پچھلے دس سالوں سے ہندو تہوار مسلمانوں کی مخالفت کا وسیلہ بن چکے ہیں۔ ہندوؤں کے لیے تہوار منانے کا مطلب یہی رہ گیا ہے وہ جلوس نکالیں اور مسلمانوں کو گالی دیں۔ مسلمانوں کو گالی دیتے ہوئے گانے بجائیں اور ان کے خلاف تشدد کے لیے اشتعال پیدا کریں۔

اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ہولی کھیلتے ہوئے۔(فائل فوٹو) (تصویر بہ شکریہ: پی ٹی آئی)
ہولی کا دن چڑھ رہا تھا۔ موبائل فون کا زمانہ تھا، اس لیے ہر چند منٹ بعد ہولی کی مبارکبادیں پہنچ رہی تھیں۔ اخلاقیات کا تقاضہ تو یہی تھا کہ مبارکباد قبول کی جائے اور جواب بھی دیا جائے، لیکن دل نہیں کر رہا تھا۔ پچھلے کچھ دنوں سےہولی کے قریب آتے آتے نفرت کا جو کیچڑ اچھالا گیا ہے، اس سے پوری روح گھن سےلتھر گئی ہے۔ اسے کیسے دھوئیں اور اس پر رنگ ڈال کراسے کیسے چھپائیں؟
کیا ہمیں اس گھن کی عادت پڑ گئی ہے؟یا اس سے بھی آگے بڑھ کر اب اس میں مزہ آنے لگاہے؟ یا جب ہر طرف سے غلاظت بہتی ہوئی ہمارے گھروں میں گھس آئی ہو تو کیا ہم پوآ(پکوان) چھان کر اس کی بدبو کو دبانے کی کوشش کریں؟
لیڈی میکبیتھ یاد آتی ہے: ‘عرب کاسارا عطر بھی اس ہاتھ کو خوشبودار نہیں بنا سکتا!’
کیا ہندو واقعی اب مبارکباد کے لائق ر ہ گئے ہیں؟ میں سوچتا ہوں کہ کیا اس وقت مبارکباد کی رسم ادائیگی اپنی جھینپ مٹانے کی کوشش تو نہیں ہے؟
مبارکباد کی اس بارش سے یہ وہم ہونے لگتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ موسم رنگوں کا ہی ہے۔ لیکن اصلیت تو یہ ہے کہ چاروں طرف سے بدبو ہمارا دم گھونٹ رہی ہے اور ہم کیچڑ کی خوفناک دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ جتنا پاؤں نکالنے کی کوشش کرتے ہیں اتنا ہی گہرائی میں ڈوبتے جاتے ہیں۔ پھر آپ مبارک-مبارک شور مچا کر کس کوبھلاوے میں ڈال رہے ہیں؟
کل رات کسی نے مجھے ایک ویڈیو بھیجا۔ ہولی کے نشے میں دھت ہندوؤں کا ایک ہجوم بڑی بڑی لاٹھیاں لے کر مسجد کی طرف دوڑ رہا ہے۔ پھر وہ اس کا دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوتا ہے۔ وہاں وہ تراویح میں مصروف روزہ داروں کو زبردستی رنگ لگا رہا ہے۔ باقی خوشی میں تالیاں بجا رہے ہیں۔
ایک اور ویڈیو: بھگوا جھنڈا لے کر ہندو راشٹر کے بینر کے ساتھ نوجوانوں کا جلوس ۔ استقبال میں تالیاں بجاتے مرد اور عورتوں کا ہجوم۔ ہجوم نعرے لگا رہا ہے اور مسلمانوں کو گالی دے رہا ہے۔ کھلے عام، سڑک پر مسلمانوں کو اجتماعی طور پرگالی دینے کی خوشی کا جنون ہے۔
شہر- شہر سے ایسی تصویریں جن میں مساجد کو ترپال سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔ اس کے باوجود مسجد کے سامنے رقص کرتے ہولی باز۔
ایک بڑے نیوز چینل کا سوال: ‘ہولی کا تہوار، رمضان کی دیوار؟’
خبر ہے کہ حساس علاقوں میں پولیس کا بھاری بندوبست کیا گیا تھا، تاکہ ہولی اور جمعہ کو خوش اسلوبی سے منایا جا سکے۔ اس سے پہلےسرکار کے وزراء اور حکمراں پارٹی کے لیڈروں کے بیان کہ جن مسلمانوں کو ہولی سے مسئلہ ہے وہ گھر پر ہی رہیں، نکلنا ہے تو ترپال اوڑھ کر نکلیں، ہم تو جو چاہے، یا نہ چاہے، سب پر رنگ پھینکیں گے ہی۔
ہولی میں نشہ کرنے کا بھی رواج ہے۔ بھانگ کھا کرجھومنے کی عوامی اجازت ہے۔ لیکن ہولی سے پندرہ دن پہلے ہولی کا ایک اور نشہ ہندوؤں کو کھلایا جا رہا ہے؛ یہ تمہارا تہوار ہے۔ مسلمان تمہیں کو کوئی تہوار کھل کرنہیں منانے دیتے، لیکن اب تمہارا راج آ گیا ہے۔ اب کھل کر مرضی کے مطابق اپنا تہوارمناؤ۔
پچھلے 10 سالوں سے مرضی کے مطابق تہوار منانے کا مطلب ہندوؤں کے لیے یہی رہ گیا ہے کہ وہ اس موقع پر بھیڑ یا جلوس میں مسلمانوں کو کھلے عام گالی دیں۔ مسلمانوں کو گالی دیتے ہوئے گانے بجائیں، جن میں ان کے خلاف تشدد کے لیے اشتعال پیدا کیا جا رہا ہو۔
ہندو تہواروں پر جلوس نکالنے کا رواج نیا ہے۔ کچھ تہوار ضرور تھے، جن میں جلوس نکلنے تھے۔ لیکن اب ہولی جیسے موقع پر بھی جلوس نکالنے کی روایت شروع کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جلوس کا مقصد جتنا اجتماعی طور پر، مل کر خوشی منانے کا نہیں ہے اتنا بڑی تعداد میں جمع ہو کر مسلمانوں پر حملہ کرنے کا ہے۔
تہواروں کے ذریعے ایک ایسی ہندو اجتماعیت کی تعمیر کی جا رہی ہے جو اول و آخرمسلم مخالف ہے۔ ہر تہوار کو مسلم دشمن ہندو تنظیموں کا آلہ کار بنا دیا گیا ہے۔ پوچھا جاتا ہے کہ کیا ہم اپنے ملک میں جہاں چاہیں اپنے طریقے سے تہوار نہیں منا سکتے۔ کیا ہم اپنے تہوار کے دوران مسجد میں داخل نہیں ہو سکتے؟ کسی مسلمان کے گھر میں داخل نہیں ہو سکتے؟ مسلمانوں کی بستی میں داخل ہو کر ہنگامہ نہیں کر سکتے؟ اگر ہم یہ کریں تو مسلمان مزاحمت کیوں کرتے ہیں؟ ہمارے ملک میں ہمیں اپنی مرضی کرنے سے روکنے کی ان کی مجال کیسے ہوئی؟
اب یہ سوال صرف وہ لوگ نہیں پوچھ رہے ہیں جنہیں ہم ہندوتوادی کہہ کر ہندوؤں سے الگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بلکہ عام ہندو بھی یہ پوچھنے لگے ہیں۔ ہندوؤں کو یہ سمجھا دیا گیا کہ آج تک وہ اپنے تہوار کھل کر نہیں منا پاتے تھے۔ اب موقع آ گیا ہے۔
ہندوؤں کے جشن میں اگر لازمی طور پرمسلم مخالف یا عیسائی مخالف نفرت ملی ہوتو اس جشن میں وہ کیسے شامل ہو ں؟ لیکن یہ مطالبہ ان سے بھی کیا جاتا ہے۔ ہندو کہتے ہیں: ہم تمہیں گالی دیں گے، تم ہمیں مبارکباد دو۔
مسلمان اپنی بے عزتی کے باوجودکانوڑیوں کو پانی پیش کرتے ہیں اور رام نومی پر شربت پیش کرتے ہیں۔ لیکن سچ پوچھیں تو ہندوؤں نے اس خیر سگالی کے جذبے کو سراہا ہو، اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ تشدد تشدد کو جنم دیتا ہے، نفرت سے نفرت پیدا ہوتی ہے لیکن کیا خیر سگالی سے خیرسگالی جنم لیتی ہے؟ یا تو ہندو اس سے بالکل اچھوت ہیں یا انہیں لگتا ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو یہ کام کرنے پر مجبور کیا ہے۔ یہ ان کی مجبوری ہے۔
جیسے ہی ہولی آتی ہے، امیر خسرو، نظیر اکبرآبادی اور دیگر شعراء کی ہولی سے متعلق نظمیں سامنے آنے لگتی ہیں۔ کہانیاں سنائی جاتی ہیں کہ مغل شہنشاہ یا دوسرے نواب کیسے ہولی مناتے تھے۔ لیکن اس کا ہندو ذہن پر کوئی اثر پڑتا ہو، اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔ ہولی منانے والے اکبر کو وہ ہمیشہ حملہ آور ہی کہتا رہےگا۔
لکھتے ہوئے جی اچاٹ ہو گیا۔ کیا ہمیشہ مایوسی کی ہی بات کی جائے؟ ہولی کے دن بھی؟ لیکن امید کی کوئی کرن بھی تو ہو؟ خبرآئی کہ ورنداون کے بانکے بہاری مندر کے منتظمین نے اس مطالبہ کو مسترد کر دیا ہے کہ مندر میں بانکے بہاری کے کپڑے مسلم درزیوں سے نہ بنوائے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ روایتی طور پر مسلمان درزی بھگوان کرشن کے کپڑے بناتے آئے ہیں۔ یہی نہیں مسلم کاریگران کے تاج اور زیورات بھی بناتے آئے ہیں۔ یہاں تک کہ مندر کی جالی اور ریلنگ سب انہوں نے بنائی ہے۔
مندر کے پجاری گیانیندر کشور گوسوامی نے کہا کہ نہ صرف ورنداون میں بلکہ کاشی میں بھی مسلمان بھگوان شیو کے لیے مقدس رودرکش کے مالا بناتے ہیں۔ مغل بادشاہ اکبر نے سوامی ہری داس کو بھگوان کرشن کی پوجا کے لیے عطر دیا تھا۔ اس میل جول کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟
لیکن اس خبر میں ہندی اخباروں اور ٹی وی چینلوں کو کی دلچسپی نہیں تھی۔ اس لیے یہ کہیں دبا دی گئی ۔ خیر کا بیج نمودار ہوتے ہی اس پر نفرت کا تیزاب ڈال دیا جاتا ہے۔ ایسا نہیں لگتا کہ ہندو اس مسئلہ پر عوامی بحث میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ تو ایسا نہیں ہے کہ ہم آہنگی کا کوئی امکان نہیں ہے بلکہ اسے حقیقت بنانے کے لیے عزم اور حوصلے کی کمی ہے۔
کیا یہ سب عارضی ہے؟ کیا یہ وقت بھی گزر جائے گا۔یہ مان کر ہم پھاگ گانے لگیں؟کیا وقت واقعی گزر جاتا ہے؟ ہندو سماج کے اندر پھیلی ہوئی اس غلیظ نفرت کو مسلمانوں نے جو 10 سال جھیلا ہے، ان سے کہیں کہ اسے برداشت کرلیجیے کیونکہ یہ ایک میعادی بیماری ہے جس سے ہم ہندو نجات پالیں گے؟ اور اس دوران اس نفرت نے جن مسلمانوں کی جان، جن کے گھر توڑے گئے، جن کے کاروبار تباہ کر دیے گئے اور جنہیں اندھیروں میں دھکیل دیا گیا انہیں ہم کیا تسلی دیں گے؟
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر