خبریں

امریکہ میں اسکالروں کی ملک بدری پر ہندوستان نے کہا – قانون پر عمل کیا جانا چاہیے

واشنگٹن کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں ‘پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلو’ بدر خان سوری کو سوموار (17 مارچ) کی شب ہوم لینڈ سکیورٹی ڈپارٹمنٹ نے’حماس کے پروپیگنڈے کو فعال طور پر پھیلانے’ کے الزام میں حراست میں لیا تھا۔ اب ایک وفاقی جج نے سوری کو امریکہ سے ڈی پورٹ کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔

بدر خان سوری اور رنجنی سری نواسن۔ (تصویر بہ شکریہ: لنکڈ ان اکاؤنٹ اور اسپیشل ارینجمنٹ۔)

بدر خان سوری اور رنجنی سری نواسن۔ (تصویر بہ شکریہ: لنکڈ ان اکاؤنٹ اور اسپیشل ارینجمنٹ۔)

نئی دہلی: امریکہ میں دو ہندوستانی اسکالروں  کو ملک بدری کی دھمکی کا سامنا کرنے کے بعد ہندوستان نے جمعہ (21 مارچ) کو کہا کہ دونوں طالبعلموں میں سے کسی نے بھی ان کے مشن سے مدد نہیں مانگی ہے۔

رپورٹ کے مطابق ،وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے اس بات پر زور دیا کہ بیرون ملک رہنے والے ہندوستانی شہریوں کو مقامی قوانین پر عمل کرنا چاہیے۔

غور طلب ہے کہ گزشتہ سال امریکا کی کئی یونیورسٹیوں میں فلسطین کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں نے خاصی توجہ مبذول کروائی تھی، جس کے خلاف اب ٹرمپ انتظامیہ کارروائی کرتی نظر آرہی ہے۔

اسی سلسلے میں  واشنگٹن کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں ایک ‘پوسٹ ڈاکٹرل فیلو’ بدر خان سوری کو سوموار (17 مارچ) کی شب ہوم لینڈ سکیورٹی ڈپارٹمنٹ نے ‘حماس کا پروپیگنڈہ فعال طور پر پھیلانے’ کے الزام میں حراست میں لیا تھا۔

تاہم، جمعرات (20 مارچ) کو ورجینیا میں ایک وفاقی جج نے فیصلہ دیا کہ ہوم لینڈ سکیورٹی کا محکمہ جے-1 ویزا کے تحت امریکہ میں مقیم ہندوستانی شہری بدر خان سوری کو ملک بدر نہیں کر سکتا۔ اس کے ساتھ ہی جج نے سوری کی امریکہ سے ملک بدری پر روک لگا دی۔

امریکی حکومت نے ان پر حماس کے بارے میں ‘پروپیگنڈہ ‘ پھیلانے کا الزام لگایا ہے، جس کی ان کے وکیل نے تردید کی ہے۔

واضح ہو کہ سوری اس طرح کی کارروائی کا سامنا کرنے والے دوسرے ہندوستانی شہری ہیں۔ اس ماہ کے شروع میں کولمبیا یونیورسٹی کی اسکالر رنجنی سری نواسن کو امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے ان کا اسٹوڈنٹ ویزا منسوخ کرنے کے بعد امریکہ چھوڑنا پڑا تھا۔ ٹرمپ حکام نے انہیں’دہشت گردوں کا حامی’ قرار دیا تھا، لیکن سری نواسن نے کہا کہ فلسطین پر ان کی سرگرمی سوشل میڈیا تک ہی محدود تھی۔

جمعہ کو ہفتہ وار میڈیا بریفنگ میں، وزارت خارجہ (ایم ای اے) نے کہا کہ انہیں سوری کی حراست کے بارے میں صرف میڈیا رپورٹس کے ذریعے معلوم ہوا۔

وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا، ‘اس سلسلے میں نہ تو امریکی حکومت اور نہ ہی ان لوگوں نے ہم سے یا سفارت خانے سے رابطہ کیا ہے۔’

اسی طرح، رنجنی سری نواسن کے بارے میں بھی  جیسوال نے کہا کہ ان کے  کسی مدد کے لیے ہمارے قونصل خانے یا ہمارے سفارت خانے سے رابطہ کرنے کی جانکاری  نہیں ہے۔

انہوں نے کہا،’ہمیں خبروں سےہی امریکہ سے ان  کے  جانے کے بارے میں معلوم ہوا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کینیڈا چلی گئی ہیں۔’

جیسوال نے یہ بھی اعادہ کیا کہ ویزا اور امیگریشن پالیسیاں کسی بھی ملک کے خود مختار معاملات ہیں اور غیر ملکی شہریوں کو مقامی قوانین پر عمل کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا، ‘جس طرح ہم ہندوستان میں موجود غیر ملکی شہریوں سے ہمارے قوانین اور قواعد پر عمل کرنے کی توقع رکھتے ہیں، اسی طرح بیرون ملک رہنے والے ہندوستانی شہریوں کو بھی ان ممالک کے قوانین کی پیروی کرنی چاہیے جہاں وہ رہتے ہیں۔’

جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے اس بیان کے بارے میں پوچھے جانے پر کہ اسے سوری کی کسی غیر قانونی سرگرمی کے بارےمیں جانکاری نہیں ہے، جیسوال نے کہا،’جیسا کہ میں نے بتایا، نہ تو طالبعلم نے اور نہ ہی امریکی حکومت نے ہم سے رابطہ کیا ہے۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں، تو ہم اس معاملے کا جائزہ لیں گے اور طے کریں گے کہ ان سے کس طرح رابطہ کیا جاسکتا ہے۔’

امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق سوری کے خلاف کارروائی کسی سرگرمی کی وجہ سے نہیں بلکہ حماس کے ایک سابق اہلکار کی بیٹی سےان کی  شادی کی وجہ سے کی گئی ہے۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا ہندوستان حماس کو دہشت گرد گروپ مانتا ہے، جیسوال نے کہا،آپ حماس کے بارے میں ہماری پوزیشن کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ اس لیے میں ایک بار پھر اپنے موقف کا اعادہ کرنا چاہتا ہوں۔’

معلوم ہو کہ دسمبر 2023 میں حکومت نے پارلیامنٹ میں اسی طرح کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ حماس کالعدم فہرست میں شامل نہیں ہے۔

جواب میں کہا گیا کہ ‘کسی تنظیم کو دہشت گرد قرار دینا غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے تحت آتا ہے اور کسی  تنظیم کو دہشت گرد قرار دینےپر متعلقہ سرکاری محکمے ایکٹ کی دفعات کے مطابق غور کیا جاتا ہے۔’