خبریں

اپوزیشن پارٹیوں کے ارکان نے راجیہ سبھا میں منی پور ٹیپ کا معاملہ اٹھایا، تحقیقات کا مطالبہ

راجیہ سبھا میں منی پور ٹیپ کے معاملے کو اٹھاتے ہوئے عام آدمی پارٹی کے رکن پارلیامنٹ سنجے سنگھ نے کہا کہ مذکورہ آڈیو کلپ کی صحیح طریقے سے جانچ کی جانی چاہیے تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ یہ واقعی میں سابق وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ کی آواز ہے یا نہیں۔ اگر ہے، تو سنگھ کو گرفتار کیا جانا چاہیے اور تشدد میں ان کے کردار کی تحقیقات کی جانی چاہیے۔

عآپ کے رکن پارلیامنٹ سنجے سنگھ پارلیامنٹ کے بجٹ اجلاس کے دوران راجیہ سبھا میں خطاب کرتے ہوئے۔ (تصویر: سنسد ٹی وی)

عآپ کے رکن پارلیامنٹ سنجے سنگھ پارلیامنٹ کے بجٹ اجلاس کے دوران راجیہ سبھا میں خطاب کرتے ہوئے۔ (تصویر: سنسد ٹی وی)

نئی دہلی: اپوزیشن جماعتوں کے اراکین نے 17 مارچ کو راجیہ سبھا میں منی پور ٹیپ کا معاملہ اٹھایا ، جس میں  عام آدمی پارٹی کے رکن پارلیامنٹ سنجے سنگھ نے مطالبہ کیا کہ آڈیو کلپ کی صحیح طریقے سے جانچ کی جائے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ کیا یہ  واقعی میں  سابق وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ کے ہیں یا نہیں۔

سنگھ نے کہا کہ اگر وہ ہیں، تو بیرین کو گرفتار کیا جانا چاہیے اور ریاست کے نسلی تشدد میں ان کے کردار کی تحقیقات کی جانی چاہیے۔

منی پور ، جو اس وقت صدر راج کے تحت ہے، کے بجٹ پر بحث کا جواب دیتے ہوئے سنگھ نے کہا کہ جب انہوں نے پہلی بار پارلیامنٹ میں شمال-مشرقی ریاست میں نسلی تشدد کا مسئلہ اٹھایا تھا، تو انہیں 11 ماہ کے لیے ایوان سے معطل کر دیا گیا تھا، جو ‘ملک کی پارلیامانی تاریخ کا سب سے طویل عرصہ ہے۔’

انہوں نے حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پر تشدد پھیلانے، مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھورام گوڈسے کی حمایت کرنے اور گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفے سے منہ موڑنے کا الزام لگایا۔

راجیہ سبھا کے رکن نے کہا، ‘امن لانے کی کوشش کرنے کے بجائے منی پور کی حکومت ریاست کو جلا رہی ہے اور مرکزی حکومت اس کی حمایت کر رہی ہے… یہ اس لیے ہے کہ حکمراں پارٹی صرف تشدد پھیلانے میں دلچسپی رکھتی ہے۔’

گزشتہ سال منی پور میں تشدد  پرمرکزی وزارت داخلہ کی جانب سے قائم کردہ کمیشن کو آڈیو ٹیپ سونپے جانے کے بعد دی وائر کی سنگیتا بروآ پیشاروتی نے ان پر مفصل رپورٹ کی تھی۔

منی پور ٹیپ پر دی وائر کی سیریز کے  پہلے ،  دوسرے ،  تیسرے ،  چوتھے  اور  پانچویں حصے کو یہاں پڑھا جا سکتا ہے۔

 ترنمول کانگریس کی رکن سشمتا دیو کے ذریعے ٹیپ کے ذکرکیے جانےکا حوالہ دیتے ہوئے اپوزیشن رکن پارلیامنٹ نے کہا، ‘ہو سکتا ہے کہ انہیں ان ریکارڈنگ کے بارے میں ٹھیک  سے بات کرنے کا موقع نہ ملا ہو۔ لیکن وہ ریکارڈنگ اہم ہیں۔ ایک نیوز ویب سائٹ دی وائر  ان ریکارڈنگ کو عوامی پلیٹ فارم پر لائی تھی۔ اگر یہ واقعی بیرین سنگھ کی آواز ہے تو انہیں  ریاست میں تشدد بھڑکانے کے الزام میں گرفتار کر کے تفتیش کی جانی چاہیے۔’

سنگھ نے آڈیو ٹیپ کے ایک خاص حصے کا حوالہ دیا، جس میں کمیشن کی رپورٹ میں وزیر اعلیٰ کے طور پر شناخت کی گئی آواز کو لوگوں سے یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ یا ان کی پولیس فورس ‘بم استعمال’ کر رہی ہے۔

انہوں نے (بیرین سنگھ) کہا، ‘چپکے سے مارنا ہے’، سنگھ نے پارلیامنٹ کو بتایا۔

جب حکمراں جماعت کے ارکان سنگھ پر چلا رہے تھے اور ان سے معافی مانگنے کا مطالبہ کر رہے تھے، تب  ڈپٹی چیئرمین ہری ونش نے سنگھ سے کہا کہ انہوں نے جو کچھ بھی کہا ہے، اسے  ثابت کریں۔

انہوں نے کہا، ‘آڈیو ٹیپ عوامی پلیٹ فارم میں ہے، جناب۔ میں اسے دکھاؤں گا۔’

‘منی پور نہیں’

سنگھ نے کانگریس، ٹی ایم سی، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا اور بیجو جنتا دل سمیت دیگر اپوزیشن اراکین کے ساتھ مل کر تشدد سے متاثرہ ریاست کا دورہ نہ کرنے پر وزیر اعظم نریندر مودی پر تنقید کی۔

انہوں نے کہا، ‘ورنہ، وہ (بی جے پی ممبران) حرف ‘م’ کے جنون میں مبتلا ہیں۔ مٹن، مچھلی، مغل، مسلمان کہو، لیکن منی پور نہیں۔ وزیر اعظم کو پچھلے دو سالوں میں منی پور جانے کا وقت نہیں ملا ہے۔’

بحث کا جواب دیتے ہوئے دیب نے بی جے پی کے نعرے ‘ڈبل انجن سرکار (حکومت)’ کا بھی حوالہ دیا، جسے اکثر وزیر اعظم استعمال کرتے ہیں، یہ کہنے کے لیے کہ یہ ‘ریاست کے لوگوں کو ڈرانے کا ایک طریقہ ہے کہ ترقی کے لیے بی جے پی کو ووٹ دیں… اپوزیشن ریاستیں محروم ہیں… یہ وفاقیت کی بدعنوانی ہے… منی پور کے لوگوں نے دوبار بی جے پی کو ڈبل انجن کی سرکار دی ،لیکن یہ اس ڈبل  انجن سرکار کی ناکامی  ہے…وزیراعظم کو شرمندگی سے بچانے کے لیے لگایا گیا ہے۔’

انہوں نے ہنگامی فنڈ کے طور پر 500 کروڑ روپے کی فراہمی پر سوال اٹھایا اور اس کے بجائے ریاست کے لیے مالیاتی پیکیج کا مطالبہ کیا۔

وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن کی موجودگی میں حکمراں پارٹی اور بجٹ پر سخت حملہ کرتے ہوئے دیب نے ایوان کو بیرین سنگھ کے استعفیٰ دینے والے ‘واقعات کی تاریخ’ کی وضاحت بھی کی، جس میں سپریم کورٹ نے فروری کے اوائل میں حکومت سے آڈیو ٹیپ کو سینٹرل فرانزک لیب سے تصدیق کرانے اور 24 مارچ کو رپورٹ پیش کرنے کو کہا ہے۔