پنجاب اور ہریانہ کے درمیان شمبھو بارڈر پر کسان ایم ایس پی کی گارنٹی اور سوامی ناتھن کمیشن کی سفارشات سمیت دیگر مطالبات کے لیے تقریباً ایک سال سے احتجاج کر رہے ہیں۔ دریں اثنا، جمعرات کو احتجاج میں شامل ایک 55 سالہ کسان نے خودکشی کرلی۔ تین ہفتے میں یہ دوسرا واقعہ ہے۔
نئی دہلی: پنجاب اور ہریانہ کے درمیان شمبھو بارڈر پر احتجاج کرنے والے 55 سالہ کسان نے جمعرات کو مبینہ طور پر زہریلی اشیاء کھا کر خودکشی کر لی۔ تین ہفتے میں احتجاجی مقام پر یہ دوسرا واقعہ ہے۔
معلوم ہو کہ کسان کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کی ضمانت اور سوامی ناتھن کمیشن کی سفارشات سمیت اپنے دیگر مطالبات کو نافذ کروانے کے لیےیہاں گزشتہ ایک سال سے احتجاج کر رہے ہیں۔
دی ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق، پنجاب کے ضلع ترن تارن کے پاہوونڈ سے تعلق رکھنے والے ریشم سنگھ نے احتجاجی مقام پر یہ قدم اٹھایا۔ کسانوں نے بتایا کہ انہیں پٹیالہ کے راجندرا ہسپتال لے جایا گیا، جہاں ان کی موت ہوگئی۔
کسان مزدور سنگھرش مورچہ اور سنیوکت کسان مورچہ (غیر سیاسی) کے کوآرڈینیٹر سرون سنگھ پنڈھیر نے کہا کہ وہ کسانوں کے مطالبات کو پورا نہ کرنےکی وجہ سے مرکز سے مایوس تھے۔
انہوں نے کہا کہ جب تک حکومت ان کے خاندان کو 25 لاکھ روپے کا معاوضہ نہیں دیتی اور ان کے خاندان کے افراد کو نوکری نہیں دیتی اور کسانوں کا قرض معاف نہیں کرتی، تب تک ریشم سنگھ کی آخری رسومات ادا نہیں کی جائے گی۔ پنڈھیر نے کہا، ‘مطالبات پورے ہونے تک کسان کی لاش کو مردہ خانے میں رکھا جائے گا۔’
واضح ہو کہ اس سے پہلے 18 دسمبر کو اسی احتجاجی مقام پر ایک اور کسان رنجودھ سنگھ نے خودکشی کر لی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ رنجودھ سنگھ کسان لیڈر جگجیت سنگھ ڈلیوال (70) کی بگڑتی ہوئی صحت سے پریشان تھے، جو 26 نومبر سے کھنوری سرحد پر ہڑتال پر ہیں۔
ڈلیوال، جن کی ہڑتال جمعرات کو 45ویں دن میں داخل ہو گئی، نے اپنے ساتھی مظاہرین سے اپیل کی کہ وہ ان کی موت کی صورت میں بھی تحریک جاری رکھیں۔
بدھ کی صبح اپنے قریبی ساتھی کاکا سنگھ کوٹرا کو بھیجے گئے ایک پیغام میں ڈلیوال نے کہا کہ ان کی لاش کو احتجاجی مقام پر رکھا جانا چاہیے اور کسی اور رہنما کے ذریعہ ہڑتال جاری رکھنی چاہیے، جو کسانوں کی تحریک کے انتھک جذبے کی علامت ہے۔
ڈلیوال کی صحت کی نگرانی کرنے والے پانچ ڈاکٹروں کی ٹیم نے ان کی حالت پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ کسانوں نے بتایا کہ 26 نومبر سے صرف پانی پر زندہ رہنے والےڈلیوال نے کینسر کی دوا لینا بھی چھوڑ دی ہے۔ باقاعدگی سے ان کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں نے صحت کے کئی سنگین مسائل پر روشنی ڈالی ہے۔
گزشتہ ماہ سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت کو انہیں اسپتال میں داخل کرنے کا حکم دیا تھا۔ عدالت اس معاملے سے متعلق کئی عرضیوں کی سماعت کر رہی ہے۔
سپریم کورٹ نے بار بار طبی مشورے کے باوجود ڈلیوال کو اسپتال میں داخل نہ کرپانے پر ریاستی حکومت کی تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ یہ نہ صرف لاء اینڈ آرڈر اورسسٹم کی ناکامی ہے بلکہ خودکشی پر اکسانا بھی ہے۔ عدالت نے ریاستی حکومت سے کہا کہ وہ ڈلیوال کو اسپتال میں داخل ہونے پر راضی کرے اور ضرورت پڑنے پر مرکز سے مدد لینے کی چھوٹ دے۔
معلوم ہو کہ کسانوں کا بنیادی مطالبہ ایم ایس پی کو قانونی درجہ دلوانا ہے، جس پر مرکزی حکومت اور کسانوں کے درمیان طویل عرصے سے تنازعہ چل رہا ہے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ مودی حکومت نے 2021 میں تین زرعی قوانین کو واپس لینے کے بعد ایم ایس پی کو قانونی درجہ دینے کا وعدہ کیا تھا، لیکن اسے پورا نہیں کیا گیا۔
خبروں کے مطابق، گزشتہ سال 13 فروری کو کسان تحریک 2.0 شروع ہونے کے بعد سے اب تک 34 کسانوں کی موت ہو چکی ہے۔