الہ آباد ہائی کورٹ نے ایک نابالغ کے جنسی استحصال کے دو ملزمین کے خلاف ٹرائل کورٹ کی جانب سے لگائے گئے الزامات میں ترمیم کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ متاثرہ کی چھاتی کو پکڑنا اور اس کے پاجامے کا ازاربند توڑنا ریپ یا ریپ کی کوشش نہیں سمجھا جائے گا۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)
نئی دہلی: الہ آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ متاثرہ کی چھاتی کو پکڑنا اور اس کے پاجامے کا ازاربند توڑنا ریپ یا ریپ کی کوشش نہیں سمجھا جائے گا۔ تاہم، عدالت نے ان کاافعال کو سنگین جنسی حملہ قرار دیا ہے۔
دی ہندو کی خبر کے مطابق، عدالت نے ان افعال کے دو ملزمین کے خلاف ٹرائل کورٹ کی جانب سے لگائے گئے الزامات میں ترمیم کا حکم دیا۔
ملزم پون اور آکاش کو کاس گنج کی ایک عدالت نے تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 376 (ریپ) اور بچوں کے جنسی جرائم سے تحفظ (پی او سی ایس او) ایکٹ کی دفعہ 18 کے تحت مقدمے کا سامنا کرنے کے لیے طلب کیا تھا۔ ان پر ایک نابالغ لڑکی کے ساتھ مبینہ طور پر ریپ کرنے کا الزام ہے، جسے کچھ راہ گیروں نے بچایا اور ملزمین بھاگنے پر مجبور ہوئے۔
یہ واقعہ 2021 کا ہے جب ملزم نے لڑکی کو لفٹ کی پیشکش کی اور پھر اس کے ساتھ ریپ کرنے کی کوشش کی، اس کے اہل خانہ نے اپنی پولیس شکایت میں یہ الزام لگایا تھا۔
ملزمین نے نچلی عدالت کے سمن کو چیلنج کرتے ہوئے ہائی کورٹ سے رجوع کیا، یہ دلیل دیتے ہوئے کہ انہوں نے آئی پی سی کی دفعہ 376 کے تحت کوئی جرم نہیں کیا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ بھلے ہی ان کے خلاف شکایت کو سنجیدگی سے لیا جائے،لیکن الزامات آئی پی سی کی دفعہ 354 اور 354 (بی) (برہنہ کرنے کے ارادے سے حملہ یا طاقت کا استعمال) اورپاکسو ایکٹ کی متعلقہ دفعات کی حدود سے آگے نہیں جا سکتے۔
ہائی کورٹ نے ان سے اتفاق کیا اور اپنے 17 مارچ کے حکم میں کہا کہ ملزم کے خلاف لگائے گئے الزامات اور کیس کے حقائق ریپ کی کوشش کاجرم نہیں بناتے۔
بار اینڈ بنچ کی رپورٹ کے مطابق، عدالت نے کہا، ‘ملزم پون اور آکاش کے خلاف الزام یہ ہے کہ انہوں نے متاثرہ کی چھاتی کو پکڑا اور آکاش نے متاثرہ کے نچلے کپڑے کو کھینچنے کی کوشش کی اور اس مقصد کے لیے انہوں نے اس کے نچلے کپڑے کاازار بند توڑ دیا اور اسے پلیا کے نیچے گھسیٹنے کی کوشش کی، لیکن گواہوں کی مداخلت کی وجہ سے وہ متاثرہ کو چھوڑ کر جائے وقوعہ سےفرار ہوگئے۔ یہ حقیقت یہ نتیجہ اخذ کرنے کے لیے کافی نہیں ہے کہ ملزم نے متاثرہ کے ساتھ ریپ کرنے کا فیصلہ کیا تھا، کیونکہ ان حقائق کے علاوہ ان کی جانب سے متاثرہ کے ساتھ زیادتی کی اپنی مبینہ خواہش کو آگے بڑھانے کے لیے کوئی اور کام نہیں کیا گیا۔’
جسٹس رام منوہر نارائن مشرا نے اپنے حکم میں کہا، ‘ریپ کی کوشش کا الزام لگانے کے لیے استغاثہ کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ یہ تیاری کے مرحلے سے آگے نکل گیا تھا۔ جرم کرنے کی تیاری اور اصل کوشش کے درمیان بنیادی فرق مستحکم عزم کاہے۔’
عدالت نے کہا کہ ملزم آکاش کے خلاف خصوصی الزام یہ ہے کہ اس نے متاثرہ کو پلیا کے نیچے گھسیٹنے کی کوشش کی اور اس کے پاجامے کا ازار بند توڑ دیا۔
عدالت نے کہا، ‘گواہوں نے یہ بھی نہیں کہا ہے کہ ملزم کے اس فعل کی وجہ سے متاثرہ لڑکی برہنہ ہوئی یا اس کے کپڑے اتر گئے۔ ایسا کوئی الزام نہیں ہے کہ ملزم نے متاثرہ کے خلاف جنسی زیادتی کی کوشش کی۔’
اس نے ہدایت دی کہ ملزمین کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 354 (بی) (کپڑے اتارنے کے ارادے سے حملہ کرنا یا طاقت کا استعمال کرنا) اور پاکسو ایکٹ کی دفعہ 9 اور 10 (سنگین جنسی حملہ) کے تحت مقدمہ چلایا جائے۔
Categories: خبریں