لوک سبھا انتخابات 2024 میں ملنے والی برتری (دس میں سے پانچ سیٹ) کی وجہ سے کانگریس پُر اعتماد تھی۔ اس کے پاس کسانوں کی تحریک، پہلوانوں کی توہین اور اگنی پتھ اسکیم جیسے ایشوز بھی تھے، ووٹ کا فیصد بھی بڑھا، لیکن وہ اسے جیت میں تبدیل نہیں کر پائی۔
نئی دہلی: ہریانہ اسمبلی انتخابات کے نتائج تقریباً واضح ہو چکے ہیں۔ اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ بی جے پی مسلسل تیسری بار حکومت بنا کر ریاست کی سیاسی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کرنے جا رہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کانگریس جس کو جیتی ہوئی بازی مان رہی تھی، کیسے الٹ گئی ؟ کیا یہ صرف پارٹی کے اندر خلفشار کی وجہ سے ہوا یا جاٹوں کو منظم کرنے کی کوشش الٹی پڑگئی ؟ اور اینٹی انکمبنسی کا کیا ہوا ؟
گزشتہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کوواضح اکثریت نہیں ملی تھی۔ ریاست کی 90 اسمبلی سیٹوں میں سے صرف 40 پر ہی کامیابی ہوئی تھی۔ نتائج آنے کے بعد دس سیٹ جیتنے والی جننایک جنتا پارٹی (جے جے پی) کے ساتھ اتحادکرکے حکومت بچانی پڑی تھی۔
اس الیکشن میں جے جے پی کا صفایا ہو گیا ہے۔ نہ تو ایک سیٹ آئی اور نہ ہی ایک فیصد ووٹ۔ جبکہ گزشتہ انتخابات میں اس جماعت کو تقریباً پندرہ فیصد ووٹ آئے تھے۔
مانا جا رہا ہے کہ جے جے پی کے ناراض ووٹر کانگریس کی طرف گئے کیونکہ کانگریس کا ووٹ فیصد بڑھا ہے۔ گزشتہ انتخابات میں 28.08 فیصد ووٹ حاصل کرنے والی کانگریس کو اس بار 39 فیصد سے زیادہ ووٹ ملے ہیں ۔
جے جے پی کے کچھ ووٹ بی جے پی کو بھی گئے ہیں،جن کا ووٹ فیصد 36.49 سے بڑھ کر 40 فیصد سے اوپرپہنچ گیا ہے۔بی ایس پی اور آئی این ایل ڈی کو پچھلی بار بھی پانچ فیصد سے زیادہ ووٹ ملے تھے ، اس بار بھی اتنے ہی ملے ہیں۔ لاپتہ صرف جے جے پی کا ووٹ ہے جو کہا جاتا ہے کہ بی جے پی اور کانگریس کو گیا ہے۔
جاٹ بنام غیر جاٹ سے آگے کی بات
سال 2014 میں بی جے پی ایک دہائی تک وزیر اعلیٰ رہنے والے بھوپیندر ہڈا کو شکست دے کر اقتدار میں آئی تھی۔ ہڈا کا جاٹ برادری میں اثر و رسوخ سمجھا جاتا ہے۔ یہ برادری ریاست کی سیاست میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی رہی ہے، لیکن بی جے پی نے ہریانہ میں جاٹ برادری سے قطر نظر اپنی سیاست کو توسیع دی ۔
یہی وجہ تھی کہ اقتدار میں آنے کے بعد بی جے پی نے جاٹ کے بجائے پنجابی کھتری منوہر لال کھٹر کو وزیر اعلیٰ بنایا۔ کھٹر کو ساڑھے 9 سال بعد ہٹا دیا، اس کے بعد ایک او بی سی لیڈر نائب سنگھ سینی کو یہ عہدہ سونپا گیا۔
اس الیکشن میں بھی کانگریس کا زیادہ انحصار جاٹوں کی حمایت پر تھا۔ لیکن بی جے پی نے جاٹوں سے خود کو پوری طرح سے دور نہیں کیا بلکہ جہاں ضرورت تھی وہاں کانگریس سے بھی لاکر جاٹ لیڈروں کو ٹکٹ دیا۔
بی جے پی نے اس الیکشن میں 16 جاٹ امیدوار کھڑے کیے تھے ۔ چودھری بنسی لال کے خاندان سے تعلق رکھنے والی کانگریس کی پرانی لیڈر کرن چودھری کو پارٹی میں لا کر بی جے پی نے انہیں نہ صرف راجیہ سبھا ممبر بنایا ، بلکہ ان کی بیٹی شروتی چودھری کو توشام سیٹ سے بھی ٹکٹ دیا۔ خبر لکھے جانے تک کے اعداد و شمار کے مطابق شروتی جیت کے بہت قریب ہیں۔
ظاہر ہے کہ بی جے پی کو مہندر گڑھ اور بھیوانی علاقوں میں ہریانہ کے سابق وزیر اعلیٰ بنسی لال کے خاندان کی گرفت کا اندازہ تھا ، اسی لیے انتخابات سے پہلے ایسے فیصلے لیے گئے۔
ہڈا پریوار کی ناکامی
کانگریس نے بھوپیندر ہڈا کو ٹکٹوں کی تقسیم سے لے کر انتخابی مہم تک کھلی چھوٹ دے رکھی تھی۔ کل 90 سیٹوں میں سے 70 سے زیادہ ٹکٹ ہڈا کے حامیوں کو دیے گئے۔ بی جے پی نے ہڈا کو دی گئی چھوٹ کو جاٹ سیاست قرار دیا اور دوسری برادریوں کو منظم کرنے کی کوشش کی۔ ہڈا کو ملنے والی زیادہ توجہ سےکماری شیلجا ناراض ہوگئیں۔ وہ انتخابی مہم سے ندارد رہیں۔
اس دوران بی جے پی کہتی رہی کہ کانگریس میں دلت لیڈروں کی توہین کی جارہی ہے۔ بعد میں راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی نے ڈیمیج کنٹرول کرنے کی کوشش کی لیکن تب تک کافی پانی بہہ چکا تھا۔
اس فری ہینڈ سے ہڈا کو کیا فائدہ ہوا اس کا اندازہ نتائج کے اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے ۔ پانی پت اور سونی پت اضلاع میں بی جے پی زیادہ تر سیٹوں پر آگے ہے ، جبکہ ان سیٹوں پر بھوپیندر ہڈا کا اثر بتایا جاتا ہے۔
اینٹی ان کمبیسی ؟
سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جاٹ بنام غیر جاٹ کا بیانیہ اینٹی ان کمبیسی سے نجات پانے کے لیے بی جے پی کے ذریعہ تشکیل دیا گیا ہے جو کامیاب رہا۔ پارٹی نے ان رہنماؤں کے ٹکٹ کاٹے، جن کا فیڈ بیک اچھا نہیں تھا۔ وہیں زمینی لیڈروں کو اپنی طرف میں رکھنے کے لیے ان کے خاندان والوں کو ٹکٹیں تقسیم کی گئیں۔
شروتی چودھری کی مثال تو ہے ہی ، اس کے علاوہ بی جے پی نے کانگریس کے پرانے لیڈر ونود شرما کی بیوی اور راجیہ سبھا ایم پی ( آزاد ) کارتیکیہ شرما کی ماں شکتی رانی شرما کو کالکا سے میدان میں اتارا ، جو جیت کے قریب ہیں۔
اس بار پارٹی نے راؤ اندرجیت کی بیٹی آرتی راؤ کو بھی ٹکٹ دیا تھا ، وہ اٹیلی سے آگے چل رہی ہیں۔
سابق وزیر ستپال سانگوان کی پہنچ کو ذہن میں رکھتے ہوئے بی جے پی نے چرخی دادری سے ان کے بیٹے سنیل سانگوان کو میدان میں اتارا تھا ، وہ بھی جیت کے قریب ہیں۔
آدم پور سیٹ پر ہریانہ کے سابق وزیر اعلیٰ بھجن لال کے خاندان کی پکڑ رہی ہے۔ خود بھجن لال ، ان کی بیوی ، بہو اور بیٹے اس سیٹ سے جیت چکے ہیں۔ سال 2022 میں بھجن لال کے بیٹے کلدیپ بشنوئی نے کانگریس چھوڑ کر بی جے پی میں شمولیت اختیار کی۔ اس بار بی جے پی نے کلدیپ کے بیٹے بھویہ بشنوئی کو میدان میں اتارا تھا ، جو جیت درج کرنے جا رہے ہیں۔
ظاہر ہے کہ بی جے پی ذات پات ایکویشن کو ہدف بناے میں بھی کامیاب رہی۔
Categories: الیکشن نامہ, فکر و نظر