الیکشن نامہ

جموں و کشمیر: جموں خطے میں حد بندی کے عمل سے بی جے پی کو کتنا فائدہ ہوا؟

جموں و کشمیر میں 2022 میں از سر نو انتخابی حلقوں کی حد بندی کی گئی  تھی، جس کے بعد جموں میں اسمبلی نشستوں کی تعداد 37 سے بڑھ کر 43 ہو گئی تھی۔ تاہم، انتخابی اعداد و شمار کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی کو اس سے کوئی خاص  فائدہ نہیں ہوا۔

فوٹو بہ شکریہ: فیس بک/BJP4JnK

فوٹو بہ شکریہ: فیس بک/BJP4JnK

سری نگر: دی وائر کے تجزیہ کے مطابق، جموں و کشمیر میں انتخابی حلقوں کی حد بندی سے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو جموں کی اُن چند اسمبلی سیٹوں پر اپنے امیدواروں کے حق میں  حمایت حاصل  کرنے میں مدد نہیں ملی، جہاں پارٹی اس اسمبلی انتخابات میں برتری حاصل کرنے کی امیدکر رہی تھی۔

جموں سے تعلق رکھنے والی مصنفہ اور سینئر سیاسی مبصر ریکھا چودھری نے کہا کہ 2022 میں جموں و کشمیر کے انتخابی حلقوں کی حد بندی کو دوبارہ تشکیل  دینے کی وجہ سے جموں میں اسمبلی سیٹوں کی تعداد 37 سے بڑھ کر 43 ہو گئی، لیکن اس سے بی جے پی کو کوئی خاص انتخابی فائدہ نہیں ہوا۔

حد بندی کے بعد سانبہ، ادھم پور، جموں اور کٹھوعہ کے چار اضلاع سے تین نئی سیٹیں بنائی گئیں۔ یہ اضلاع جموں و کشمیر کی ہندو پٹی میں آتے ہیں– جو جموں میں بی جے پی کا ووٹ بینک ہے۔ حد بندی کے عمل کی وجہ سے ان چار اضلاع میں اسمبلی حلقوں کی تعداد 21 سے بڑھ کر 24 ہو گئی۔

تاہم، بی جے پی 2014 کے اسمبلی انتخابات کی اپنی  کارکردگی کو ہی دہراتی نظر آئی۔ حد بندی کمیشن کی طرف سے بنائی گئی تین نئی سیٹوں نے جموں و کشمیر اسمبلی انتخابات میں پارٹی کو دوسری سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھرنے میں اہم کردار ادا کیا، لیکن پارٹی کو ہندو پٹی میں ہی بانی اور چھمب اسمبلی حلقوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

اپنے گڑھ  سے باہر، پارٹی کی انتخابی حکمت عملی  جموں ڈویژن کے پیر پنجال علاقے اور چناب وادی میں بھی کام نہیں آئی، جہاں اسے راجوری ضلع میں ایک سیٹ کا نقصان ہوا، جس پر پارٹی کے جموں و کشمیر کے صدر رویندر رینا کو نیشنل کانفرنس (این سی) کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

حد بندی کمیشن نے وادی چناب کے ڈوڈہ اور کشتواڑ اضلاع میں ایک ایک سیٹ  بنائی تھی، جس سے اس خطے میں اسمبلی کی نشستوں کی تعداد چھ سے بڑھ کر آٹھ ہوگئی تھی۔ لیکن ان سیٹوں کے اضافے سے بی جے پی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا، جو اس بار بھی 2014 کی طرح 4 سیٹوں پر سمٹ کر رہ گئی۔

عام آدمی پارٹی (عآپ ) اور ایک آزاد امیدوار نے ڈوڈہ اور کشتواڑ اضلاع سے ایک ایک نشست جیتی، جبکہ کشتواڑ میں بی جے پی امیدوار نیشنل کانفرنس کے اپنے حریف کو کم فرق سے شکست دینے میں کامیاب ہوئے۔

چودھری نے کہا، ‘ایسا لگتا ہے کہ حد بندی سے زیادہ، بی جے پی کے زمینی کام اور اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ کانگریس کی ناکامی – جس نے جموں کو اس الیکشن میں مکمل طور پر نظر انداز کیا – نے پارٹی کو ہندو پٹی میں وسیع حمایت حاصل کرنے اورپوزیشن   برقرار رکھنے میں مددکی۔’

کشمیر یونیورسٹی کے سوشل سائنس ڈپارٹمنٹ کے سابق ڈین نور احمد بابا نے کہا کہ جموں و کشمیر کے مینڈیٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ رائے دہندگان نے ‘ذہنی بیداری’ کا ثبوت دیا، جس کے نتیجے میں بی جے پی ‘خالص ہندو پارٹی’ کے طور پر ابھری، جبکہ این سی کو یونین ٹریٹری کے دونوں خطوں میں نمائندگی ملی  ہے۔

جموں ضلع کے 11 اسمبلی حلقوں میں سے بی جے پی نے 10 پر کامیابی حاصل کی ہے جبکہ 2014 میں اس نے 9 پر کامیابی حاصل کی تھی۔ اس میں نگروٹہ میں ایک سیٹ بڑھی ہے، جہاں سے نیشنل کانفرنس کے سابق لیڈر دیویندر سنگھ رانا  بی جے پی کے ٹکٹ پر الیکشن جیتے ہیں۔ آزاد امیدوار ستیش شرما نے چھمب اسمبلی حلقہ میں کامیابی حاصل کی ہے، جسے بی جے پی نے 2014 میں جیتا تھا۔

سانبہ میں 2014 کے انتخابات میں بی جے پی نے دونوں اسمبلی حلقوں پر کامیابی حاصل کی تھی، اس بار حد بندی کمیشن کی طرف سے ایک نئی سیٹ کے اضافے سے پارٹی کو فائدہ ہوا۔ کمیشن نے سانبہ میں رام گڑھ اسمبلی حلقہ کو درج فہرست ذات کے امیدواروں کے لیے محفوظ کیا تھا، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ‘ذات پات ‘ کا مسئلہ جموں میں کوئی عوامل  نہیں تھا۔

جموں یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے سابق پروفیسر چودھری نے کہا، ‘ووٹنگ کے رجحانات سے پتہ چلتا ہے کہ 2014 میں درج فہرست ذاتوں نے بی جے پی کو ووٹ دیا تھا، جس کی وجہ سے اس انتخابات میں بھی شیڈول کاسٹ کے لیے مخصوص سیٹیں جیتنے میں پارٹی کو مدد ملی’۔

حد بندی کے بعد ادھم پور ضلع میں اسمبلی سیٹوں کی تعداد تین سے بڑھ کر چار ہو گئی۔ پچھلی بار 2014 کے انتخابات میں بی جے پی نے دو سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی، جبکہ آزاد امیدوار پون کمار نے ایک سیٹ جیتی تھی۔ اس بار بی جے پی نے چاروں سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔  کمار اس باربی جے پی کے ٹکٹ پر لڑے اور اودھم پور (جس کا نام بدل کر اودھم پور ویسٹ کر دیا گیا ہے) کو پارٹی کی جھولی میں ڈالا۔

چودھری نے کہا، ‘پارٹی کی کارکردگی ہندو پٹی میں ووٹنگ کے حالیہ رجحانات کے مطابق ہی  ہے۔ اس میں کوئی نئی یا حیران کن بات نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حد بندی پارٹی کے لیےتوقع  کے مطابق  کارگر نہیں رہی۔’

کٹھوعہ ضلع میں حد بندی کے بعد سیٹیں پانچ سے بڑھ کر چھ ہو گئی تھیں۔ یہاں بی جے پی اپنے 2014 کے نمبروں تک محدود رہی۔ وہ بانی سیٹ ایک آزاد امیدوار سے ہار گئی۔

چودھری نےبتایاکہ جموں و کشمیر میں بی جے پی کی توسیع 1990 کی دہائی کے اوائل میں عسکریت پسندی کے پھیلنے کے وقت شروع ہوئی تھی۔ صدی کے اختتام پر، جموں اسٹیٹ فرنٹ بھی جموں کی ایک پارٹی کے طور پر ابھری جس نے جموں کے لیے ایک علیحدہ ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا تھا۔ اس نے جموں حلقے سے الیکشن بھی  لڑا ۔ تب بی جے پی صرف ایک سیٹ جیت پائی تھی۔

تاہم، 2008 کے امرناتھ زمینی تنازعہ کے بعد پارٹی کی قسمت چمکنےلگی، جس نے مسلم اکثریتی کشمیر کو جموں کے ہندو علاقے کے خلاف کھڑا کردیا۔ کچھ ہندو دائیں بازو کے گروپوں کے ساتھ سابقہ ریاست میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بی جے پی نے 26.74 فیصد ووٹ حاصل کرنے کے ساتھ ہی ہندو پٹی کی 21 اسمبلی سیٹوں میں سے 10 پر کامیابی حاصل کی۔

سال 2014 کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کا ووٹ شیئر دوگنا ہو کر 50.23 فیصد ہو گیا، جب اس نے ہندو بیلٹ میں 21 میں سے 18 سیٹیں جیتیں۔ اسوقت پارٹی کو نتخابات میں کل 25 نشستیں ملی تھیں، جس کے بعد وہ مسلم اکثریتی جموں و کشمیر میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے ساتھ مخلوط حکومت میں پہلی بار اقتدار میں آئی۔

پیر پنجال خطہ کے راجوری اور پونچھ اضلاع میں، جنہیں حد بندی کمیشن کے ذریعہ اننت ناگ لوک سبھا حلقہ میں ضم کر دیا گیا تھا، بی جے پی کو اس انتخاب میں اپنی  جگہ  بنانے کے لیے جدوجہد کرنی پڑی۔ بتادیں کہ 2022 کی حد بندی نے راجوری ضلع کی چار سیٹوں کی تعداد میں ایک اسمبلی حلقہ کا اضافہ کیا تھا۔

وہیں، اس سال اسمبلی انتخابات سے قبل بی جے پی نے پیر پنجال خطہ میں کافی سرگرمی دکھائی تھی اور لسانی اقلیتی پہاڑیوں کو اقلیتی درجہ دینے کے متنازعہ فیصلے کی مدد سے دونوں اضلاع میں سیاسی تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔

دونوں اضلاع کی سات سیٹوں میں سے بی جے پی نے 2014 میں راجوری میں دو سیٹیں جیتی تھیں۔ تاہم، اس الیکشن میں پارٹی کو عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ بی جے پی کے ریاستی صدر رینا راجوری ضلع کی نوشیرہ سیٹ پر نیشنل کانفرنس کے سریندر کمار چودھری سے ہار گئے، جس  کی وجہ سے بی جے پی  خطے میں صرف ایک سیٹ  پر محدودرہ گئی۔

سینئر قبائلی رہنما اور پیر پنجال میں بی جے پی کے سب سے نمایاں چہروں میں سے ایک مشتاق احمد بخاری، جو اس الیکشن میں سورنکوٹ سے لڑے اور ہارگئے، کا نتائج کے اعلان سے قبل  انتقال ہو گیا۔

وادی چناب کے رام بن، کشتواڑ اور ڈوڈہ اضلاع میں اسمبلی سیٹوں کی تعداد چھ ہوا کرتی تھی، جسے حد بندی کمیشن نے بڑھا کر آٹھ کر دیا تھا۔ 2014 میں بی جے پی نے 6 میں سے 4 سیٹیں جیتی تھیں، اس بار بھی پارٹی نے اتنی ہی سیٹیں جیتیں۔

ڈوڈہ ضلع میں حد بندی کمیشن کے ذریعہ شامل کردہ اضافی نشست عآپ  امیدوار مہراج ملک نے جیت لی، جبکہ بی جے پی نے ضلع کی دیگر دو نشستوں پر اپنا قبضہ  برقرار رکھا۔ رام بن ضلع میں، جہاں بی جے پی نے دو میں سے ایک سیٹ جیتی تھی، پارٹی اس الیکشن میں اپنا کھاتہ کھولنے میں ناکام رہی۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔