کانگریس نے جس طرح جموں خطے میں بی جے پی کے لیے میدان کھلا چھوڑ دیا تھا، اس سے لگتا تھا شاید ان میں کوئی ملی بھگت ہے۔ انتخابی مہم کے دوران خود عمر عبداللہ کو کہنا پڑا کہ کانگریس جموں کے ہندو بیلٹ پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے وادی کشمیر اور جموں کے مسلم بیلٹ میں ووٹوں کو تقسیم کرنے کا کام کررہی ہے۔
سال 1995 میں جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات منعقد کروانے کےلیے ہندوستان کو شدید عالمی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ مگر کشمیر کی اس وقت کی واحد ہند نواز یا مین اسٹریم پارٹی نیشنل کانفرنس کی شرط یہ تھی کہ وہ تبھی اس میں شرکت کرے گی، جب ہندوستان 1953 سے پہلے کی پوزیشن یعنی زیادہ سے زیادہ خودمختاری بحال کروادے۔
وزیر اعظم نرسمہا راؤ کی حکومت نیشنل کانفرنس کی کسی بھی طرح کی معاونت کےلیے تیار نہیں تھی۔ نئی دہلی میں اس بات پر بھی غصہ تھا کہ 1989 میں فاروق عبداللہ نے وزارت اعلیٰ کے منصب سے استعفیٰ دے کر ہندوستان کو بیچ منجدھار میں لا کر چھوڑدیا تھا اور ہندوستان مخالف قوتوں کا سیاسی میدان میں مقابلہ کرنے کے بجائے خود لندن میں جا کر بس گئے تھے۔
ان انتخابات کو معتبر بنانے کےلیے معروف کشمیری رہنما شبیر احمد شاہ پر ڈورے ڈالے جارہے تھے۔ وہ اس وقت حریت کانفرنس میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ نئی دہلی میں خفیہ ایجنسیوں کا ایک اور دھڑا، جس کی قیادت اس وقت کے سکریٹری داخلہ ایس پدمانابھیا کر رہے تھے، نے حکومت نواز بندوق برداروں کی ایک سیاسی پارٹی عوامی لیگ کے نام سے میدان میں اتاردی تھی اور ان کا خیال تھا کہ خود ساختہ منتخب حکومت کی باگ ڈور تائب بندوق برداروں کے کمانڈر محمد یوسف المعروف ککہ پرے کے حوالے کردیں۔
اس گروپ نے ان دنوں چند سالوں میں ظلم و ستم کے جو پہاڑ توڑے تھے، لوگ کسی طرح ان سے چھٹکارہ پانا چاہ رہے تھے۔ حاجن میں ککہ پرے کا ٹھکانہ بالی ووڈ کی ‘شعلہ’ فلم کے سیٹ جیسا منظر پیش کرتا تھا، جہاں وہ قضا و قد ر کے فیصلے صادر کرتے تھے۔
اگلے سال یعنی 1996 میں لوک سبھا کے انتخابات ہوئے، تو نیشنل کانفرنس نے ان کا بائیکاٹ کیا ہوا تھا۔ ان کا موقف یہی تھا کہ میدان میں اترنے سے قبل ان کو کچھ سیاسی مراعات ہاتھ میں دیے جائیں، جن کو لےکر وہ عوام کے سامنے جائیں۔
ان انتخابات میں کانگریس کی زیر قیادت نرسمہا راؤ کی حکومت کا تختہ پلٹ گیا اور جنتا دل حکومت وزیر اعظم دیو گوڑا کی قیادت میں برسر اقتدار آگئی۔ انہوں نے خفیہ ایجنسیوں کی ایما پر اپنے دست راست سی ایم ابراہیم کو لندن بھیج کر فاروق عبداللہ کو اسمبلی انتخابات میں شرکت پر آمادہ کروالیا۔ ان کو یقین دہائی کروائی گئی کہ اسمبلی میں ان کو واضح اکثریت حاصل کرنے کی راہ میں کوئی روڑے نہیں اٹکائےجائیں گے اور پہلی فرصت میں وہ زیادہ سے زیادہ خود مختاری کی قرار داد منظور کرواکر نئی دہلی بھیج دیں، جس کو پارلیامنٹ سے پاس کروایا جائےگا۔
سی ایم ابراہیم اکثر غیر رسمی گفتگو میں ان انتخابات کا کریڈٹ لیتے رہے ہیں اور فاروق عبداللہ کو شیشے میں اتارنے کےلیے فخر کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے فاروق کو بتایا تھا کہ اگروہ انتخابات میں شرکت نہیں کرتے ہیں، تو ان کے پاس متبادل موجود ہیں اور ان کی پارٹی کا نام و نشان مٹ جائےگا۔
ان انتخابات میں گو کہ زیادہ عوامی شرکت نہیں تھی۔ کئی جگہوں سے لوگوں کو فوج اور نیم فوجی دستوں نے زبردستی ووٹ ڈالنے کےلیے نکلنے پر مجبور کیا تھا۔ مگر جو بھی پولنگ بوتھ تک گیا، اس کی اولین ترجیح یہی تھی کہ ککہ پرے کی عوامی لیگ یا اس کے بندوق برداروں کے دستوں کو ہروا کر کسی ایسی انتظامیہ کو بر سر اقتدار لایا جائے، جس کے زیر سایہ وہ چند سانسیں لے سکیں۔
نیشنل کانفرنس نے ان انتخابات میں 87 رکنی ایوان میں 57 نشستیں جیت کرواضح اکثریت حاصل کی۔ انتخابات کے بعد فاروق عبداللہ کو بتایا گیا کہ اسمبلی میں 1953 سے قبل کی سیاسی پوزیشن بحال کرنے کی قرار داد یا بل پیش کرنے سے قبل ایک کمیٹی بنائی جائے، جو اس کے مختلف پہلوں کا جائزہ لے گی۔
جب تک کمیٹی کی رپورٹ آتی، تب تک جنتا دل حکومت کا تختہ پلٹ چکا تھا اور اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں بی جے پی اقتدار میں آچکی تھی ، جس نے جولائی 2000 میں جموں و کشمیر اسمبلی میں واضح اکثریت سے پاس ہوئی قرار داد کو مسترد کردیا۔
فاروق عبداللہ جس نے انتخابات میں شرکت اور ہندوستان کو عالمی دباؤ سے بچانے کےلیے اس شرط پر آلہ کار بننے پر رضامندی دی تھی کہ نئی دہلی 1953 کی پہلے والی پوزیشن بحال کرےگی، نے یہ تلخ گھونٹ پی لیا اور اقتدار میں بنے رہنے کو ترجیح دی۔ عمر عبداللہ واجپائی کی وزارتی کونسل میں جونئیر وزیر بھی تھے۔ انہوں نے بھی وزارت سے استعفیٰ دینا گوارہ نہیں کیا۔
لگتا ہے کہ کشمیر میں تاریخ کا پہیہ گھوم پھر کر وہی پہنچ جاتا ہے۔ اس وقت سرکاری بندوق برداروں کے بجائے لیفٹیننٹ گورنر کی انتظامیہ، سرکاری ایجنسیوں اور ہندو قوم پرستوں نے عوام کا ناطقہ بند کر کے رکھ دیا ہے۔ پچھلے پانچ سالوں سے کشمیر میں گھٹن کا سا ماحول تھا۔ اس لیے حالیہ اسمبلی انتخابات میں عوام کی ایک بھاری تعداد نے ووٹ ڈالا، تاکہ عوامی نمائندوں پر مبنی ایک سرکار بن سکے اور سانس لینے کا موقع فراہم ہو۔
ان انتخابات میں 1996 کی ہی طرح نیشنل کانفرنس کو برتری حاصل ہوئی۔ نوے سیٹوں میں سے 42پر نیشنل کانفرنس نے جیت درج کی اور اس کی اتحادی کانگریس کو چھ سیٹوں پر سبقت حاصل ہوئی۔ وادی کشمیر کی 47 میں سے نیشنل کانفرنس کو 35 سیٹیں حاصل ہوئی اور جموں کی 43 سیٹوں میں سات سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ ہندو اکثریتی جموں میں بی جے پی کو 29 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔
جیری مینڈرنگ کے ذریعے اس خطے میں ہندو سیٹوں کی تعداد 24 سے 31 کر دی گئی تھی۔ اسی طرح اس خطے کی مسلم سیٹوں کی تعداد 12 سے گھٹا کر 9 کر دی گئی تھی۔
تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ کانگریس ہندو بیلٹ میں بی جے پی کو ٹکر دے گی۔ مگر اس نے انتہائی حد تک مایوس کن کارکردگی کا مظاہر ہ کیا۔ کانگریس کی چھ سیٹیں بھی مسلم بیلٹ سے ہی آئی ہیں۔ ان میں پانچ وادی کشمیر سے اور ایک جموں کے راجوری خطے سے ہے۔ ان کے مرکزی رہنماؤں نے غیر متوقع طور پر اس خطے میں کوئی قابل ذکر مہم بھی نہیں چلائی۔ ستم تو یہ ہے راہل گاندھی نے وادی کشمیر کے سوپور قصبہ میں جاکر وہاں نیشنل کانفرنس کے خلاف مہم چلائی۔ جس کانگریسی امیدوار کے حق میں مہم چلائی وہ تیسرے نمبر پر آیا۔
جس طرح سے کانگریس نے جموں خطے میں بی جے پی کےلیے میدان کھلا چھوڑ دیا تھا، اس سے لگتا تھا شاید ان میں کوئی ملی بھگت ہے۔ انتخابی مہم کے دوران خود عمر عبداللہ کو کہنا پڑا کہ کانگریس جموں کے ہندو بیلٹ پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے وادی کشمیر اور جموں کے مسلم بیلٹ میں ووٹوں کو تقسیم کرنے کا کام کررہی ہے۔
وادی کشمیر میں ووٹروں نے یقینی بنایا کہ آزاد امیدواروں کی بہتات کی وجہ سے ووٹ تقسیم نہ ہوں۔ اس لیے انجینئر رشید ( عوامی اتحاد پارٹی) اور جماعت اسلامی فیکٹر کا بھی نتائج پر بہت کم اثر ہوا ۔ انجینئر رشید نے پارلیامانی انتخابات میں جو جلوہ دکھایا وہ اسمبلی انتخابات میں مفقود تھا۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اس نے انتہائی نالائق اور مشکوک امیدواروں کو میدان میں اتارا۔ شاید ضمانت پر رہائی کے بعد ان کو امیدوارں کے انتخاب کےلیے بہت کم وقت ملا۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی، جس نے 2015 میں بی جے پی کے ساتھ مخلوط حکومت بنائی تھی، وادی کشمیر میں شکست سے دو چار ہوئی ، جہاں وہ 28 سے کم ہوکر تین نشستوں پر آگئی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ جس بھی پارٹی کے امیدوار پر تھوڑا بھی شک تھا کہ اس کے تار نئی دہلی یا بے جے پی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، اس کو شکست ہوئی۔
بی جے پی نے تین سیٹیں یعنی بھدروا، ڈوڈاویسٹ اور کشتواڑ وادی چناب سے حاصل کیں۔ اس علاقے میں کانگریس اور نیشنل کانفرنس دونوں نے امیدوار کھڑے کر دیے تھےاور ووٹوں کی تقسیم کا فائدہ بی جے پی کو ملا۔
بی جے پی کو سب سے بڑا جھٹکا راجوری-پونچھ کے پیر پنجال پٹی میں ملا ہے۔ جہاں اس نے آٹھ میں سے صرف ایک ہی سیٹ جیتی ہے۔ یہ سیٹ بھی اس لیے ممکن ہوسکی کہ جیری مینڈرنگ کے ذریعے انتخابات سے قبل کالاکوٹ کو سندر بنی سے ملاکر بی جے پی کےلیے اس سیٹ کو ہموار کرادیا گیا تھا۔ پیر پنچال کے دیگر حصوں یعنی نوشہرہ، راجوری، درہال، تھانا منڈی، پونچھ-حویلی، مینڈھر اور سورنکوٹ میں بے جے پی کی دال گل نہ سکی۔ اس خطے میں پہاڑی نسل کے لوگوں کو شیڈولڈ ٹرائب کا درجہ دینے کی وجہ سے ان کے لیڈروں کو لگتا تھا کہ یہ خطہ اب ان کی جیب میں ہے۔ وزیر داخلہ امت شاہ نے اس خطے کے کئی دورے کیے۔
تاہم، کوئی بھی اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتا کہ بی جے پی نے کچھ ایسے حلقوں میں اپنی موجودگی درج کرائی ہے اور اسے بہتر کیا ہے جہاں وہ دوسرے نمبر پر رہی ہے یا 1000 سے زیادہ ووٹ حاصل کر چکی ہے۔
گریز میں اس کی کارکردگی قابل ذکر ہے، جہاں اس کے امیدوار فقیر محمدنے 7246 ووٹ حاصل کیے جبکہ نیشنل کانفرنس کے نذیر احمد خان نے 8378 ووٹ حاصل کیے۔
بی جے پی سرینگر کے حبہ کدل میں بھی دوسرے نمبر پر رہی۔ لیکن بڑے فرق سے ہار گئی۔
بہر حال یہ انتخابات کشمیریوں کےلیے اپنی انفرادیت کو قائم رکھنے اور آبادیاتی ساخت کو برقرار رکھنے کی سمت میں کرو یا مرو جیسی صورت حال تھی۔ 1996 میں نیشنل کانفرنس نے زیادہ سے زیادہ خود مختاری کے نام پر اور چند سانسیں لینے کے عوض بھاری اکثریت حاصل کی تھی۔
اس بار بھی عوام کو امید ہے کہ شاید آکسیجن کی بحالی ہو، فرق یہ ہے کہ اس بار نیشنل کانفرنس خود مختاری کے بجائے ریاستی درجہ کی بحالی کے وعدے کو لےکر میدان میں اتری اور اس میں اس کو کس قدر کامیابی حاصل ہوتی ہے، وقت ہی بتائے گا۔
ویسے نیشنل کانفرنس کا جیتنا دونوں یعنی کشمیری عوام اور نئی دہلی کےلیے ایک طرح سے ون ون یعنی فائدے والی صورت حال ہے۔ کشمیری عوام آبادیاتی ساخت کی تبدیلی کے حوالے اور نچلی سطح پر غیرریاستی افسران کی آمد سے پریشان تھے۔ اس مسئلہ کے حل ہونے کا امکان ہے۔
اگر نیشنل کانفرنس کا کوئی کارنامہ ہے، تو یہی ہے کہ 1975 میں شیخ عبداللہ کے اقتدار میں آنے کے بعد کسی حد تک انتظامیہ میں کشمیریوں کا عمل دخل بڑھا کر ان کو اقتدار کے گلیاروں تک رسائی فراہم کرا دی گئی تھی، جو اب پھر معدوم ہو رہی ہے۔
نئی دہلی کےلیے اطمینان کا باعث یہ ہے کہ نیشنل کانفرنس ریڈ لائنز کراس کرنے کی روادار نہیں ہے۔ اس کے لیڈران بس ایک حد تک ہی نئی دہلی کو چیلنج کرتے ہیں۔ جو لیڈران اپنی اسمبلی کی خود مختاری کی قرار داد کو مرکزی کابینہ کے ذریعے مسترد ہونے پر بھی خون کے گھونٹ پی سکتے ہیں، تو وہ اقتدار میں برقرار رہنے کےلیے کچھ بھی برداشت کر سکتے ہیں۔
یہ شاید محبوبہ مفتی یا انجینئر رشید کے ذریعے ممکن نہیں ہوتا۔ وہ کسی بھی وقت کوئی آئینی بحران کھڑا کرسکتے تھے۔ اس لیے ان کو اقتدار سے دور رکھنا ضروری تھا۔
پھر بھی عمر عبداللہ کے پاس سیاسی قیدیوں کی رہائی اور سابقہ حکومتوں کے دوران نافذ کیے گئے جابرانہ قوانین کی منسوخی کے لیے ہندوستانی حکومت پر دباؤ ڈالنے کا نادر موقع ہے۔ مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کے حصول کے لیے پاکستان اور کشمیری عوام کے ساتھ بات چیت کی وکالت کے لیے بھی وہ ایک سازگار فضا اور دباؤ بنا سکتے ہیں۔
اس حکومت پر لیفٹیننٹ گورنر کی خاصی پکڑ ہوگی، وہ کس طرح اس سے نبرد آزما ہو سکتے ہیں، وہ ان کی عوام کے تئیں سنجیدگی ظاہر کرے گی۔ خیرتمام اسٹیک ہولڈرز کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ دیرپا امن اور انصاف کے حصول میں کشمیری عوام کی آوازوں کو سنا جائے اور ان کا احترام کیا جائے۔
یہ عمر عبداللہ کا اصل امتحان ہوگا۔ اگر وہ اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں، اور تاریخ کے اس نازک موڑ پر عوام کی رہنمائی کرتے ہیں، تو ان کا نام جلی حرفوں میں لکھا جائےگا۔ ورنہ اس پارٹی کے گناہ اس قدر ہیں، جو شاید ہی ووٹوں سے دھل پائیں گے۔
Categories: الیکشن نامہ, فکر و نظر