بی جے پی کی قومی قیادت، جو منی پور میں 21 ماہ سے جاری نسلی تشدد میں وزیر اعلیٰ کے طور پر این بیرین سنگھ کی نااہلی کو تسلیم کرنے کو راضی نہیں تھی، وہ اچانک بیرین سنگھ کے استعفیٰ کے لیے کیسے راضی ہو گئی؟

این بیرین سنگھ۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@NBirenSingh.)
نئی دہلی: شطرنج کے کھیل میں اکثر بادشاہ کی سلامتی کے لیے پیادےکی قربانی دینی پڑتی ہے۔ منی پور میں کچھ ایسی ہی سیاسی بساط نظر آ تی ہے۔
معلوم ہو کہ گزشتہ 3 فروری سے ریاست میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے، اور 9 فروری کی شام جس طرح ریاست کے وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ کا استعفیٰ سامنے آیا، اس کو صرف اور صرف بادشاہ کی سلامتی کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قومی قیادت کی جانب سے ایک منصوبہ بند اقدام کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
استعفیٰ بظاہر دہلی میں پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے بیرین سنگھ حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کے اپوزیشن کانگریس کے منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے ایک مایوس کن اقدام تھا، کیونکہ اسمبلی کا اجلاس 10 فروری کو شروع ہونا تھا۔ بی جے پی کی اعلیٰ قیادت کو خدشہ تھا کہ اپوزیشن کے منصوبے کو حکمران جماعت کے کئی ایم ایل اے کی حمایت حاصل ہوگی، جو 3 مئی 2023 کو ریاست میں تشدد پھوٹنے کے بعد سے تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مرکزی حکومت نے اب تک ان کے مطالبات کو نظر انداز کیا ہے، جس کی وجہ سے یہ گروپ تبدیلی کے لیےبڑی شدومد سے کوشاں ہے۔
برسراقتدار پارٹی کے اندر طویل عرصے سے جاری اختلافات میں تازہ ترین باب ایک آڈیو ٹیپ پر لیبارٹری رپورٹ کے سامنے آنے سے بھی جڑ گیا ہے، جس میں بیرین کی آواز ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ پرائیویٹ لیبارٹری ٹروتھ لیب نے 3 فروری کو سپریم کورٹ کو دی گئی ایک رپورٹ میں کہا کہ بیرین کی آواز کے نمونے لیک ہوئے آڈیو ٹیپ کی آواز سے’93فیصد’میل کھاتے ہیں، جس نے ریاست میں نسلی تشدد میں ان کے کردار کو جانچ کے دائرے میں کھڑا کر دیا ہے۔
منی پور تشدد میں اب تک کم از کم 250 افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں اور کُکی اورمیتیئی کمیونٹی کے 70000 سے زیادہ لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں۔ ریاست کی معیشت تباہ ہو چکی ہے۔ منی پور نسلی بنیادوں پر دو حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے ۔
پچھلے سال یہ آڈیو ٹیپ وزارت داخلہ کی جانب سےمنی پور تشدد پر بنائے گئے عدالتی کمیشن کو ان افراد کے ذریعے پیش کیا گیا تھا، جن کی گمنامی کو کمیٹی کے چیئر پرسن اورگوہاٹی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس، جسٹس اجئے لامبا کے ذریعے تحفظ حاصل ہے۔ کمیشن کو بتایا گیا کہ یہ ریکارڈنگ وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ پر 2023 میں کسی وقت کی گئی تھی، جب ریاست نسلی تصادم کی زد میں تھا۔ دی وائر کے پاس بھی اس کی ایک کاپی موجود ہے، تاہم اس کے مواد کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے دی وائر نے اسے پبلک ڈومین میں لانے کا فیصلہ کیا تھا۔
جلد ہی کُکی آرگنائزیشن فار ہیومن رائٹس (کوہور) نے آڈیو ریکارڈنگ کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ اس وقت کے چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی بنچ نے عرضی گزار سے آواز کی سائنسی تصدیق کرنے اور متعلقہ رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کو کہا تھا۔
ٹروتھ لیب، جو سابق چیف جسٹس ایم این وینکٹاچلیا کی صدارت میں قائم کی گئی اور جن کی رپورٹ کو پہلے عدالت عظمیٰ قبول کر چکی ہے، کو اس کام کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔ جنوری کے آخر میں، لیب نے تصدیق کی کہ آڈیو ٹیپ میں ریکارڈ کی گئی آواز اور ایک سرکاری تقریب سے اٹھائے گئے بیرین سنگھ کی آواز کے نمونے ’93 فیصد’ میل کھاتے ہیں ۔
گزشتہ 3 فروری کو سالیسٹر جنرل تشار مہتہ کے مطالبہ کے مطابق، نئے چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی بنچ نے حکومت کو اس آڈیو ٹیپ کی ایک بار پھرسے تصدیق کے لیے مزید تین ہفتوں کا وقت دیا ہے۔ اس بار حکومت سینٹرل فارنسک سائنس لیبارٹری (سی ایف ایس ایل) سے اس کی جانچ کروا رہی ہے۔
تاہم، یہ واضح ہے کہ بیرین سنگھ اس معاملے میں بیک فٹ پر ہیں، کیوں کہ خود سی ایف ایس ایل نے کئی مواقع پر صوتی اور بصری مواد کی صداقت کو قائم کرنے کے لیے ٹروتھ لیب کی مدد لی ہے۔
کچھ سینئر لیڈروں سمیت پارٹی کے ایم ایل اےکو لگا کہ اب وہ اس معاملے میں بغاوت کرسکتے ہیں اور مرکزی حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کراسکتے ہیں، تاکہ پارٹی بیرین سنگھ کے خلاف کارروائی کر سکے۔ پارٹی کے کچھ سینئر رہنماؤں کے ذریعے بیرین سنگھ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے منصوبہ کو منی پور کانگریس کی قیادت کی مدد سے فعال کیا گیا تھا۔ پھر بھی، بیرین کی من مانی سے ناراض بی جے پی کے کئی لیڈروں نے اپنی وفاداریاں بدل لیں۔
یہ قدم آسان نہیں تھا۔ پچھلے 21 مہینوں میں بی جے پی کی اعلیٰ قیادت کی مکمل حمایت کے ساتھ بیرین نے خود کو اقلیتی کُکی کے خلاف واحد ‘ میتیئی آواز’ کے طور پر قائم کیا تھا۔ وہ مطلق اکثریت کا کارڈ بھی کھیل رہے تھے۔ بیرین سنگھ نے مبینہ طور پر ایک مسلح ہجوم بنانے کے لیے میتیئی کمیونٹی کے بنیاد پرست اور ممنوعہ گروہوں کو بھی شامل کیا تھا، جنہوں نے وادی کے علاقوں میں مسلح افواج (خصوصی اختیارات) ایکٹ (اے ایف ایس پی اے) کو ہٹانے کے مرکزی وزارت داخلہ کے فیصلے کے بعدبغیر کسی سزا کے کارروائی کی تھی۔
خبروں میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ان غیرسرکاری عناصر(نان اسٹیٹ ایکٹر) کو منی پور پولیس کی گاڑیوں کا استعمال کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ ایسے ہجوم کو ریاستی اسلحہ خانے سے سینکڑوں ہتھیار اور گولہ بارود لوٹنے کی بھی اجازت دی گئی تھی۔
ہجوم اور ایسے عناصر کی طرف سے کی گئی یہ بغاوت بیرین کی موجودگی میں ہوئی، جنہیں پارلیامنٹ کے اندر اور باہر دونوں جگہوں پرمرکز کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ وزیر داخلہ شاہ نے خود ان کے لیے لڑائی لڑی، جس سے ان کا اعتماد بڑھ گیا۔ کہا گیا کہ پارٹی کے اندر اور باہر بیرین کی مخالفت کرنے والوں اور یہاں تک کہ پولیس افسران کو بھی مسلح گروپوں نے دھمکیاں دیں یا ان پر حملہ کیا۔ بیرین سے سوال کرنے والے بی جے پی لیڈروں نے اپنی املاک کے برباد ہونے کا خطرہ مول لیا۔ جان و مال کا خوف پیدا کرکے اور مرکز کی حمایت سے، بیرین نے اپنے بیشتر ایم ایل اے اور بی جے پی کے اتحادیوں کی حمایت حاصل کرنا جاری رکھی۔
تاہم، اس بار ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن پارٹی کے چند اور ایم ایل ایے کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ بیرین کو اپنا عہدہ برقرار رکھنے کے لیے 31 کی مطلوبہ تعداد حاصل کرنے میں مشکل پیش آئے گی۔ جیسے ہی باغیوں نے آئندہ اسمبلی اجلاس میں کانگریس کے اقدام کی خاموش حمایت کا قدم اٹھایا، مرکزی بی جے پی قیادت نے کارروائی کی۔
اس نے صورتحال کو قابو سے باہر ہونے سے روکنے کے لیے بھی تیزی سے کام کیا۔ بی جے پی کے سینئر لیڈر وائی کھیم چند کو دہلی لایا گیا۔ امپھال میں خبر پھیل گئی کہ وہ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کے ساتھ بند کمرے میں ملاقات کرنے والے ہیں۔ ریاستی انچارج سمبت پاترا نے شاہ کا پیغام کھیم چند کو دیا۔ قیادت میں تبدیلی کی ضرورت تھی۔
سات فروری کو امپھال واپسی پر کھیم چند نے بیرین کو ہٹانے کے قومی قیادت کے منصوبے کی نہ تو تصدیق کی اور نہ ہی تردید کی۔ انہوں نے مقامی میڈیا پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ لیکن ان کے رویے سے لگتا تھا کہ کچھ تبدیلی ہونے والی ہے۔ صحافیوں نے ان کا پیچھا کیا اور دیکھا کہ وہ اپنی رہائش گاہ نہیں بلکہ اسپیکر تھوکچوم ستیہ برت سنگھ سے ملنے جا رہے ہیں۔ بیرین سنگھ کی مخالفت کرنے والے کچھ دیگر پارٹی ایم ایل اے کے ساتھ اسپیکر کی رہائش گاہ پر ایک بند کمرے میں میٹنگ ہوئی۔
سیاسی گرمی کو محسوس کرتے ہوئے بیرین سنگھ کچھ قابل اعتماد ایم ایل اے کے ساتھ دہلی پہنچ گئے، لیکن ریاستی بی جے پی کے ذرائع نے اس رپورٹر کو بتایا کہ وہ’شاہ سے ملنے میں ناکام رہے۔’ پھر بیرین اور ان کا گروپ کمبھ میلے میں شرکت کے لیے نکل پڑا – شاید یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ انہیں فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
ایک ہوشیار سیاست دان بیرین سنگھ جانتے تھے کہ وزیر اعلیٰ بنے رہنے کے لیے انہیں قومی قیادت کو اپنی عددی طاقت دکھانا ہوگی۔ اس لیے انہوں نے اپنی حمایت والے پارٹی کے 15 ایم ایل اے اور بی جے پی کے اتحادی نگا پیپلز فرنٹ (این پی ایف) سے تعلق رکھنے والے پانچ دیگر ایم ایل اے کو دہلی میں جمع کیا۔ بیرین کو بی جے پی کے ایک اور اتحادی نیشنلسٹ پیپلز پارٹی (این پی پی) کے پانچ ایم ایل اے کی طرف سے بھی یقین دہانی کرائی گئی کہ اگر فلور ٹیسٹ کرایا گیا تو وہ ‘غیر جانبدار رہیں گے۔’
جب بالآخر انہیں 9 فروری کو دہلی میں امت شاہ نے ملاقات کا وقت دیا، توپارٹی ذرائع نے دی وائر کو بتایا کہ وہ اپنے معاملے کو مضبوط کرنے کے لیے بی جے پی کے 15 ایم ایل اے اور پانچ این پی ایف ایم ایل اے کو ساتھ لے گئے۔ اس میٹنگ میں بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا بھی موجود تھے۔
ذرائع نے بتایا کہ،’لیکن اس بات کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے کہ ان کے پاس مطلوبہ تعداد ہے؛ مرکزی قیادت کو یقین نہیں تھا کہ بیرین حکومت کو مستحکم رکھنے میں کامیاب ہوں گے۔’ صرف 15 منٹ میں فیصلہ ہو گیا کہ بیرین کو استعفیٰ دینا ہوگا۔’
اس کے بعد مایوس بیرین امپھال واپس آگئے اور اسی شام گورنر اجئے بھلا کو اپنا استعفیٰ پیش کرنے راج بھون گئے۔ ان کے ساتھ سمبت پاترا اور ریاستی صدر شاردا دیوی سمیت دیگر موجود تھے۔
بیرین سنگھ نے ایک اکثریتی سیاست دان کی اپنی شبیہ کو برقرار رکھنے کے لیے آخری کوشش کی، جس نے خونی نسلی تنازعہ کے دوران صرف اپنی برادری کے لیے لڑائی لڑی اور میتیئی برادری کے دلوں کو چھونے کی کوشش کی۔ وہ ایک ہیرو کی طرح وداعی چاہتے تھے، یہ ان کے استعفیٰ کے خط سے واضح ہے۔
یہ دیکھنا باقی ہے کہ میتیئی کمیونٹی میں اس ‘مٹی کے بیٹے’ کے ذریعے ابھارے گئے جذبات منی پور کی سیاست پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔ پڑوسی آسام میں یہی ہوا تھا، جب سابق وزیر اعلیٰ گولاپ بوربورا نے 1970 کی دہائی میں اپنی سیٹ بچانے کے لیے آسامی کمیونٹی میں یہ جذبات پیدا کیے تھے۔
کسی بھی قیمت پر اقتدار برقرار رہے
اس سیاسی پیش رفت میں جو بات سب سے زیادہ قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ نریندر مودی-امت شاہ دور کی بی جے پی میں اگر پارٹی کسی طرح اقتدار میں بنی رہ سکتی ہے تو کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔ جنسی استحصال، جان، املاک اور روزگار کا نقصان، ہجوم کے ہاتھوں پولیس تھانوں سے ہتھیاروں کی لوٹ مار اور پولیس کی گاڑیوں میں گھومتے ممنوعہ مسلح گروہوں پر سیکورٹی فورسز کی چاق و چوبندنظر، ان تمام چیزوں نے شاید ہی کوئی فرق ڈالا ۔
حقیقت یہ ہے کہ بیرین سنگھ بی جے پی کو اقتدار برقرار رکھنے میں مدد کر سکتے تھے، انہیں چیف منسٹر کی کرسی پر برقرار رکھنے کے لیے کافی تھا، چاہے وہ پچھلے 21 مہینوں میں ریاست چلانے میں کتنے ہی نااہل کیوں نہ رہےہوں۔
یہ بھی ایک وجہ تھی کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے تشدد متاثرہ ریاست کا دورہ کرنے کی زحمت نہیں کی، چاہے منی پور کے لوگوں نے کتنا ہی شور مچایا۔ مودی نے تشدد کے خلاف سختی سے بات نہیں کی، سوائے اس کے کہ جب دو کُکی خواتین کی برہنہ پریڈ کا ایک خوفناک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا، تو انہیں کچھ بولنے پر مجبور ہونا پڑا۔
اس بات کی تصدیق کہ بیرین سنگھ کا استعفیٰ منی پور میں اسمبلی اجلاس سے قبل بی جے پی حکومت کو زندہ رکھنے میں مدد کرنے کے لیے مودی- شاہ کی جانب سے ایک مایوس کن کوشش تھی، اس حقیقت سے بھی پتہ چلتا ہے کہ منی پور میں مودی کے قابل اعتماد شخص گورنر اجئے بھلا نے 10 فروری سے اجلاس بلانے کے حکم کو ردکر دیا ہے۔ بظاہر بھلا، جو اگست 2024 تک مودی حکومت کے ہوم سکریٹری تھے، اپوزیشن کو عدم اعتماد کی تحریک کو آگے بڑھانے کی کسی بھی کوشش سے روک رہے ہیں اور اس طرح حکمراں جماعت کے خلاف سیاسی فائدہ حاصل کر رہے ہیں۔
تاہم، ریاست اب گورنر بھلا کے کنٹرول میں ہے اور وہ اس بات کو یقینی بنا رہے ہیں کہ پارٹی کی حکومت فی الحال محفوظ رہے، پھر بھی ایک اور اہم قدم کا ا انتظار ہے۔
غور طلب ہے کہ بڑا سوال یہ ہے کہ کیا 24 مارچ کو جب سالیسٹر جنرل تشار مہتہ آڈیو ٹیپ پر سی ایف ایس ایل رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کریں گے، کیا تب بھی حکومت بیرین سنگھ کا دفاع کرے گی، جیسا کہ 3 فروری کو کیا گیا تھا؟ یا اس بار انہیں ‘قربانی کا بکرا’ بنایا جائے گا۔ کیونکہ شطرنج کی بساط پر بیٹھے کھلاڑی نے ایک بار پھر فیصلہ کر لیا ہے کہ بادشاہ کو ہر قیمت پر بچانا ہے؟
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔