خاص خبر

سابق نوکرشاہوں کا وزیر داخلہ کو خط، کہا – اتراکھنڈ میں سسٹم نفرت کی نئی نرسری تیار کر رہا ہے

کانسٹی ٹیوشنل کنڈکٹ گروپ کی جانب سے لکھے گئے خط میں سابق نوکرشاہوں نے فرقہ پرستی کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اتراکھنڈ میں جان بوجھ کر فرقہ پرستی کا زہر گھولا جا رہا ہے۔ یہ ایک منظم کوشش ہے، جس میں اقلیتوں کو اکثریت کی ماتحتی قبول کرنے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

نئی دہلی: سو سے زیادہ ریٹائرڈ نوکرشاہوں  کے ایک گروپ نے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کو ایک خط لکھا ہے، جس میں اتراکھنڈ اور شمالی ہندوستانی کی کچھ دیگر ریاستوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی اور تشدد پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، خط میں کہا گیا ہے کہ حکومتی نظام اور رویے کی وجہ سے پرامن اورہم آہنگی والی ریاستوں میں فرقہ وارانہ منافرت اور تشدد کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔

خط میں اتراکھنڈ کا خصوصی ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہاں اقلیت اور اکثریت کے درمیان تصادم کی نئی شکل منفی اشارہ دیتی ہے۔

معلوم ہو کہ کانسٹی ٹیوشنل کنڈکٹ گروپ کی جانب سے  لکھے گئے اس خط میں سابق نوکرشاہوں کا کہنا ہے کہ کچھ سال پہلے تک اتراکھنڈ امن، ہم آہنگی اور ماحولیاتی سرگرمی کی اپنی روایات کے لیے جانا جاتا تھا اور یہاں کبھی بھی اکثریتی جارحیت نظر نہیں آتی تھی۔ تاہم، حالیہ دنوں میں اتراکھنڈ کی سیاست میں جان بوجھ کر فرقہ پرستی کا زہر گھولا جا رہا ہے، تاکہ نفرت کی ایک نئی نرسری تیار کی  جا سکے۔ یہ ایک منظم کوشش ہے، جس میں اقلیتوں کو اکثریت کی ماتحتی  قبول کرنے کو مجبور کیا جا رہا ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ ریاست میں حالات کو بدتر بنانے والے فرقہ وارانہ واقعات کے حوالے سےلاقانونیت اور بدنظمی کا  دورچل رہا ہے ، جہاں نفرت پھیلانے کے الزام میں ضمانت پر رہا ہونے والے لوگ بھی اپنی ضمانت کی شرائط کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔

سابق نوکرشاہوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے حالیہ برسوں میں عوامی پالیسی، گورننس اور سیاست میں آئینی اقدار کی منظم تنزلی پر اکثر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔

سابق نوکرشاہوں  نے کہا، ‘اکثر  دیکھا گیا ہے کہ کئی حکومتوں کے رویے نے معاشرے میں ان عناصر کی شمولیت کی حوصلہ افزائی کی ہے جو فرقہ پرستی اور تشدد کو جنم دیتے ہیں۔ یہ اکثریت پسند نظریاتی طور پر نفرت، بائیکاٹ اور تقسیم کی سیاست پر اپنے آپ کو قائم رکھتے  ہیں۔ اتر پردیش، اتراکھنڈ، ہماچل پردیش اور راجستھان میں ایسے عناصر پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔’

خط میں اتراکھنڈ کے کچھ  فرقہ وارانہ واقعات کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جس میں 10 ستمبر 2024 کو دہرادون پریس کلب میں کی ایک ہیٹ اسپیچ بھی شامل ہے، جس کےوائرل ویڈیو میں یتی رام سوروپانند کو مبینہ طور پر یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ہندوؤں کو اقلیتی برادری کے لوگوں سے خواتین اور بچوں کی حفاظت کے لیے ہتھیار رکھنا چاہیے۔

اسی پروگرام میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ وشو دھرم سنسد، جس میں کئی سنت  شرکت کرنے والے ہیں، اس سال 14 دسمبر سے 21 دسمبر تک منعقد ہوگی۔ انہوں نے مبینہ طور پر کہا کہ وہ اس سنسد کے دوران اتراکھنڈ کو ‘اسلام سے پاک’ بنانے پر بات کریں گے۔

معلوم ہو کہ دسمبر 2021 میں ہری دوار میں ایک ‘دھرم سنسد‘ کا انعقاد کیا گیا تھا، جس میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کی گئی تھیں اور ان کی نسل کشی کی کال بھی دی گئی تھی۔ ایسے میں ایک اور ‘دھرم سنسد’ کا اعلان اقلیتی برادری کے لیے ایک نیا چیلنج ہے۔

معلوم ہو کہ اس سے قبل  12 اگست 2024 کے بعد ریاست کے دہرادون سے چمولی سمیت کئی اضلاع میں نفرت انگیز تقاریر اور پرتشدد واقعات دیکھنے میں آئے ہیں۔ اس میں املاک کو نقصان پہنچانا اور مبینہ طور پر اقلیتی خاندانوں کو نقل مکانی کے لیے مجبور کرنا، معاشی بائیکاٹ  کرناوغیرہ شامل ہیں، جس کے لیے کچھ مٹھی بھر لوگ اور تنظیمیں ذمہ دار ہیں۔

سابق نوکرشاہوں نے اس  کے پیچھے بجرنگ دل اور راشٹریہ سیوا سنگٹھن کا نام لیا ہے۔ ان کے مطابق مہاپنچایتوں اور دھرم سنسدوں کا انعقاد ریاست میں تشدد اور فرقہ وارانہ کشیدگی کو جنم دے رہا ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ ماضی اور حال میں نفرت انگیز تقاریر یا تشدد کے زیادہ تر واقعات کے ذمہ دار افراد کو حراست میں بھی نہیں لیا گیا۔ ایسے معاملات میں بھی جہاں کچھ گرفتاریاں کی گئی ہیں، زیادہ تر کو ضمانت مل گئی ہے، جس میں غازی آباد کے ڈاسنہ مندر کے متنازعہ پجاری یتی نرسنہانند کا نام  بھی شامل ہے۔

غورطلب  ہے کہ 19 ستمبر 2024 کو 18 ریاستوں کی 53 خواتین اور سول سوسائٹی گروپوں نے اتراکھنڈ کے گورنر کو ایک کھلا خط لکھا تھا، جس میں خواتین کی حفاظت کو خطرے میں ڈالنے کی مذمت کی گئی تھی اور پولیس کے خلاف  متعصبانہ رویہ اپنانے کا بھی الزام لگایا گیا تھا۔

سابق افسران کے مطابق، ایک طرف جہاں اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگوں پر جسمانی حملہ کیا گیا ہے اور سرعام خواتین کے خلاف جرائم کے لیے انہیں قصوروار ٹھہرایا گیا ہے۔ وہیں دوسری طرف، پولیس نے حکمران جماعت کے قریبی لوگوں کے ساتھ نرم رویہ کا مظاہرہ کیا، جو اس طرح کے تشدد کے اصل مجرم ہیں۔ ان کے مقدمات کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی اور متاثرین پر شکایات واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالنے کی کوشش بھی کی گئی۔

خط میں کچھ ضلع افسران اور پولیس افسران  کے یکساں رویہ اپنانے کی تعریف بھی کی گئی ہے، جنہوں نے کئی معاملات میں ازخود نوٹس لیتے ہوئے ایف آئی آر درج کی  اور بعض مواقع پر بڑے پیمانے پر تشدد کے پھیلنے سے روکا ہے۔

سابق نوکرشاہوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر اس نفرت انگیز مہم کو نہیں روکا گیا تو یہ حساس سرحدی ریاست منظم تشدد کے ایک شیطانی چکر میں پھنس سکتی ہے جس کے سنگین مضمرات ہو سکتے ہیں۔

خط میں یہ سوال بھی اٹھایا گیا ہے کہ اتراکھنڈ پولیس سے پوچھا جانا چاہیے کہ وہ یتی نرسنہانند اور دیگر کے ذریعے ضمانت کی شرائط کی خلاف ورزی کے معاملات میں ضمانت رد کرنے  کا مطالبہ کرنےمیں کیوں ناکام رہی ہے۔

اس کے علاوہ یتی نرسنہانند کو امن عامہ میں خلل ڈالنے کی کوشش کرنے پر قومی سلامتی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا جانا چاہیے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ اتراکھنڈ پولیس کو تشدد اور نفرت انگیز تقاریر کے تمام واقعات کے خلاف قانون، سپریم کورٹ کی ہدایات اور آئینی وقار کے مطابق سخت کارروائی کرنے کے لیے کہا جانا چاہیے۔

خط کے آخر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ خط لکھنے والے گروپ کا کسی سیاسی جماعت یا دوسری تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ صرف ریاست کے تئیں اس تشویش میں مبتلا ہے کہ امن اور شہری ہم آہنگی کی اپنی روایات کے لیے جانا جانے والا اتراکھنڈ تشدد کا ایک اور اکھاڑہ نہ بن جائے۔

( اس خط کو مکمل پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )