خاص خبر

سنبھل فسادات: 46 سال بعد پھر سے کھلے گا کیس، یوپی سرکار  نے دیے نئے سرے سے جانچ کے حکم

مارچ 1978 میں ہولیکا دہن کی جگہ کو لے کر دو برادریوں کے درمیان کشیدگی کا مشاہدہ کیا گیا تھا۔ افواہ پھیلی کہ ایک دکاندار نے دوسری برادری کے ایک شخص کو قتل کر دیا ہے، جس کی وجہ سے فسادات پھوٹ پڑے۔ اب اتر پردیش حکومت نے نئے سرے سے تحقیقات کا حکم دیا ہے اور پولیس سے کہا ہے کہ وہ سات دن کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرے۔

یوگی آدتیہ ناتھ۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

یوگی آدتیہ ناتھ۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: سنبھل کی جامع مسجد کو لے کر جاری تنازعہ کے درمیان اتر پردیش حکومت کی ہدایت  کے بعد 46 سال پہلے ہوئے فسادات کی فائل کو دوبارہ کھولا جائے گا۔

سنبھل، جو اس وقت مرادآباد ضلع کا حصہ تھا، میں تقریباً 184 لوگ مبینہ طور پر ہلاک ہوئے تھےاور ملزمان کو ثبوت کے فقدا ن میں 2010 میں عدالت نے بری کر دیا تھا۔

ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، اب یوپی حکومت نے نئےسرے سےتحقیقات کا حکم دیا ہے اور انتظامیہ سے کہا ہے کہ وہ سات دن کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرے۔ 17 دسمبر 2024 کو ایم ایل سی سری چند شرما نے حکومت کو خط لکھ کر فسادات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔

چھ  جنوری کو ہوم سکریٹری ستیندر پرتاپ سنگھ نے اس کا نوٹس لیا۔ انہوں نے سنبھل کے ایس پی کرشن کمار بشنوئی کو خط لکھ کر ایک ہفتہ کے اندر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی۔

تحقیقات کی ذمہ داری ایڈیشنل ایس پی شریش چندر کو سونپی گئی اور ڈی ایم راجیندر پنسیا کو مشترکہ تحقیقات کے لیے انتظامیہ سے ایک افسر مقرر کرنے کو کہا گیا۔

سن 1976 میں سنبھل میں ایک مسجد کے مولوی کے قتل کے بعد فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ ان فسادات میں بہت سے لوگ مارے گئے تھے۔ اس کے بعد سنبھل شہر میں دو ماہ تک کرفیو نافذ رہا۔ اس وقت جنتا پارٹی کی حکومت تھی اور رام نریش یادو وزیر اعلیٰ تھے۔

اس کے بعد سنبھل میں سب سے بڑا فساد 28 مارچ 1978 کو ہوا تھا۔ ہولیکا دہن کی جگہ  کو لے کر دو برادریوں کے درمیان تناؤ تھا۔ افواہ پھیل گئی کہ ایک دکاندار نے دوسری برادری کے ایک شخص کو قتل کر دیا ہے، جس سے فسادات پھوٹ پڑے۔ کئی لوگوں نے ایس ڈی ایم رمیش چندر ماتھر کے دفتر میں چھپ کر اپنی جان بچائی۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، 1978 میں یوپی اور مرکز دونوں میں جنتا پارٹی کی حکومت تھی، جو بی جے پی کے پیش رو بھارتیہ جن سنگھ (بی جے ایس) کے اس میں انضمام کے بعد بنی تھی۔ مارچ 1978 میں جب سنبھل میں تشدد شروع ہوا تو اس وقت کے بی جے ایس کے کئی لیڈر یوپی اور مرکز میں وزراء کے عہدوں پر فائز تھے۔

اس دوران رام نریش یادو وزیر اعلیٰ تھے اور نانگل (سہارنپور) کے ایم ایل اے رام سنگھ ریاستی وزیر داخلہ تھے – جبکہ مرکزی حکومت کی سربراہی مرارجی دیسائی (اس وقت کے وزیر اعظم) اور چودھری چرن سنگھ (اس وقت کے وزیر داخلہ) کر رہے تھے۔ اٹل بہاری واجپائی اور ایل کے اڈوانی جیسے اس وقت کے بی جے ایس لیڈر مرکزی وزیر تھے، کلیان سنگھ، کیشری ناتھ ترپاٹھی، اوم پرکاش سنگھ، شاردا بھکت سنگھ، رویندر کشور شاہی اور کچھ دوسرے، جن کا تعلق اصل میں بی جے ایس سے تھا، یوپی حکومت میں وزیر تھے۔

سال 1978 میں اس وقت کی حکومتوں نے اسمبلی اور لوک سبھا میں سنبھل فسادات پر بحث کرنے سے گریز کیا تھا۔

تیس  دنوں لگارہاکرفیو

ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، فسادات کے دوران تاجر بنواری لال نے دوسرے دکانداروں کو اپنے سالے مراری لال کی حویلی میں چھپادیا تھا۔ فسادیوں نے ٹریکٹر سے گیٹ توڑ کر 24 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ 30 دن سے زیادہ کرفیو نافذ رہا۔

سنبھل کے آس پاس کے ہر گاؤں میں لوگ مارے گئے۔ مراد آباد کے ایک بزرگ رہائشی کے مطابق، فسادات میں 184 لوگوں کی جان چلی گئی اور بہت سی لاشیں کبھی نہیں ملیں۔ ان کی جگہ پر پتلوں کی  آخری رسومات ادا کی گئی تھی۔

تاجر بنواری لال کو بھی بے دردی سے قتل کیا گیا۔ اپنے گھر والوں کی وارننگ کے باوجود وہ فساد سے متاثرہ علاقے میں یہ کہتے ہوئے گئے کہ وہاں موجود ہر شخص ان کے بھائی اور دوست ہیں۔ فسادیوں نے انہیں پکڑ لیا اور ان  کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے۔ اس کیس میں 48 افراد کو ملزم بنایا گیا تھا، لیکن ثبوتوں کی کمی کی وجہ سے 2010 میں سب کو بری کر دیا گیا تھا۔ بنواری لال کا خاندان سنبھل سے 1995 میں چلا گیا تھا۔

انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق، اس وقت کے یوپی کے وزیر داخلہ سوروپ کمار بخشی نے 2 مارچ 1982 کو اسمبلی کو بتایا تھا کہ 1978 کے سنبھل تشدد سے متعلق 168 مقدمات میں 1272 لوگوں کو نامزد کیا گیا تھا اور 200 نامعلوم لوگوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے تھے۔

بخشی نے مزید کہا تھا کہ 43 مقدمات میں 473 افراد کو نامزد کیا گیا تھا، جن کے خلاف مقدمہ چلایا گیا تھا جبکہ باقی 125 مقدمات ثبوتوں کی کمی کی وجہ سے بند کر دیے گئے تھے۔ ریاستی حکومت کی سفارش پر 12 مقدمات میں الزامات واپس لیے گئے جن میں 31 افراد کو نامزد کیا گیا تھا، جبکہ دو مقدمات میں چھ ملزمان کو سزا سنائی گئی۔ عدالت نے چھ مقدمات میں 80 افراد کو بری کر دیا تھا۔