لندن میں مقیم کشمیری اسکالر نتاشا کول نے اتوار کو بتایا کہ مودی حکومت نے ان کا او سی آئی اسٹیٹس رد کر دیا ہے۔ انہوں نے اسے بدنیتی پر مبنی ارادے اور انتقام کے جذبے سے کیے جانے والے بین الاقوامی جبر کی وحشیانہ مثال قرار دیا۔

نتاشا کول۔ (تصویر بہ شکریہ: ایکس)
نئی دہلی: لندن میں مقیم کشمیری ماہر تعلیم اور مصنف نتاشا کول، جو مودی حکومت کی ناقد رہی ہیں، نے اتوار (18 مئی) کو بتایا کہ مرکزی حکومت نے ان کے اوورسیز سٹیزن آف انڈیا (او سی آئی) کا درجہ ردکر دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، نتاشا نے اسے بدنیتی کے ارادے اور انتقام کے جذبے سے کیے جانے والے بین الاقوامی جبر کی وحشیانہ مثال قرار دیا ہے۔
معلوم ہو کہ ہندوستانی نژاد برطانوی شہری کول لندن کی یونیورسٹی آف ویسٹ منسٹر میں سینٹر فار دی اسٹڈی آف ڈیموکریسی کی سربراہ ہیں۔ پچھلے سال فروری میں بنگلورو کے کیمپے گوڑا انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر پہنچنے پر امیگریشن حکام نے انہیں ہندوستان میں داخلے سے منع کر دیا تھا اور ‘ہولڈنگ سیل’ میں 24 گھنٹے گزارنے کے اذیت ناک تجربے کے بعد کارروائی کے لیے بغیر کوئی وجہ بتائے لندن بھیج دیا گیا تھا۔
تازہ ترین پیش رفت میں، اتوار کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں نتاشا کول نے ایک تصویر شیئر کی ہے، جو مرکزی حکومت کی طرف سے ان کے او سی آئی اسٹیٹس کی منسوخی کے حوالے سے جاری کردہ پریس ریلیز معلوم ہوتی ہے۔ اس میں ان پر ‘ہندوستان مخالف سرگرمیوں’ میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا ہے۔
نوٹس میں دعویٰ کیا گیا کہ انہوں نے ‘بد نیتی سے اور حقائق یا تاریخ کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے’ ان سرگرمیوں میں حصہ لیا۔
اس میں مزید کہا گیا ہے، ‘مختلف بین الاقوامی فورمز اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپنے متعدد ہندوستان مخالف مضامین، تقاریر اور صحافتی سرگرمیوں کے ذریعےسے آپ ہندوستان کی خودمختاری سے متعلق معاملات پر ہندوستان اور اس کے اداروں کو باقاعدگی سے نشانہ بناتی ہیں۔’
کول نے اپنی پوسٹ میں کہا، ‘آج (19 مئی) جیسے ہی میں گھر پہنچی، مجھے اطلاع ملی کہ میرا او سی آئی کارڈ منسوخ کر دیا گیا ہے۔ یہ بدنیتی کے ارادے اور انتقام کے جذبے سے کیے جانے والے بین الاقوامی جبر کی ایک وحشیانہ مثال ہے۔ مجھے مودی حکومت کی اقلیت مخالف اور جمہوریت مخالف پالیسیوں پر کام کرنے کی سزا دی جا رہی ہے۔’
کول نے مودی حکومت کے ایک طرف دہشت گردی پر اپنے موقف کی وضاحت کے لیے کثیر الجماعتی وفد کو بیرون ملک بھیجنے کے فیصلے اور دوسری طرف وزیر اعظم مودی کے ہندوستان کو مدر آف ڈیموکریسی کہنے کا حوالہ دیتے ہوئے سوال اٹھائے۔
انہوں نے پوچھا، ‘کیا حکومت ہند کا خارجہ تعلقات عامہ کا وفد بتائے گا کہ ‘مدر آف ڈیموکریسی’ نے مجھے میری ماں سے ملنے سے کیوں روکا؟’
انہوں نے گزشتہ سال دی وائر کو بتایا تھا کہ ان کی بیمار والدہ ہندوستان میں رہتی ہیں۔
کول نے اتوار کو کہا،’یہ عدم تحفظ کا احساس ہے، جس میں نیک ارادے والے اختلاف کے لیے احترام کا کوئی جذبہ نہیں، جو ہندوستان میں شہریوں کو گرفتار اور جیل رسید کرتا ہے، اور بیرون ملک ہندوستانی شہریوں کو ان کے اہل خانہ تک پہنچنے سے روکتا ہے۔’
IMPORTANT NOTE – I received a cancellation of my #OCI (Overseas Citizenship of #India) *today* after arriving home. A bad faith, vindictive, cruel example of #TNR (transnational repression) punishing me for scholarly work on anti-minority & anti-democratic policies of #Modi rule. pic.twitter.com/7L60klIfrv
— Professor Nitasha Kaul, PhD (@NitashaKaul) May 18, 2025
قابل ذکر ہے کہ نتاشا کی پوسٹ اس دن سامنے آئی، جب ہریانہ پولیس نے اشوکا یونیورسٹی کےسیاسیات کے سربراہ علی خان محمود آباد کو گرفتار کیا اور ان کے خلاف سیڈیشن کے ساتھ ساتھ مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے اور گروپوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینے کے الزامات عائد کیے۔
معلوم ہو کہ محمود آباد کے خلاف دو ایف آئی آر میں سے ایک ہریانہ ویمن کمیشن کی چیئرپرسن رینو بھاٹیہ کی شکایت پر درج کی گئی ہے، کمیشن نے حال ہی میں انہیں طلب بھی کیا تھا۔
غور طلب ہے کہ او سی آئی اسٹیٹس ہندوستانی نژاد غیر ملکی شہریوں کو کچھ فوائد فراہم کرتا ہے، جس میں ہندوستان کا دورہ کرنے کے لیے ملٹی انٹری، کثیر مقصدی لائف ٹائم ویزا شامل ہے۔
یہ دیکھا گیا ہے کہ مودی حکومت نے پچھلے کچھ سالوں میں مختلف ناقدین کے او سی آئی سٹیٹس کو رد کیا ہے۔ پچھلے سال کرناٹک کے سماجی بہبود کے وزیر ایچ سی مہادیوپا نے کول کو بنگلورو میں ‘ہندوستان میں آئین اور اتحاد’ کے عنوان سے منعقدہ کانفرنس میں شرکت کے لیے مدعو کیا تھا۔
تاہم، شہر کے ہوائی اڈے پر پہنچنے پر کول کو ہندوستان میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی اور 24 گھنٹے کے تشدد کے بعد انہیں برطانیہ بھیج دیا گیا۔
اس وقت لندن سے دی وائر سے بات کرتے ہوئے کول نے کہا تھا کہ آر ایس ایس اور اس کے لیڈروں پر تنقید کرنے پر امیگریشن حکام نے انہیں’طعنہ مارا’ اور انہیں واپس بھیجنے کی کوئی تحریری وجہ نہیں بتائی۔
اتوار کو انہوں نے ہندوستان میں داخل ہونے سے روکے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ مودی حکومت نے ‘خود کو ذلیل کیا ہے اور غیر بی جے پی کرناٹک ریاستی حکومت کی توہین کی ہے، جس نے مجھے پچھلے سال مدعو کیا تھا۔’ اینٹی انڈیا’ کے مضحکہ خیز معاملے پر میرے 20000 الفاظ کے جواب کے باوجود میرے ساتھ برا سلوک کیا گیا۔’
کول، جو ایک کشمیری پنڈت پس منظر سے آتی ہیں، نے دوسری باتوں کے علاوہ مودی حکومت کی طرف سے 2019 میں آرٹیکل 370 کو ہٹانے پر تنقید کی تھی۔
اس وقت انہوں نے لکھا تھا کہ یہ اقدام ‘ مودی کی قیادت والی بھارتیہ جنتا پارٹی کے علاوہ ہندوستانیوں، کشمیری پنڈتوں یا کسی اور کے لیے اچھا نہیں ہے… مودی حکومت کو دائیں بازو کی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ… نیم فوجی دستوں اور ان کے حامیوں اور صنعت کاروں کی حمایت حاصل ہے۔ اس سے ہندوستانی کم محفوظ اور پنڈتوں کا مستقبل مزید غیر یقینی اور حالات کے ہاتھوں یرغمال ہو جاتا ہے۔’
Categories: خبریں, عالمی خبریں