مرکزی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ 15 سال بعد مردم شماری اکتوبر 2026 سے دو مرحلوں میں شروع ہو گی۔ اس کے ساتھ ذات پر مبنی اعداد و شماربھی جمع کیے جائیں گے۔ اپوزیشن نے تاخیر پر سوال اٹھائے ہیں اور الزام لگایا ہے کہ بی جے پی حد بندی کے ذریعے جنوبی ریاستوں کی سیٹیں گھٹانا چاہتی ہے۔

بہار میں 2023 ذات پر مبنی سروے کے دوران شہریوں کا ڈیٹا اکٹھا کرتے ہوئے اہلکار۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: مرکزی حکومت نے بدھ 4 جون کو اعلان کیا کہ مردم شماری اور ذات پر مبنی گنتی دو مرحلوں میں کی جائے گی، جس کی شروعات 1 اکتوبر 2026 سے ہوگی۔
مرکزی وزارت داخلہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ مردم شماری کی ریفرنس ڈیٹ (تاریخ) 1 مارچ 2027 کو رات 12 بجے ہوگی، جبکہ مرکز کے زیر انتظام علاقے لداخ اور جموں و کشمیر، ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ کے برفانی علاقوں میں یہ تاریخ 1 اکتوبر 2026 کی رات 12 بجے ہوگی۔
یہ پہلا موقع ہوگاجب 15 سال کے وقفے کے بعد مردم شماری کرائی جائے گی۔ آخری مردم شماری 2011 میں کی گئی تھی، جبکہ 2021 میں مجوزہ مردم شماری کووڈ 19 کی وجہ سے ملتوی کر دی گئی تھی۔
وزارت داخلہ کے بیان میں کہا گیا، ‘ہندوستان کی آخری مردم شماری 2011 میں دو مرحلوں میں کی گئی تھی(الف)پہلا مرحلہ-ہاؤس لسٹنگ (1 اپریل سے 30 ستمبر 2010 تک) اور (ب) دوسرا مرحلہ-آبادی کی گنتی (9 فروری سے 28 فروری 2011 تک)، جس کی ریفرنس ڈیٹ 1مارچ 2011 کی رات 12 بجےتھی۔ تاہم،جموں و کشمیر، اتراکھنڈ اور ہماچل پردیش کے برفانی علاقوں میں یہ عمل 11 سے 30 ستمبر 2010 کے درمیان انجام دیاگیا تھااور ریفرنس ڈیٹ 1 اکتوبر 2010 کی رات 12بجے رکھی گئی تھی۔’
مرکزی وزارت داخلہ نے کہا کہ 2021 کی مردم شماری بھی اسی طرح دو مرحلوں میں کی جانی تھی – پہلا مرحلہ اپریل-ستمبر 2020 کے دوران اور دوسرا مرحلہ فروری 2021 میں۔ لیکن وبائی امراض کی وجہ سے اسے ملتوی کر دیا گیا تھا۔ تاہم، وزارت نے یہ نہیں بتایا کہ یہ عمل پانچ سال تک کیوں تاخیر کا شکار ہوا۔
‘سال2021میں مردم شماری کے پہلے مرحلے کی تمام تیاریاں مکمل کر لی گئی تھیں اور کچھ ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں 1 اپریل 2020 سے فیلڈ ورک شروع ہونا تھا۔ لیکن ملک بھر میں کووڈ کے پھیلاؤ کی وجہ سے مردم شماری کا کام ملتوی کر دیا گیا۔’ وزارت نے کہا۔
اپوزیشن نے مردم شماری میں تاخیر پر سوال اٹھائے
اپوزیشن جماعتوں نے مردم شماری کی شروعات کو اور ٹالنے کے حکومت کے فیصلے پر سوال اٹھایا ہے۔
کانگریس کے رکن پارلیامنٹ جئے رام رمیش نے کہا، ‘2021 میں ہونے والی مردم شماری کو اب اور 23 ماہ کے لیے ملتوی کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔ مودی حکومت صرف سرخیاں ہی بنا سکتی ہے، وقت پر کام مکمل نہیں کر سکتی۔’
تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے کہا کہ 2027 میں مردم شماری کرانے کا فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ بی جے پی تمل ناڈو کی پارلیامانی نشستیں گھٹانا چاہتی ہے۔
انہوں نے کہا، ‘ہندوستانی آئین کے مطابق 2026 کے بعد ہونے والی پہلی مردم شماری کی بنیاد پر حد بندی کی جانی ہے۔ بی جے پی نے اب مردم شماری کو 2027 تک ملتوی کر دیا ہے، جس سے ان کا مقصد واضح ہوگیاہے کہ وہ تمل ناڈو کی پارلیامانی نشستوں کو کم کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے اس بارے میں پہلے ہی خبردار کیا تھا اور اب یہ حقیقت بن رہا ہے۔’
حد بندی ایک متنازعہ مسئلہ بن گیا ہے، خاص طور پر جنوبی ریاستوں میں، جو آبادی پر قابو پانے کے بہتر اقدامات کی وجہ سے پارلیامنٹ میں اپنی نمائندگی میں کمی کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں۔
سال1976 میں، 1971 کی مردم شماری کے اعداد و شمار پر مبنی حد بندی کو روک دیا گیا تھا تاکہ وہ ریاستیں جنہوں نے خاندانی منصوبہ بندی کے ذریعے اپنی آبادی کم کی تھی، اپنی نشستوں سے محروم نہ ہوں۔ 2001 میں اس پابندی کو 2026 تک بڑھا دیا گیا۔
ذات پر مبنی مردم شماری
اس سال اپریل میں مرکزی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ مردم شماری میں ذات کے ڈیٹا کو شامل کیا جائے گا، لیکن اس وقت یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ مردم شماری اور ذات پر مبنی مردم شماری کب کرائی جائے گی۔
ذات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ اپوزیشن جماعتوں کا دیرینہ مطالبہ رہا ہے اور 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں بھی یہ ایک بڑا ایشو تھا۔
بیس اپریل کو مرکزی کابینہ کے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے مرکزی وزیر اشونی ویشنو نے کہا تھا کہ یہ فیصلہ وزیر اعظم نریندر مودی کی سماج اور ملک کی اقدار کے تئیں وابستگی کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے اپوزیشن انڈیا الائنس پر ذات پر مبنی مردم شماری کو ‘سیاسی ہتھیار’ کے طور پر استعمال کرنے کا الزام لگایا تھا اور کہا تھا کہ کانگریس کی حکومتوں نے ہمیشہ ذات پر مبنی مردم شماری کی مخالفت کی ہے۔
تاہم، یہ فیصلہ بی جے پی کے 2024 کے انتخابی موقف کے بالکل برعکس ہے، جب انہوں نے ذات پر مبنی مردم شماری کے مطالبے کو سماج کو تقسیم کرنے والا قدم قرار دیا تھا۔
سماج وادی پارٹی کے سربراہ اور لوک سبھا ایم پی اکھلیش یادو نے اس معاملے کو 2027 میں ہونے والے اتر پردیش اسمبلی انتخابات سے جوڑا۔
انہوں نے کہا، ‘ مطلب یہ کہ جب یوپی میں پی ڈی اے کی حکومت آئے گی، تب ہی ذات پر مبنی مردم شماری شروع ہوگی۔’ انہوں نے یہ تبصرہ اپنے 2024 کے انتخابی نعرے ‘پچھڑا، دلت، الپ سنکھیک’ (پی ڈی اے) کو ذہن میں رکھتے ہوئے کیا۔
( انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)