میڈیا ہاؤس ‘آج تک’ کے زیراہتمام منعقد ایک کانکلیو میں وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے سنبھل میں ہری ہر مندر کے مبینہ انہدام کے سلسلے میں مسلم کمیونٹی سے ‘اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے’ اور ‘سناتن دھرم کی علامتوں کی راہ میں غیر ضروری رکاوٹیں نہ ڈالنے’ کے لیے بھی کہا۔
نئی دہلی: اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا ہے کہ اگر دھرم گرنتھوں (مذہبی کتابوں)اور آثار قدیمہ کے شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ سنبھل میں کلکی کو وقف ایک ہری ہر مندر شاہی جامع مسجد کی تعمیر سے پہلے موجود تھا، تو مسلمانوں کو اس مغلیہ دور کی مسجد ہندوؤں کے حوالے کر دینی چاہیے۔
معلوم ہو کہ یوگی آدتیہ ناتھ جمعہ (10 جنوری) کو پریاگ راج کے کمبھ میلہ میں میڈیا ہاؤس ‘آج تک’ کے زیراہتمام منعقد ایک کانکلیو میں بول رہے تھے۔ یہاں انہوں نے گزشتہ پانچ صدیوں سے موجود سنبھل کی شاہی جامع مسجد کے تناظر میں یہ بھی کہا کہ کسی کو’کسی بھی متنازعہ ڈھانچے’ کو مسجد نہیں کہنا چاہیے۔
غورطلب ہےکہ سی ایم یوگی کے یہ تبصرے دسمبر 2024 کے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے پس منظر میں آئے ہیں، جس میں ملک کی عدالتوں کو دوسرے مذہبی مقامات پر دعویٰ کرنے والے کسی بھی نئے مقدمے کو درج نہیں کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
سپریم کورٹ، جو عبادت گاہوں کے قانون 1991 کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کر رہی ہے، نے کہا کہ جب تک یہ معاملہ زیر التوا ہے، نہ تو نئے مقدمات درج کیے جائیں گے اور نہ ہی زیر التوا مقدمات میں عبوری یا حتمی احکامات جاری کیے جائیں گے۔
یہ حکم سنبھل پر بھی لاگو ہوتا ہے، جہاں ہندو کارکنوں نے شاہی جامع مسجد میں پوجا کے مذہبی حقوق کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ دعویٰ کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس مقام پر کبھی ہری ہر مندر موجود تھا۔
آج تک کے اینکر کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا، ‘کسی بھی متنازعہ ڈھانچے کو مسجد نہیں کہا جانا چاہیے۔ جس دن ہم اسے مسجد کہنا چھوڑ دیں گے لوگ وہاں جانا بھی چھوڑ دیں گے۔ کسی بھی طرح سےاگر کسی کے عقیدےکو مجروح کرکے مسجد جیسا ڈھانچہ تعمیر کیا جائے تو یہ اسلام کے اصولوں کے خلاف ہے۔ ایسی جگہوں پر کسی قسم کی عبادت بھگوان کو بھی قبول نہیں۔ اسلام عبادت کے لیے کسی قسم کے ڈھانچے کا حکم نہیں دیتا، لیکن سناتن دھرم دیتا ہے۔’
‘اسلاف کے ورثے کی بحالی’
یوپی کے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ یہ ‘نئے ہندوستان’ کے بارے میں سوچنے کا وقت ہے، جو اپنی وراثت پر فخر محسوس کر سکے۔ وہ ملک بھر میں ہندو کارکنوں کے قدیم مساجد پر قبضہ پانےکے لیے مقدمہ دائر کرنے کے رجحان کا دفاع کرتے ہوئے بھی نظر آئے۔
آدتیہ ناتھ نے کہا، ‘اگر ہم اپنے وراثت کی بحالی کی بات کر رہے ہیں تو اس میں کچھ بھی غلط نہیں ہے۔’
سنبھل مسجد کا حوالہ دیتے ہوئے آدتیہ ناتھ نے تجویز پیش کی کہ اگر ثبوت سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ڈھانچہ ہری ہر مندر کو گرا کر تعمیر کیا گیا تھا، تو مسلمانوں کو عدالتوں کے چکر میں پڑے بغیر اسے ہندوؤں کے حوالے کر دینا چاہیے۔
آدتیہ ناتھ نے کہا، ‘اگر ہری ہر مندر کے ثبوت ہیں، اگر عقیدے کے شاستریہ ثبوت ہیں اور اگر آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کو وہاں ثبوت ملتے ہیں، تو میرے خیال میں عدالتی مداخلت کی ضرورت کے بغیر، اسلام کے پیروکاروں کو اسے سناتن دھرم لوگوں کو انتہائی احترام کے ساتھ حوالے کرتے ہوئے کہنا چاہیے، ‘یہ آپ کا ہے، آپ اپنی ملکیت کا خیال رکھیں اور شری ہری وشنو کے 10ویں اوتار کا شاندار استقبال کریں۔’
انہوں نے سنبھل میں ہری ہر مندر کے مبینہ انہدام کے سلسلے میں مسلم کمیونٹی سے ‘اپنی غلطیوں کوتسلیم کرنے’ اور ‘ سناتن دھرم کی علامتوں کی راہ میں غیر ضروری رکاوٹیں نہ ڈالنے ‘ کے لیے بھی کہا۔ انہوں نے کہا کہ اس سے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ایک نئی لہر آئے گی۔
واضح ہو کہ وزیر اعلیٰ کا یہ تبصرہ سپریم کورٹ کی جانب سے شاہی جامع مسجد کے قریب واقع کنویں میں پوجا اورپوتر اسنان (مقدس غسل) شروع کرنے کے بارے میں سنبھل میونسپل کارپوریشن کے حکام کے جاری کردہ نوٹس پر عملدرآمد پر روک لگانے کے چند گھنٹے بعد ہی آیا ہے۔ عدالت نے حکومت سے اس معاملے پر اسٹیٹس رپورٹ بھی طلب کی ہے۔
سنبھل مسجد معاملے پر 25 فروری تک روک
اس سے قبل بدھ (8 جنوری) کو الہ آباد ہائی کورٹ نے سنبھل جامع مسجد کیس میں ٹرائل کورٹ کی کارروائی پر 25 فروری تک روک لگا دی تھی۔
جسٹس روہت رنجن اگروال کی بنچ نے سنبھل سول کورٹ کے 19 نومبر 2024 کے حکم،جس میں ایڈوکیٹ کمشنر کو مسلم سائٹ کا سروے کرنے کو کہا گیا تھا، کے خلاف اس مغلیہ عہد کی مسجد کی انتظامی کمیٹی کی طرف سے دائر نظرثانی کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے روک لگانے کا فیصلہ جاری کیا۔
قابل ذکر ہے کہ سنبھل سول جج سینئر ڈیویژن نے 19 نومبر کو کچھ ہندو کارکنوں کی درخواست کا نوٹس لیتے ہوئے جلدبازی میں مسجد کےسروے کا حکم دیا تھا۔ ان کارکنوں نے دعویٰ کیا تھا کہ مغل بادشاہ بابر کے زمانے میں تعمیر ہونے والا یہ اسلامی مذہبی مقام اصل میں بھگوان وشنو کے کلکی اوتار کے لیے وقف ایک بڑا ہندو مندر تھا۔
عدالت کے حکم کے چند گھنٹوں کے اندر مسجد کا ابتدائی سروے کرنے کے بعد ایڈوکیٹ کمشنر رمیش راگھو کی قیادت میں سروے ٹیم فوٹو گرافی اور ویڈیو گرافی کے دوسرے دور کے لیے 24 نومبر کی صبح مسجد پہنچی تھی۔ تاہم، اس دن صورتحال پرتشدد ہو گئی۔
شاہی جامع مسجد کے قریب کی گلیوں میں مسجد کے دوسرے سروے کے دوران ہونے والے تشدد میں کم از کم چار مسلمان مارے گئے تھے ۔ مہلوکین کے اہل خانہ نے پولیس پر انہیں گولی مارنے کا الزام لگایا ہے، جبکہ حکام نے اس الزام کی تردید کی ہے۔ اس تشدد میں کئی پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے تھے اور کئی گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچایا گیا تھا۔
اس کے بعد اتر پردیش حکومت نے 28 نومبر 2024 کو تشدد کی تحقیقات کے لیے ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج دیویندر کمار اروڑہ کی سربراہی میں تین رکنی کمیشن کے ذریعے عدالتی تحقیقات کا حکم دیا تھا ۔
ا مغل بادشاہ بابر کے دور میں تعمیر کی گئی سنبھل مسجد کی یڈووکیٹ کمشنر کی سروے رپورٹ مقامی عدالت میں پیش کی گئی اور اسے سیل بند لفافے میں رکھا گیا ہے۔
سینئر وکیل ہری شنکر جین کی قیادت میں ہندو کارکنوں نے اپنے مقدمے میں دعویٰ کیا کہ سنبھل میں واقع شاہی جامع مسجد صدیوں پرانا کلکی کو وقف ہری ہر مندر تھا اور اسے جامع مسجد کمیٹی کے ذریعے ‘زبردستی اور غیر قانونی طور پر استعمال’ کیا جا رہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ مسجد قدیم یادگاروں کے تحفظ کے ایکٹ 1904 کے سیکشن 3(3) کے تحت محفوظ ایک یادگار ہے۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انہیں مسجد میں ‘داخلے سے منع ‘کیا جا رہا ہے۔ یہاں اے ایس آئی نے عام لوگوں کے داخلے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا، جیسا کہ قدیم یادگاروں اور آثار قدیمہ کے مقامات اور باقیات ایکٹ، 1958 کے سیکشن 18 میں مذکور ہے۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔ )
Categories: خبریں