خبریں

مہاراشٹر: گرام سبھا نے غیرقانونی طور پر مسلم تاجروں کے بائیکاٹ کی قرارداد پاس کی

مہاراشٹر کے اہلیا نگر میں 700 سالہ قدیم کنیف ناتھ مندر کے سالانہ مڈھی میلے میں ملک بھر سے خانہ بدوش برادریوں کے لوگ بڑی تعداد شرکت کرتے ہیں۔ حال ہی میں مڈھی گاؤں کی گرام سبھا میں اس میلے سے مسلم تاجروں کے بائیکاٹ کرنے کی تجویز پر دستخط کیے گئے ہیں۔

مڈھی گاؤں کا مندر۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

مڈھی گاؤں کا مندر۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

ممبئی: اہلیا نگر کے پاتھرڈی تعلقہ کے مڈھی گاؤں میں 22 فروری کو گرام سبھا کی ایک خصوصی میٹنگ بلائی گئی تھی۔ اس کا ایجنڈہ  صاف  تھا – گاؤں میں پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت رہائش کے لیے اہل لوگوں کی نئی فہرست پر تبادلہ خیال کرنا۔

یہ میٹنگ سنیچر کو ہوئی تھی، جو ایک غیر معمولی فیصلہ تھا کیونکہ اس دن زیادہ تر گاؤں والے اور یہاں تک کہ گرام سبھا کے اراکین بھی کام پر ہوتے ہیں۔ تاہم، میٹنگ ہوئی اور اس میں کچھ لوگ نے شرکت بھی کی۔ اجلاس ختم ہونے کے بعد ان لوگوں نے اس دن کے ایجنڈے پر دستخط کیے۔

بعد میں ان دستخطوں کامبینہ طور پر ایک اور تجویز کے لیے غلط استعمال کیا گیا، جس کا تعلق مسلم تاجروں کے ‘بائیکاٹ’سے تھا۔ یہ تاجر جلد ہی گاؤں میں قدیم کنیف ناتھ مندر میں ہونے والے عظیم الشان سالانہ مڈھی میلے کے لیے جمع ہونے والے تھے۔

معلوم ہو کہ اہلیانگر (جس کو پہلے احمد نگر کے نام سے جانا جاتا تھا) سے 50 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع یہ مندر بہت سی خانہ بدوش برادریوں کے لیے ایک اہم عبادت گاہ ہے۔ پچھلی کئی دہائیوں کے دوران، بنیاد پرست ہندوتوا تنظیموں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے ساتھ یہاں ایسے نشانات نظر آنا شروع ہو گئے ہیں جو اس دعوے کی تائید کرتے ہیں کہ یہ ایک ‘ہندو’ مندر ہے۔

معلوم ہو کہ مڈھی میں 700 سال پرانے کنیف ناتھ میلے میں ملک بھر سے،خاص طور پر خانہ بدوش کمیونٹی کے لوگ بڑی تعداد میں آتے ہیں۔

گرام سبھا کی تجویز۔

گرام سبھا کی تجویز۔

گاؤں کے سرپنچ سنجے مرکڈ کی طرف سے شروع کی گئی اس تجویز سے گاؤں میں بدامنی پھیل گئی ہے۔ ہندوستان میں کسی بھی گرام سبھا کے لیے ایسی قرارداد منظور کرنا غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔ متعدد افراد جن کے دستخط اس تجویز پر سامنے آئے تھے اب مرکڈ پر الزام لگارہے ہیں کہ وہ ان کے علم کے بغیر ان کے دستخط استعمال کر رہے ہیں۔ لیکن کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ وہ اس قدم سے واقف تھے اور اس تجویز کی حمایت کرتے ہیں۔

تنازعہ بڑھتے ہی ضلع انتظامیہ نے گرام پنچایت کے بلاک ڈیولپمنٹ آفیسر (بی ڈی او) شیواجی کامبلے کو معاملے کو دیکھنے کی ہدایت دی۔ کامبلے نے دی وائر کو تصدیق کی کہ میٹنگ واقعی ہاؤسنگ اسکیم پر بات کرنے کے لیے بلائی گئی تھی اور کسی بھی کمیونٹی کا بائیکاٹ کرنا کبھی بھی ایجنڈے میں شامل نہیں تھا۔ یہ کامبلے کا ابتدائی مشاہدہ تھا۔

کامبلے نے کہا، ‘اس طرح کی میٹنگوں سے پہلے ایجنڈہ  واضح طور پرطے کیا جاتا ہے اور اراکین اور گاؤں والوں کو مطلع کیا جاتا ہے۔ لیکن اس معاملے میں ایسا نہیں ہوا۔’

ہندوستانی آئین کا آرٹیکل 243(بی) گرام سبھا کو گاؤں کے روزمرہ کے انتظامی کاموں کے نظم و نسق کے لیےدو اہم اختیارات دیتا ہے۔ اس طرح مڈھی میں منظور کی گئی قرارداد غیر آئینی ہے اور یہ ایک فوجداری کا معاملہ بنتا ہے۔

تاہم، ابھی تک سرپنچ مرکڈ یا قرارداد منظور کرنے میں ملوث کسی اور کے خلاف کوئی قانونی کارروائی شروع نہیں کی گئی ہے۔

دی وائر نے گاؤں والوں کے خلاف شروع کی گئی کارروائی کے بارے میں جاننے کے لیے ضلع کلکٹر سدارام سلیمتھ سے رابطہ کیا، لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ سلیمتھ کاجواب موصول ہونے پر اس  رپورٹ  کواپڈیٹ کیا جائے گا۔

‘غیر قانونی سرگرمیاں،’ ‘ماں  اور بیٹیاں’

ہندتوا تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور دیگر اتحادی گروپوں کے ساتھ مضبوط روابط رکھنے والے مرکڈ نے دعویٰ کیا کہ یہ فیصلہ گزشتہ برسوں میں ‘متعدد مجرمانہ سرگرمیوں’ کے پیش نظر کیا گیا تھا۔

دی وائر سے بات کرتے ہوئے مرکڈ نے دعویٰ کیا کہ مسلم کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے متعدد تاجر مبینہ طور پر تہوار کے دوران چوری اور جوئے  جیسی  ‘غیر قانونی سرگرمیوں’ میں ملوث تھے، جو ہولی سے شروع ہوتا ہے اور کئی ہفتوں تک جاری رہتا ہے۔ تاہم، مرکڈ کے پاس اپنے دعوے کی تائید کے لیے کوئی ثبوت نہیں تھا۔

انہوں نے مسلمان تاجروں سے کم کم (سیندور) خریدنے پر بھی اعتراض کرتے ہوئے پوچھا، ‘ہماری عورتیں مسلمان مردوں کے ذریعے فروخت کی جانے والی کم کم کیسے لگا سکتی ہیں؟’

دلچسپ بات یہ ہے کہ ریسرچ اسکالر فردوس سونی، جو اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے کے لیے مہاراشٹر میں خانہ بدوش برادریوں کے تہواروں کا مطالعہ کر رہی ہیں، نے بتایا کہ یہ بنیادی طور پر مسلمانوں کی ذیلی ذات ہے، جو خانہ بدوش ہیں اور کم کم بنانے کا کام کرتی ہیں، جسے ہندو لگاتے  ہیں۔

جب مزید سوالات پوچھے گئے تو مرکڈ نے فوراً کہانی کو ‘ہندو بیٹیوں اور ماؤں کو بچانے’ پر مرکوز کر دیا۔ انہوں نے کہا، ‘ہم نے یہ قدم اپنی بیٹیوں اور ماؤں کو بچانے کے لیے اٹھایا ہے۔ اور اگر یہ آئین اور دیگر قانونی شقوں کی خلاف ورزی کرتا ہے، تو ایسا ہی ہوگا۔’

قابل ذکر ہے کہ گاؤں میں خواتین اور بچوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا کوئی کیس درج نہیں کیا گیا ہے۔

دریں اثنا، میلے کے منتظمین نے کہا ہے کہ وہ گرام سبھا کی تجویز کی مخالفت کرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں اس کے بارے میں مطلع نہیں کیا گیا تھا۔

پرامن بقائے باہمی کا گاؤں

مڈھی ایک ملی جلی ذات اور مخلوط مذہب کا گاؤں ہے۔ تقریباً 3000 گھروں میں سے تقریباً 400 مسلمانوں کے ہیں۔ باقی زیادہ تر مراٹھا ہیں (اہم ذات جس سے مرکڈس آتے ہیں) اور تیلی، مالی اور دھنگر جیسے چھوٹے او بی سی گروپ ہیں۔

کئی گھر بدھ برادری کے بھی ہیں، جنہوں نے اس ‘بائیکاٹ’ معاملے میں مسلمانوں کی حمایت میں بات کی ہے۔

فیروز شیخ، جو گاؤں میں آٹوموبائل کی مرمت کی دکان چلاتے ہیں، گزشتہ ہفتے اس گرام سبھا میٹنگ میں شریک ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ دستخط وہاں موجود زیادہ تر مسلمانوں کے جانے کے بعد لیے گئے  تھے۔

انہوں نے کہا،’وہ نہیں چاہتے تھے کہ ہم میں سے کسی کو کوئی شک ہو۔ اس لیے وہ اس وقت تک انتظار کرتے رہے جب تک ہم میٹنگ سے باہر نہیں نکل گئے  اور بعد دوسرے گاؤں والوں سے دستخط کرائے۔’

ایک اور مقامی تاجر، جان محمد پٹیل، جنہوں نے اس تجویز کی سخت مخالفت کی ہے، کہتے ہیں کہ اس طرح کے بائیکاٹ کا اعلان صرف گاؤں میں پرامن بقائے باہمی کو متاثر کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔

مڈھی تیرتھ کی ایک پیچیدہ تاریخ ہے۔ ماہر بشریات رابرٹ ایم ہیڈن نے اپنی کتاب میں بتایا ہے کہ کس طرح ہندو اور مسلمان دونوں ہی اس مندر کی تعظیم کرتے ہیں۔

مسلمانوں کے لیے یہ صوفی شاہ رمضان ماہی سوار چشتی کی درگاہ ہے جبکہ ہندوؤں کا کہنا ہے کہ یہ ہندو سنت کنیف ناتھ کی سمادھی ہے۔ دھیان رہے کہ یہ سنت ایک ہی تاریخی شخصیت ہیں، لیکن ان کی دو مذہبی شناخت ہے اور کوئی بھی گروہ دوسرے کی طرف سے استعمال کی جانے والی شناخت کو تسلیم نہیں کرتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مڈھی میں  ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کے درمیان پرامن بات چیت کی ایک طویل تاریخ ہے، جس میں کبھی کبھار تشدد کے معمولی واقعات کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔

کئی ہندوتوا تنظیموں نے حالیہ برسوں میں مڈھی کے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم، پٹیل کہتے ہیں کہ تنازعات کا گاؤں کے باہمی تعلقات پر کبھی کوئی اثر نہیں پڑا۔

کاروبار کا  پیٹرن

دیگر ہندو مندروں اور تہواروں کے برعکس کنیف ناتھ مندر میں تقریبات کی قیادت بنیادی طور پر خانہ بدوش کرتے ہیں۔ میلے میں شرکت کرنے والے مسلم تاجروں کا تعلق بھی خانہ بدوش برادری سے ہے۔

فردوس سونی نے اپنی تحقیق کے دوران مشاہدہ کیا کہ مڈھی میلے میں آنے والے زیادہ تر مسلمان چھوٹے تاجر ہیں جو پلاسٹک کے کھلونے بیچتے ہیں اور ایسے میلوں سے روزی کماتے ہیں۔ گزشہ سالوں کے دوران سونی نے اس پیٹرن  میں بھی تبدیلیاں دیکھی ہیں۔ شمالی ہندوستان کے تاجر اب مہاراشٹر اور جنوبی ریاستوں میں آنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔

ان کا خیال ہے کہ یہ تبدیلی دو اہم وجوہات ہو سکتی ہے- پہلی، شمال میں مسلم تاجروں کا بڑے پیمانے پر بائیکاٹ اور دوسرا، مغربی اور جنوبی علاقوں کو بہتر بازاروں کے طور پر دیکھا جانا، جہاں لوگوں کی قوت خرید نسبتاً زیادہ ہے۔’

سونی نے خبردار کیا کہ مغربی حصے میں بائیکاٹ کا کاروباری برادری پر گہرا معاشی اثر پڑے گا۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)

Categories: خبریں

Tagged as: , , , ,