خبریں

آپریشن سیندور پر آل پارٹی وفد میں ایم جے اکبر کی شمولیت کے خلاف خاتون صحافیوں کا احتجاج

جنسی ہراسانی کے سنگین الزامات کا سامنا  کر رہےسابق مرکزی وزیر ایم جے اکبر آپریشن سیندور پر ہندوستان کا موقف پیش کرنے کے لیے بیرون ملک بھیجے جانے والے آل پارٹی وفد کا حصہ ہیں۔ خواتین صحافیوں کے ایک گروپ – نیٹ ورک آف ویمن ان میڈیا، انڈیا نے اس کی مخالفت کی ہے۔

ایم جے اکبر۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

ایم جے اکبر۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: سابق مرکزی وزیر مملکت برائے امور خارجہ اور صحافی ایم جے اکبر پر 2018 میں می ٹو تحریک کے دوران متعدد خواتین نے جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا تھا۔ اس کی وجہ سے انہیں حکومت میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔

اس سلسلے میں،2021 میں وہ ایک خاتون صحافی کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ ہار گئے تھے ، جنہوں نے ان پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا تھا۔ اسے اس تحریک میں خواتین کی جدوجہد کی فتح کے طور پر دیکھا گیا تھا۔

اب ایم جے اکبر ایک بار پھر سرخیوں میں ہیں، انہیں حال ہی میں آپریشن سیندور کے بعد ہندوستان کی بین الاقوامی شرکت کے لیے آل پارٹی وفد میں شامل کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، نیٹ ورک آف ویمن ان میڈیا، انڈیا نے حکومت کے اس فیصلے کی مخالفت کی ہے اور اس معاملے میں ایک بیان جاری کیا ہے، جس کا خلاصہ درج ذیل ہے۔


نیٹ ورک آف ویمن ان میڈیا، انڈیا (این ڈبلیو ایم آئی) 7 مئی 2025 کو شروع کیے گئے آپریشن سیندور کے بعد بین الاقوامی رابطےکے لیے آل پارٹی وفد میں ایم جے اکبر کی شمولیت پر سخت اعتراض کرتا ہے ۔ ایم جے اکبر پر کئی خواتین نے جنسی ہراسانی کا الزام لگایا تھا، جن میں سے زیادہ تر صحافی ہیں۔ ہمارا ماننا ہے کہ وفد میں ان کی موجودگی ان اقدار کو مجروح کرتی ہے جو ہندوستان بیرون ملک پیش  کرنا چاہتا ہے۔

آپریشن سیندور کو ہندوستانی خواتین کی عزت اور وقار کے تحفظ کے مشن کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ یہ 22 اپریل 2025 کو پہلگام دہشت گردانہ حملے کے جواب میں شروع کیا گیا تھا، جس میں کئی خواتین نے اپنے شریک حیات کو کھو دیا تھا۔ اس آپریشن کو نہ صرف فوجی ردعمل کے طور پر پیش کیا گیا بلکہ ہندوستانی خواتین کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کیا گیا تھا۔

ان تمام پہلوؤں کو دیکھتے ہوئے، ایم جے اکبر جیسے شخص کو، جن پر جنسی ہراسانی کے سنگین الزامات کی تاریخ ہے، کو ایسے وفد میں شامل کرنا جنسی ہراسانی کا شکار ہونے والوں کو غلط اشارہ دیتا ہے اور جینڈر جسٹس کے مسائل پر ہندوستان کی ساکھ کو مجروح کرتا ہے۔

کئی خواتین صحافیوں نے کہا ہے کہ وہ گزشتہ کئی سالوں کے دوران ایم جے اکبر کی طرف سے پرتشدد سلوک، جنسی ہراسانی اور/یا حملے کا شکار رہی ہیں، انہوں نے 2018 کے آس پاس  ہندوستان کی می ٹو تحریک کے دوران کم از کم 20 خواتین ان کے خلاف گواہی دینے کو تیار تھیں ۔ یہ الزامات تفصیلی ہیں، اور بڑے پیمانے پر رپورٹ اور تسلیم کیے گئے ہیں، جس میں اکبر اپنے ایک الزام لگانے والے کے خلاف دائر ہتک عزت کا مقدمہ ہار گئے۔ فروری 2021 میں اس معاملے میں عدالت کے فیصلے کو ہندوستان میں خواتین کے حقوق اور کام کی جگہ کی حفاظت کے لیے ایک سنگ میل سمجھا گیا۔

ہم اس وفد سے ایم جے اکبر کو ہٹانے کی اپیل کرتے  ہیں، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ہندوستان کے نمائندے خواتین کے لیے احترام اور انصاف کی اقدار کی صحیح معنوں میں عکاسی کرتے ہیں۔

نیٹ ورک آف ویمن ان میڈیا، انڈیا

اٹھارہ مئی دوہزار پچیس