الیکشن نامہ

ہریانہ انتخابات: کتنا مضبوط ہے جوان، کسان اور پہلوان فیکٹر؟

فوج میں جوانوں کی قلیل مدتی بھرتی کے لیے لائی گئی ‘اگنی پتھ’ اسکیم، دہلی کی سرحدوں پر اپنے مطالبات پر ڈٹے کسان اور راجدھانی میں ہی پولیس کے ذریعے گھسیٹے گئے پہلوانوں کے معاملے ہریانہ کے موجودہ اسمبلی انتخابات پر شدید طور پر اثر انداز ہوتے نظر آ رہے ہیں۔

(بائیں سے)بھیوانی ضلع کے ایک کسان، اچینا گاؤں کی ایک شہید یادگار اور ونیش پھوگاٹ (تصویر: دیپک گوسوامی اور انکت راج/ دی وائر )

(بائیں سے)بھیوانی ضلع کے ایک کسان، اچینا گاؤں کی ایک شہید یادگار اور ونیش پھوگاٹ (تصویر: دیپک گوسوامی اور انکت راج/ دی وائر )

بھیوانی/جند/چرخی دادری:‘… انتخابات میں کانگریس فرنٹ فٹ پر ہے اور بی جے پی بیک فٹ پر… اس کی تین وجوہات ہیں– جوان ، کسان اور پہلوان۔’سیاسی تجزیہ کار اور اندرا گاندھی نیشنل کالج، کروکشیتر کے پرنسپل ڈاکٹر کشل پال کے یہ لفظ ہریانہ کی انتخابی بساط کی بہترین  وضاحت  پیش کرتے ہیں۔

فوج میں جوانوں کی قلیل مدتی بھرتی کے لیے لائی گئی ‘اگنی پتھ’ اسکیم، دہلی کی سرحدوں پر اپنے مطالبات پر ڈٹے  کسان اور راجدھانی میں ہی پولس کے ذریعے گھسیٹے گئے  پہلوانوں کے معاملے کا ہریانہ کے موجودہ اسمبلی انتخابات پر گہرا اثر نظر آتا ہے۔

چرخی دادری ضلع میں جوانوں کے گاؤں اچینا کی طرف جیسے جیسے آگےبڑھتے ہیں،تھوڑے-تھوڑے فاصلے پر ہی شہیدوں  کی یادگاریں نظر آنے لگتی ہیں۔

چرخی دادری ضلع کی معیشت کا انحصار زراعت پر ہے۔ یہ پہلوانوں کے احتجاج کے مرکز میں رہیں خاتون پہلوان ونیش پھوگاٹ کا آبائی ضلع بھی ہے۔ وہیں، تقریباً 10 ہزار کی آبادی والے اچینا گاؤں میں ہر دوسرا گھر فوجیوں کا ہے اور گاؤں کی شجاعت کی داستان مختلف جگہوں پر بنائی گئی شہیدوں  کی یادگاریں سنا ہی دیتی ہیں۔

اچینا گاؤں میں داخل ہوتے ہی تھوڑے تھوڑے  فاصلے پر شہیدوں کی یادگاریں نظر آتی ہیں۔ (تصویر: دیپک گوسوامی/ دی وائر)

اچینا گاؤں میں داخل ہوتے ہی تھوڑے تھوڑے  فاصلے پر شہیدوں کی یادگاریں نظر آتی ہیں۔ (تصویر: دیپک گوسوامی/ دی وائر)

گاؤں میں داخل ہوتے ہی ایک چوپال جمی نظر آتی ہے، جہاں حقہ  کے گرد بیٹھے لوگوں میں سے ایک مکیش کہتے ہیں،’اس بار کانگریس کے حکومت بنانے کے امکانات زیادہ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلوان اس کے ساتھ ہو گئے ہیں۔ اگر پہلوان متحد  نہ ہوتے تو مقابلہ برابر کا تھا۔’

تھوڑا آگے جانے پر انیتا نامی خاتون کہتی ہیں،’اگر مجھے اگنی پتھ اسکیم لانے کے نام پر بی جے پی کو ووٹ دینا پڑے تو میں ووٹ ہی نہ دوں ۔’

انیتا کے شوہر فوج میں صوبیدار ہیں اور ان کا اکلوتا بیٹا ڈیڑھ سال قبل ہی اگنی ویر کے طور پر فوج میں شامل ہوا ہے۔ انیتا کہتی ہیں،’اس کے والدتو بول رہے تھے کہ اگنی ویر نہ بن۔ بیٹے کو ہی  فوج میں جانے کا جنون  سوار تھا۔ اب کنفرم ہو جائے تو فائدہ ہے، ورنہ کوئی اپنی بیٹی بھی شادی کے لیے نہیں دے گا۔’

اچینا اہیر اکثریتی گاؤں ہے۔ اس کمیونٹی کو حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا حامی سمجھا جاتا ہے۔ دی وائر سے بات کرنے والے تقریباً سبھی لوگ اسی کمیونٹی سے تھے۔ اگرچہ وہ کھیتی باڑی اور کسانوں کی تحریک کو لے کر بی جے پی کی مخالفت کرتے نہیں دیکھے گئے، لیکن اگنی پتھ اسکیم اور پہلوانوں کے ساتھ سلوک پر ان کا رویہ پارٹی کی حمایت میں نہیں تھا۔

چاٹ فروش اوم پرکاش نے کہا، ‘چار سال  بعد جب وہ (اگنی ویر) فوج سے ریٹائر ہوں گے تو وہ کوئی اور کام نہیں کر پائیں گے، انتہا پسند ہی بنیں گے۔’

پاس ہی کھڑے بھاگچندر نے بتایا کہ ان  کا بھانجہ  ڈیڑھ سال سے اگنی ویر ہے، اب اس کا دماغ اسی میں الجھا رہتا  ہے کہ آگے کیا ہوگا؟ چار سال بعد فوج میں رکھیں گے یا نہیں؟ وہ کہتے ہیں،’اگنی پتھ کو لانے کا فیصلہ سراسر  غلط اور مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کرنے والا تھا۔’

‘صرف کسان، جوان  اور پہلوان ہی نہیں… ملازمین بھی بی جے پی حکومت میں پریشان ہیں۔ انہوں نے پہلوانوں کو پیٹا، ملازمین پر پانی ڈالا اور لاٹھی چارج کیا…لوگ سب کچھ اپنے ذہن میں رکھتے ہیں، یہ سب بی جے پی کے خلاف کام کرے گا،’ بھاگچندر نے کہا۔

بھاگچندر ایک سرکاری ملازم ہیں اور مرکز کی طرف سے لائی گئی نئی یونیفائیڈ پنشن اسکیم (یو پی ایس) پر بھی حکومت سے ناراض تھے۔جس غیر جاٹ برادری کو ہدف بناکر بی جے پی ریاست میں پھر سے حکومت بنانے کی حکمت عملی بنا رہی ہے، بھاگچندر انہی غیر جاٹ میں سے ایک دھانک سماج سے آتے ہیں۔

§

صرف اچینا ہی نہیں بلکہ دوسرے گاؤں  دیہات میں بھی کسانوں سے بات کرنے کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ بی جے پی کسانوں کے ایک طبقے کے ذہن میں یہ بات بٹھانے میں کامیاب رہی  ہے کہ دہلی کی سرحد پر کسانوں کی تحریک کانگریس کے اکسانے پر کی گئی تھی۔جس میں صرف جاٹ کسانوں نے حصہ لیا تھا اور جہاں پیسے دے کر فرضی کسانوں کی بھیڑ جمع  کی گئی تھی۔

اچینا کے سریش کہتے ہیں،’کسان تحریک کا انعقاد کانگریس نے کیا تھا، جس میں حقیقی کسانوں نے حصہ نہیں لیا۔’

ایک اور کسان نوجوان کہتے ہیں،’کسان تحریک میں پنجاب کے کسان تھے اور لوگوں کو ہزار ہزار  روپے دے کر دھرنے پر بٹھایا گیا تھا۔ جس کسان کے کھیت میں فصل کھڑی ہو وہ کھیت چھوڑ کر احتجاج پر نہیں جاتا۔’

دہلی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے گاؤں واپس لوٹے ہتیش کہتے ہیں،’کسانوں کی تحریک زیادہ تر جاٹوں کی تھی۔’

اس جاٹ اینگل کے سہارے بی جے پی پہلوانوں کے مظاہرے کو بھی کمتر دکھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ رائے دہندگان  کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ریسلنگ سے وابستہ زیادہ تر پہلوان جاٹ ہیں، اور وہ ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا (ڈبلیو ایف آئی) پر اپنی گرفت برقرار رکھنے کے  اور کانگریس کے کہنے پر احتجاج کر رہے تھے۔ تاہم، کھیلوں سے اپنے وقار کو جوڑنے والے ہریانہ میں یہ دلیل زیادہ کارگر نظر نہیں آتی ہے۔ لوگ پہلوانوں کے تئیں نرم رویہ رکھتے ہیں، لیکن وہ ونیش پھوگاٹ اور بجرنگ پونیا کے سیاست میں شامل ہونے  سے خوش نہیں  ہیں۔

سریش نے کہا، ‘جو لوگ محنت کرتے ہیں وہ ریٹائر نہیں ہوتے۔ ونیش کو اگلے اولمپک میں گولڈ میڈل کے لیے سخت محنت کرنی چاہیے تھی۔’

فوج اور دیگر سیکورٹی فورسز میں شامل ہونے کی تیاری کر رہے 18 سالہ موہت کہتے ہیں، ‘کھلاڑیوں کو سیاست سے دور رہنا چاہیے۔ پھوگاٹ ریٹائرمنٹ کا اعلان تو کر ہی چکی تھیں، لیکن ایک امید تھی کہ وہ دوبارہ کھیل سکتی  ہیں، لیکن سیاست میں قدم رکھنے کے ساتھ ہی اب ان کا کیریئر ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ایک کھلاڑی کو سیاست میں آنا چاہیے، لیکن اپنے کیریئر کے آخری مرحلے پر۔ پھوگاٹ 30 سال کی تھیں، وہ مزید کھیل سکتی تھیں۔ موہت کے چچا خود ایک پہلوان رہے ہیں اور اچینا گاؤں میں اکھاڑا بھی چلاتے ہیں۔

اچینا گاؤں میں ہی ایک حقہ  چوپال پر لوگ یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ ‘پہلوان ذات پرست ہو گئے ہیں۔’ ذات پرستی نے ونیش کو اتنا اونچا کر دیا کہ ہارنے کے بعد بھی ان کا استقبال کیا گیا۔ پہلوان کا کام کشتی میں نام کمانا ہے سیاست کرنا نہیں۔ ونیش نے کانگریس میں شامل ہو کر غلط کیا، وہ مزید 4 سال کھیل سکتی تھیں۔ انہیں کسی پارٹی میں نہیں جانا چاہیے تھا، اس صورت میں ہم ان کی مکمل حمایت کرتے کہ برج بھوشن نے خواتین پہلوانوں کے ساتھ غلط کیا۔’

اچینا گاؤں میں ایک حقہ چوپال۔ (تصویر: انکت راج/ دی وائر )

اچینا گاؤں میں ایک حقہ چوپال۔ (تصویر: انکت راج/ دی وائر )

تاہم، جاٹ برادری جوان، کسان اور پہلوانوں کے مسائل پر مکمل طور پر کانگریس کے ساتھ اور بی جے پی کے خلاف نظر آئی۔ باڈھرا اسمبلی، جہاں ونیش پھوگاٹ کا گاؤں بلالی بھی واقع ہے، کے وجیندر سانگوان نے کہا، ‘کسانوں کی تحریک کا انتخابات پر 100 فیصد اثر ہے۔’ سانگوان خود ایک کسان ہیں۔

انہوں نے بتایا، ‘پہلے گاؤں کے 100-100 بچے روزانہ صبح و شام فوج میں بھرتی ہونے کی تیاری کرتے نظر آتے تھے، اب وہ نظر نہیں آتے۔ یہ اسکیم آمریت کی علامت ہے۔ ہمارے بچے کھیلوں میں بھی جاتے تھے، لیکن آج کھیلوں کی حالت دیکھیے،  باکسنگ فیڈریشن تحلیل ہو چکی ہے۔’

پاس ہی بیٹھے بلراج چھلر حقہ کا دم بھرتے ہوئے کہتے ہیں،’جاٹوں کی قوم  فوجیوں کی ہے۔ فوج میں جاٹ رجمنٹ ہے۔ زیادہ تر جاٹ بچے کھیلوں میں تمغے لاتے ہیں۔ ہم کسانوں میں بھی زیادہ ہیں۔ وہ (بی جے پی) ہمیں ہر جگہ پریشان کر رہے ہیں۔ انتخابات میں یہ بھرم پھیلایا جا رہا ہے کہ صرف جاٹوں کو مسئلہ ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جاٹ اور غیر جاٹ کے درمیان آگ بھاجپا نے لگائی ہے۔’

باڈھرا اسمبلی حلقہ میں انتخابات پر چرچہ کرتے لوگ۔ (تصویر: دیپک گوسوامی/ دی وائر )

باڈھرا اسمبلی حلقہ میں انتخابات پر چرچہ کرتے لوگ۔ (تصویر: دیپک گوسوامی/ دی وائر )

وجیندر کہتے ہیں، ‘پہلے ریاست کے لوگ جاٹ، راجپوت، برہمن، ہندو-مسلم وغیرہ پر یقین نہیں رکھتے تھے، لیکن بی جے پی نے آ کر سب کو تقسیم کر دیا۔’

باڈھرا اسمبلی کے ایک اور شخص راجیش کہتے ہیں،’یہ صرف جاٹوں کی بات نہیں ہے، راجپوتوں کے بچے بھی فوج میں جاتے ہیں۔ چار سال کی نوکری ہمیں بھی کرنی ہے، انہیں بھی کرنی ہے، مسئلہ تو دونوں کو برابر ہو گا نہ…’

بلالی گاؤں کے راہل بلالی کہتے ہیں،’ہریانہ میں جاٹوں کا غلبہ ہے، تقریباً 30 فیصد جاٹ ہیں، اس لیےاکثریت میں جاٹ کسان ہیں۔ لیکن اگر آپ سونی پت سے آگے جائیں- جیسے کرنال، امبالا – وہاں کے تمام لوگ جاٹ  تھوڑی ہیں۔ ان میں سی ایم کی سینی برادری بھی ہے اور بہت سی دوسری ذاتیں ہیں جو کھیتی باڑی کرتی ہیں، انہیں بھی مسائل ہیں۔ زراعت صرف جاٹوں کا مسئلہ نہیں ہے، وہ صرف سیاسی فائدے کے لیے ٹھپہ لگا دیتے ہیں۔’

دریں اثنا، باڈھرا اسمبلی حلقہ میں دی وائر کو چودھری رام سوروپ کبڈی اکیڈمی کے بارے میں معلومات حاصل ہوئی، جو اب بند ہے اور اسے فوج سے ریٹائرڈ بھان سنگھ چلا رہے تھے۔ اس کے بند ہونے کی ایک وجہ اگنی پتھ اسکیم کا آنابھی  ہے۔ بھان سنگھ کے بھتیجے سونو نے کہا، ‘کورونا کی وجہ سے طلبہ پہلے ہی کم آ رہے تھے، اس  کے بعداگنی پتھ اسکیم کے آنے کے بعد جو طلبہ کھیل کے ذریعے فوج میں شامل ہونا چاہتے تھے، انہوں نے بھی آنا بند کر دیا۔’

تاہم،بھان سنگھ نے کہا، ‘انتخاب کسان، جوان  اور پہلوان سے بہت زیادہ متاثرہے، یہ حقیقت ہے۔ سب سے زیادہ اثر ڈال رہا ہےکسان۔’

صرف جاٹ ہی نہیں،’اگنی پتھ ‘ اسکیم سے بی جے پی کے حامی ووٹر بھی ناراض

راجیش کی بات بھیوانی ضلع کے توشام اسمبلی حلقہ میں واقع باپوڑا گاؤں میں معنی خیز ثابت ہوتی نظر آتی ہے۔ سابق آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ کے اس گاؤں میں ہر دوسرا گھر فوجیوں کا ہے۔ یہاں  راجپوت اور برہمنوں کا  غلبہ ہے، پھر بھی اگنی پتھ اسکیم کو لے کر پورے گاؤں میں بی جے پی کے خلاف غصہ اور مایوسی کا ماحول دیکھا گیا۔ گاؤں والوں نے بتایا کہ فوج میں بھرتی ہونے کی تیاری کرنے والے نوجوانوں کی تعداد میں بہت زیادہ کمی آئی ہے۔ وہیں، گاؤں کے سرپنچ سگریو سنگھ، جو بی جے پی سے وابستہ ہیں، نے کہا کہ ‘اگنی پتھ’ اسکیم کی وجہ سے گاؤں کے نوجوان بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے ناراض ہیں۔ اس کی وجہ سے پارٹی کو انتخابات میں نقصان ہو سکتا ہے۔

تاہم، کسانوں کی تحریک کے انتخابی اثرات کے تعلق سے بوانی کھیڑا اسمبلی کے ایک ووٹر ہری رام دی وائر سے بات چیت میں بی جے پی کی انتخابی مہم کے دوران پیش آنے والے تمام واقعات کو گنانا شروع کر دیتے ہیں، جہاں پارٹی کے رہنماؤں کو مہم کے دوران ریاست کے مختلف حصوں میں کسانوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔

غورطلب  ہے کہ گزشتہ دنوں  حصار ضلع کی آدم پور اور ہانسی اسمبلی، امبالا ضلع کی نارائن گڑھ اسمبلی (جہاں سے وزیر اعلیٰ نائب سنگھ سینی 2014 میں جیتے تھے)، فرید آباد ضلع کی بڑکھل اسمبلی، جند کی نروانا اسمبلی میں بی جے پی کے امیدواروں کو کسانوں اور مقامی کسان تنظیموں کی طرف سے بیرونی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور انتخابی مہم درمیان میں چھوڑ کر واپس آنا پڑا تھا۔ ان میں، چھ بار کے بی جے پی ایم ایل اے انل وج، جو خود کو وزیر اعلیٰ کا امیدواربتا چکے ہیں، کو بھی اپنی امبالہ چھاؤنی سیٹ پر بیرونی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

اتنا ہی نہیں، بی جے پی کو ریاست میں مخلوط حکومت بنانے میں مدد کرنے والی جننائک جنتا پارٹی (جے جے پی) کے رہنماؤں کو بھی کسانوں نے الٹے پاؤں لوٹا دیا تھا،جن میں سابق نائب وزیر اعلیٰ دشینت چوٹالہ تک شامل تھے۔

بی جے پی کا ڈیمیج کنٹرول

بی جے پی جوان، کسان اور پہلوان کے چیلنج پر قابو پانے کے لیے کوششیں بھی کر رہی ہے۔ ‘اگنی پتھ’ اسکیم کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے وہ  لوگوں میں قوم پرستی کا احساس بیدار کر رہی ہے کہ اگر مستقبل میں جنگ کی نوبت آتی ہے تو چار سال کی فوجی تربیت حاصل کرنے والے نوجوان  ہنگامی حالات میں ہتھیار اٹھا سکیں گے۔ ساتھ ہی، ووٹرز کے ذہنوں میں یہ بات بھی ڈالی جا رہی ہے کہ چار سال کی نوکری  کے بعد سب کو سرکاری اور غیر سرکاری ملازمتوں میں ترجیح دی جائے گی۔

پہلوانوں کے مظاہرے  کے اثر کو کم کرنے کے لیے ونیش پھوگاٹ اور بجرنگ پونیا کی کانگریس میں شمولیت کو بنیاد بنایا جا رہا ہے۔

وہیں، کسانوں کو خوش کرنے کے لیے   انتخابات سے عین قبل فصلوں کی برآمد ات پرعائد  پابندیاں ہٹائی جا رہی ہیں۔