نے پانچ مختلف سیاحتی مقامات دیکھنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس کے لیے انہوں نے ہوٹل کی بکنگ کے ساتھ دیگر انتظامات بھی کیے تھے۔
تاہم، بریڈبری کو مبینہ طور پر 24 گھنٹے سے زیادہ وقت تک حراست میں رکھا گیا اور آسٹریلیائی سفارت خانے سے رابطہ کرنےسے بھی منع کر دیا گیا۔ اس دوران انہیں دوا بھی نہیں لینے دیا گیا اور انہیں بیت الخلاء تک جانے کی سہولت نہیں دی گئی۔ بالآخرانہیں ملک چھوڑنے کے لیے مجبور کر دیا گیا، جبکہ ان کے بچے ہندوستان میں ہی رہے۔
دی وائر کو بریڈبری کے ای ویزا کی ایک کاپی کے ساتھ ساتھ ان کے پاسپورٹ پر لگی مہریں بھی ملی ہیں، جس میں 10 ستمبر کو بنکاک (جہاں سے خاندان چنئی سے آ رہا تھا) سےان کے باہر نکلنے اور 12 ستمبر کو بنکاک میں ان کے دوبارہ پہنچنے کا ذکر ہے۔
واضح ہوکہ یہ بریڈبری کا ہندوستان کا پہلا دورہ نہیں تھا۔ 2012 میں وہ ممبئی انٹرنیشنل فلم فیسٹیول کے دوران جیوری ممبر کے طور پر ہندوستان آئے تھے۔ اس تقریب کے بعد بریڈبری نے اپنی اہلیہ ٹرینا لینتھل (جو چند ماہ قبل انتقال کر گئیں) اور بیٹے عمر (جس کی عمر اس وقت تین سال کے تھے) کے ساتھ تمل ناڈو کے ضلع ترونیل ویلی کے ساحلی گاؤں کا بھی دورہ کیا تھا۔
اس وقت کوڈنکلم نیوکلیئر پاور پلانٹ سے چند کلومیٹر دور واقع ایک گاؤں میں وہ اور ان کی اہلیہ نے دو ہفتے سے زیادہ قیام کیا تھا اور نیوکلیئر پاور پلانٹ کے خلاف جاری احتجاجی مظاہرے کو ریکارڈ کیا تھا۔
واضح ہو کہ اس پلانٹ کے خلاف احتجاج کی قیادت کررہے گاؤں والوں کو اس وقت پولیس تشدد اور دیگر کئی الزامات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس سلسلے میں بریڈبری نے آسٹریلیا واپسی پر ایک مقامی خبر رساں ادارے میں اس حوالے سے ایک مضمون بھی لکھا تھا۔
یہ وہ وقت تھا، جب ملک میں کوڈنکلم نیوکلیئر پاور پلانٹ کی مخالفت زور پکڑ رہی تھی اور گاؤں والے اس کی مخالفت کر رہے تھے۔ بریڈبری کا کہنا ہے کہ اس سفر کے دوران ان کا خاندان جس گاؤں میں رہتا تھا،وہاں کے لوگوں کی روزمرہ کی زندگی کو فلماتا تھا۔
بریڈبری کا خیال ہے کہ ان کی حراست اور اس کے بعد ملک بدری کا براہ راست تعلق ان کے گزشتہ ہندوستانی دورے اور اس کے بعدکیے گئے کے کام سے ہے۔
ہوائی اڈے پر بدسلوکی
بریڈبری بتاتےہیں کہ ہوائی اڈے پر انہیں اونچی چھت والے ایک چھوٹے سے کمرے میں لے جایا گیا، جس میں ایک گندے گدے اور بغیر چادر والا بستر تھا، جس کے فرش پر کاغذات اور کوڑاکچرا پڑا ہوا تھا۔ وہاں ان سے ان کے موجودہ دورے کا مقصد، 2012 میں ان کے ہندوستان کے دورے کی وجہ اور ملک میں ان کے رابطوں کے بارے میں بتانے کے لیے کہا گیا۔
بریڈبری کے مطابق، حکام نے اس پر زور دیا کہ وہ اپنا فون ان لاک کر دیں اورہندوستان میں اپنے معاونین کے رابطہ نمبر شیئر کریں، جس سے انہوں نے انکار کر دیا۔
بریڈبری نے الزام لگایا کہ ان کی حراست کے دوران نئی دہلی میں آسٹریلیائی سفارت خانے سے رابطہ کرنے کی ان کی درخواستوں کو نظر انداز کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ، ان کی صحت سے متعلق مسائل کے باوجود، انہیں دوا لینے سے بھی انکار کر دیا گیا تھا۔جب انہوں نے گرم کپڑے اور بیت الخلا کی سہولت مانگی تو اہلکاروں نے اس سے بھی انکار کر دیا، جس کے بعد بالآخر انہیں مجبور ہوکرایک پیپر کپ میں پیشاب کرنا پڑا۔
دی وائر نے وزارت داخلہ کے ترجمان سے فلمساز کی جانب سے لگائے گئے الزامات پر تبصرہ کرنے کے لیے رابطہ کیا ہے، لیکن ابھی تک کوئی جواب نہیں ملا ہے۔ وزارت کی جانب سے جواب آنے پراس رپورٹ کواپ ڈیٹ کیا جائے گا۔
بریڈبری کا کہنا ہے کہ جب 2012 میں اس وقت کی تمل ناڈو اور مرکزی حکومتوں نے زلزلے سے متاثرہ ایک بڑے علاقے پر چھ جوہری ری ایکٹر بنانے کا فیصلہ کیا تو یہ نہ صرف ان کے اپنے لوگوں کے لیے بلکہ سری لنکا اور دیگر قریبی ممالک میں رہنے والے اربوں لوگوں کے لیے بھی غیر ذمہ دارانہ رویہ تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر ان ری ایکٹر میں سے کسی ایک میں بھی فوکوشیما یا چرنوبل یا امریکہ کے تھری مائل آئی لینڈ جیسے ایٹمی حادثہ ہوتا ہے تو اس کی تابکاری کے اخراج سے کینسر جیسے سنگین اور مہلک نتائج برآمد ہوں گے۔
غورطلب ہے کہ بریڈبری کی اہلیہ، جو ایکٹوسٹ اور فلمساز تھیں، کاپانچ ماہ قبل کینسر کی وجہ سے انتقال ہو گیا تھا، جس کے بعد خاندان نے وارانسی جانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس بارے میں بریڈبری کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو دکھانا چاہتے ہیں کہ کیسے ہندو مذہب کے ماننے والے اپنے پیاروں کو الوداع کہتے ہیں۔
بریڈبری کی حراست کے دوران ان کے بچوں نے پہلے سے طے شدہ منصوبہ کے مطابق اپنا سفر جاری رکھا، جیسا کہ ان کے والد نے انہیں بتایاتھاکہ اگر وہ واپس چلے گئے تو وہ ایک نئے ملک کو جاننے کا موقع گنوا دیں گے۔
بریڈبری کی بیٹی چنئی کے ہوائی اڈے پر جو کچھ ہوا اس سے حیران رہ گئی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ انتہائی افسوسناک اور غلط تھا۔ ان کے پاس (ان کے والد کو) اس طرح ہراساں کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔
بریڈبری کے بچوں کا دعویٰ ہے کہ چند گھنٹوں کے دوران جب وہ ہوائی اڈے پر تھے اور بیریکیڈ کے پار ڈیوڈ کو دیکھنے اور بات کرنے کے قابل تھے، پولیس نے ان سے کہا کہ وہ اپنے والد کو بنکاک واپس جانے پر راضی کرلیں۔ لیکن بچوں نےاس سے انکار کر دیا۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )
Categories: عالمی خبریں