خاص خبر

ہندوستانی ریاست مسلمانوں کی ہر سرگرمی کو مجرمانہ فعل کی طرح  پیش کر رہی ہے

پہلے ہم ہندوتوا کے حامیوں کو مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد پھیلاتے ہوئے دیکھتے تھے، اب ہم پولیس اور انتظامیہ کو یہی کرتے دیکھ رہے ہیں۔ پولیس مسلمانوں کو اندھیرے میں دھکیلنے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ ہندوستان کے ہندوائزیشن کا یہ آخری مرحلہ ہے، جہاں سرکاری مشینری مسلمانوں کو مجرم بنانے کے نئے طریقے تلاش کر رہی ہے۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

عید آ رہی ہے، کس دن ہوگی، یہ تو چاند پر منحصر ہے، لیکن ہمیں معلوم پڑا مسلمانوں کو دی گئی اتر پردیش پولیس کی دھمکی اور وارننگ سے۔ میرٹھ پولیس چیف نے کہا کہ کسی کو سڑک پر نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ اس کے باوجود کسی نے یہ جرٲت کی  تو اس کا پاسپورٹ منسوخ کرنے کی کارروائی شروع کی جائے گی۔

یہ الگ ہی سوال ہے کہ پولیس کو یہ دھمکی دینے کا اختیار کس نے دیا؟ پولیس یہ بھول گئی ہے کہ سزا دینا عدالت کا کام ہے، اس کا نہیں۔ پاسپورٹ منسوخ کرنا بھی اس کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ پھر بھی وہ غیر قانونی وارننگ کیوں جاری کر رہی ہے۔

رمضان المبارک کے آخری جمعہ کے دن الوداع نماز کے موقع پر سنبھل پولیس نے فرمان جاری کیا کہ کوئی اپنی چھت پر بھی نماز نہیں پڑھ سکتا۔ پور ےلاؤلشکر کے ساتھ پولیس سڑکوں پر گشت کرتی نظر آئی۔ تلک دھاری شخص ڈرون اڑا رہا تھا اور پولیس کے جوان انتہائی سنجیدگی سے اسے آسمان میں اڑتے ہوئےدیکھ رہے تھے۔

اگر آپ وہ ویڈیو دیکھیں گے تو  معلوم ہوگا کہ وہ کسی بھاری  دشمن کا سراغ لگا رہے ہیں۔ وہ بھی کھلے عام۔ اتر پردیش کے دیگر شہروں میں بھی پولیس نے کہا کہ سب کو عید گھر میں  منانی چاہیے۔ بہار میں بھی ہندوتوا لیڈروں نے یہ مطالبہ کرنا شروع کر دیا ہے۔

ہندوؤں کے جلوس اور اجتماع سے  کبھی انتظامیہ اور پولیس کو  پریشانی نہیں ہوئی

سڑک پر نماز نہیں پڑھنی چاہیے؛ اس کے لیے  دلیل پیش کی جارہی  ہے کہ اس سے ٹریفک میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے، حتیٰ کہ  ایمبولینس بھی نہیں جا پاتی ۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ سب جھوٹ ہے۔ لیکن ہم میں سے اکثر ہندو اس جھوٹ پر یقین کرنا چاہتے ہیں اور اس لیے ہم خاموش رہ جاتے ہیں۔

یہ دلیل بھی بے ایمانی ہے کہ ہم صرف عید کی نماز کی بات نہیں کر رہے ہیں، ہم سڑک پر کسی بھی طرح  کے تہوار کو غلط نہیں سمجھتے ہیں کیونکہ پولیس کبھی بھی درگا پوجا، رام نومی، گنیش چترتھی، رتھ یاترا، کانوڑ یاترا کے دوران ایسی وارننگ جاری نہیں کرتی ہے۔ ہر منگل کو دہلی میں کئی جگہوں پر ٹریفک جام ہوتا ہے کیونکہ لوگ سڑک کے کنارے ہنومان مندروں کے درشن  کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ سڑک کے کنارے  ہر کچھ دن پرلنگر کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ پولیس کبھی کچھ نہیں کہتی۔ سال بھر سڑکوں پر ہندوؤں کے جلوس اور اجتماع ہوتے ہیں۔ انتظامیہ اور پولیس کو کبھی پریشانی نہیں ہوئی۔

حقیقت یہ ہے کہ اب ہندوستانی ریاست کے کارندے کہہ رہے ہیں کہ سڑکیں مسلمانوں کی  نہیں، عوامی مقامات مسلمانوں کے نہیں۔

گڑگاؤں میں کچھ سال پہلے کھلے اور خالی جگہوں پر مسلمانوں  کی نماز پر ہندوتوا گروپوں کے  حملوں کے ساتھ پولیس کھڑی ہوئی اور ان جگہوں سے مسلمانوں کابائیکاٹ کردیا گیا۔ ہریانہ کے وزیر اعلیٰ اور وزراء نے کہا کہ کھلے میں نماز پڑھنا دراصل زمین پر قبضہ کرنے کی سازش ہے۔ کیا مسئلہ واقعی سڑک کا ہے؟

سنبھل میں ایک مؤذن کو صرف اس لیے گرفتار کیا گیا کہ اس نے مسجد سے افطار کے وقت کا اعلان کیا۔ اس پر کسی  ہندو نے شکایت کر دی۔ تو کیا پولیس اب یہ ماننے لگی ہے کہ اذان یا افطار کے اعلان سے ہندوؤں کے کان گندے  ہوتے ہیں اور یہ جرم ہے؟

مسلمانوں کے ہر اجتماعی عمل کو ایک سازش اور جرم کی طرح پیش کیا جا رہا ہے۔ ‘انڈین ایکسپریس’نے اپنے اداریے میں بجا طور پر لکھا ہے کہ جس طرح انگریزوں نے کئی قبائل کو مجرم قرار دیا تھا، اسی طرح موجودہ ہندوستانی ریاست مسلمانوں کی ہر سرگرمی کو مجرمانہ فعل کی طرح پیش کر رہی ہے۔ وہ کہیں  مکان  خریدے،  کوئی دکان کھولے، چوڑی فروخت کرنے کے لیے گلیوں میں پھیری کرے، پڑھائی کرے، مقابلہ جاتی  امتحان میں کامیاب ہو، سب کچھ ہندوؤں کے حصے پر قبضہ کرنے کی مجرمانہ سازش ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے سال بھر پہلےہی  مسلمانوں کے لیے فلاحی اسکیموں کو ہندوؤں کا حصہ چھیننے کی سازش قرار دیا تھا۔

پولیس مسلمانوں کو اندھیرے میں دھکیلنے کے لیے سرگرم عمل ہے

ہندو تہواروں کو تو مسلمانوں کی تذلیل اور ہراساں کرنے کا موقع بنا دیا گیا ہے۔ اناؤ میں محمد شریف کو اس لیے پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا گیا کہ وہ زبردستی رنگ لگانے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ اہل خانہ اور برادری کے لوگوں نے ان کے جنازہ کو کچھ دیر سڑک پر رکھ کر احتجاج کیا۔ پولیس نے 117 مسلمانوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔ کیا اس ناانصافی  دیکھ پانا اتنا مشکل ہے؟

اس پورے معاملہ میں سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ جہاں پہلے ہم بی جے پی کے لوگوں یا ہندوتوا کے حامیوں کو مسلم مخالف نفرت پھیلاتے اور تشدد میں ملوث دیکھتے تھے، اب ہم پولیس اور انتظامیہ کو ایسا ہی کرتے دیکھ رہے ہیں۔ پولیس مسلمانوں کو اندھیرے میں دھکیلنے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ یہ ہندوستان کے ہندوائزیشن کا آخری مرحلہ ہے، جس میں ریاستی مشینری مسلمانوں کو مجرم بنانے کے نئے طریقے تلاش کر رہی ہے۔

میرے ایک نوجوان مسلمان دوست نے ٹھیک ہی کہا کہ اب انتظامیہ اور پولیس ہندوؤں کو مسلمانوں سے دور کرنے کا کام کر رہی ہے۔ سنبھل میں پولیس نے ہولی کے موقع پر بھی جس طرح سے مسلمانوں کوجمعہ کی نماز گھر پر ادا کرنے کو کہا، ایسا لگتا ہے کہ ہندو اور مسلمان سڑکوں پر ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔ اب ریاست خود ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے الگ کر رہی ہے۔

پولیس اور انتظامیہ اب آر ایس ایس سے زیادہ ہندوؤں کے ذہنوں میں مسلمانوں کے تئیں خوف اور نفرت پیدا کرنے کا کام کر رہی ہے۔ مسلمانوں کو اس کا سامنا یا مقابلہ کیسے کرنا چاہیے؟ لیکن اس سے بڑھ کر یہ ہندوؤں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ کیا وہ اس نفرت انگیز انتظامی رویہ سے متفق ہیں؟

(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)