خبریں

آسام: سینئر صحافی دلور حسین مجمدار کی گرفتاری کے خلاف سخت احتجاج کے درمیان عدالت نے ضمانت دی

آسام کوآپریٹو اپیکس بینک میں مبینہ بدعنوانی کے خلاف احتجاج کی کوریج کرنے کے بعد صحافی دلور حسین مجمدار کو گرفتار کیا گیا تھا۔ مذکورہ بینک کے ڈائریکٹر چیف منسٹر ہمنتا بسوا شرما ہیں اور چیئرمین بی جے پی ایم ایل اے بسواجیت پھوکن ہیں۔

(السٹریشن: دی وائر)

(السٹریشن: دی وائر)

امپھال: ڈیجیٹل نیوز پورٹل ‘دی کراس کرنٹ’ کے خصوصی نمائندہ اور گوہاٹی پریس کلب کے اسسٹنٹ جنرل سکریٹری سینئر صحافی دلور حسین مجمدارکو بدھ (26 مارچ) کو کامروپ چیف جوڈیشل مجسٹریٹ (سی جے ایم) کی عدالت سے ان کے خلاف درج دو معاملوں  میں سے ایک میں ضمانت مل گئی ہے۔

حالاں کہ،  ضمانتی مچلکے جمع کرانے میں تاخیر کی وجہ سے وہ عدالتی حراست میں ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ، مجمدار کو منگل (25 مارچ) اور بدھ (26 مارچ) کی درمیانی شب کو آسام کوآپریٹو ایپکس بینک میں مبینہ بدعنوانی کے خلاف احتجاج کو کور کرنے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔

معلوم ہو کہ اس بینک کے ڈائریکٹر چیف منسٹر ہمنتا بسوا شرما ہیں اور صدر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایم ایل اے بسواجیت پھوکن ہیں۔ آسام جاتیہ پریشد کے یوتھ ونگ کے زیر اہتمام احتجاجی مظاہرہ بینک کے باہر ہوا تھا۔

بینک کے منیجنگ ڈائریکٹر ڈمبرو سیکیہ سے بدعنوانی کے الزامات کے بارے میں سوالات کرنے کی کوشش  کے فوراً بعد دلور حسین کو اس وقت حراست میں لے لیا گیا۔

ذرائع نے دی وائر کو بتایا کہ پولیس نے پان بازار پولیس اسٹیشن میں مجمدار کے خلاف دو مقدمات درج کیے ہیں۔

پہلے کیس  (نمبر 110/25) میں شیڈول کاسٹ اور شیڈول ٹرائب (مظالم کی روک تھام) ایکٹ 1989 (ترمیمی 2015) اور دفعہ 3 (1) (آر) کے تحت اور بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس) کی دفعہ 351 (2) کے تحت الزام شامل ہیں ، جو ایک آدی واسی کے خلاف مبینہ توہین آمیز ریمارکس سے متعلق ہے۔

دوسرے کیس (مقدمہ نمبر 111/25) میں بی این ایس کی  کئی دفعات شامل ہیں، جن میں سے سبھی کو قابل ضمانت جرم سمجھا جاتا ہے ۔ قابل ضمانت جرائم کے تحت پکڑے جانے پر لوگوں کو ضمانت مل سکتی ہے بشرطیکہ وہ ضمانتی مچلکے  کی ادائیگی  کریں۔

میڈیا سے بات کرتے ہوئے دلور حسین کے وکیل ایس تاپدار نے کہا کہ انہیں پہلے مقدمے میں ضمانت مل گئی تھی، لیکن وہ اپنے ضمانتی مچلکے جمع نہیں کرا سکے۔ انہوں نے کہا کہ اس وجہ سے انہیں رات کو جیل میں رہنا پڑے گا۔ ضروری کاغذی کارروائی مکمل ہونے کے بعد ان کی  رہائی کی امید ہے۔

بینک گھوٹالے پر کر رہے تھے کوریج

اس سے قبل منگل کو مجمدار نے آسام کوآپریٹو اپیکس بینک میں مبینہ بھرتی گھوٹالہ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کو کور کیا تھا۔ کراس کرنٹ کے ایڈیٹر اروپ کلیتانے دی وائر کو بتایا،’عجیب بات یہ ہے کہ  جب وہ بینک سے نکل رہے تھے، مجمدار کو پان بازار پولیس اسٹیشن سے ایک کال موصول ہوئی، جس میں ان سے فوری طور پر رپورٹ کرنے کو کہا گیا۔وہاں پہنچنے پر انہیں حراست میں لے لیا گیا۔’

کلیتا نے کہا، ‘انہیں تقریباً بارہ گھنٹے تک پولیس اسٹیشن میں حراست میں رکھا گیا۔ ان کی اہلیہ کو تھانے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی اور نہ ہی کوئی ساتھی یا کسی سینئر صحافی کو، جو خبر ملتے ہی تھانے پہنچے۔ پولیس نے کسی کو یہ بتانے سے بھی انکار کر دیا کہ کس بنیاد پر انہیں اتنے گھنٹے حراست میں رکھا گیا۔’

آدھی رات کے قریب، ایک پولیس افسر نے انتظار کر رہے اہل  خانہ اور صحافیوں کو بتایا کہ انہیں ایس سی ایس ٹی  ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔

تاہم، ان کی بیوی کو دی گئی پرچی میں شکایت کنندہ کا نام نہیں تھا۔ نہ ہی یہ بتایا گیا کہ واقعہ کہاں پیش آیا۔

مجمدار کے ایک رشتہ دار نے بتایا، ‘اس میں صرف ایک لائن کا ذکر تھا، جو مجمدار نے مبینہ طور پر ایک بوڈو آدمی سے کہی تھی۔’

صحافتی اداروں کا احتجاج

مجمدار کی گرفتاری کے بعد آسام میں صحافیوں اور میڈیا تنظیموں میں احتجاجی مظاہرہ  شروع ہو گیا۔ گوہاٹی پریس کلب نے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرہ کیا، جس میں صحافیوں نے احتجاجاً سی جے ایم کی عدالت تک مارچ نکالا۔

گوہاٹی پریس کلب نے ایک بیان میں کہا، ‘ایک صحافی کو محض اپنا کام کرنے، اپنی ذمہ داری نبھانے پر حراست میں لینا انتہائی تشویشناک ہے۔ ہم حکام سے اپیل کرتے  ہیں کہ وہ انہیں جلد از جلد رہا کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ پریس کی آزادی برقرار رہے۔’

مظاہرے کے دوران پولیس کی نفری بڑھا دی گئی، جس کے نتیجے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور احتجاج کرنے والے صحافیوں کے درمیان ایک مختصر تعطل پیدا ہوا۔

صحافی یونینوں، سول سوسائٹی کے اراکین اور اپوزیشن رہنماؤں نے بھی گرفتاری پر تنقید کرتے ہوئے اسے پریس کو ڈرانے کی کوشش قرار دیا ہے۔

پریس کلب آف انڈیا اور ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے پولیس کی کارروائی کی مذمت کی ہے اور آسام حکومت سے اس بات کو یقینی بنانے کو کہا ہے کہ میڈیا پروفیشنلز ریاست میں ہراسانی یا قانونی دھمکی کے خوف کے بغیر کام کر سکیں۔

غور طلب ہے کہ اس معاملے نے آسام میں  پریس کی آزادی پر ایک بڑی بحث کو جنم دیا ہے، بہت سے لوگ اسے خطے میں آزاد صحافیوں پر بڑھتے ہوئے دباؤ کےپیٹرن  کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔