مہاراشٹر حکومت کے پہلی جماعت کے اسکولی بچوں کو فوجی تربیت دینے کے منصوبے نے تعلیم اور بچوں کے حقوق سے متعلق بنیادی خدشات کو جنم دیا ہے۔ حکومت اسے ‘نظم وضبط’ اور ‘حب الوطنی’ کی مثال قرار دے رہی ہے، لیکن یہ قدم بچوں کی ذہنی نشوونما، تعلیم کی آزادی اور جمہوری اقدار کو بری طرح متاثر کر سکتا ہے۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)
’ میں نے جاپان میں لوگوں کو اپنی حکومت کی طرف سے عائد کردہ آزادی کی حدود کو خوشی سے قبول کرتے ہوئے دیکھا ہے… لوگ اس ہمہ گیر ذہنی غلامی کو خوشی اور فخر کے ساتھ قبول کرتے ہیں کیونکہ وہ اپنے آپ کو طاقت کی ایک مشین، جسے قوم کہا جاتا ہے، میں تبدیل کرنے کی شدید خواہش رکھتے ہیں …‘-رابندر ناتھ ٹیگور، ‘قوم پرستی’
بچوں کے لیے فوجی تعلیم
1
ہندوستان کی سب سے خوشحال ریاستوں میں شامل مہاراشٹر حکومت نے ایک نئی اسکیم شروع کی ہے، جس کے تحت پہلی جماعت کے اسکولی بچوں کو بنیادی فوجی تربیت دی جائے گی ۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کا مقصد بچوں میں حب الوطنی، نظم و ضبط اور بہتر جسمانی صحت کو فروغ دینا ہے۔ اس مرحلہ وار منصوبے کے تحت تقریباً ڈھائی لاکھ ریٹائرڈ فوجیوں کی تقرری کی جائے گی۔
آپریشن سیندور کے بعد اس تجویز پر پورے ملک کی نظر ہے اور ممکن ہے کہ بی جے پی مقتدرہ دیگر ریاستیں بھی اس طرح کی اسکیم کی شروعات کریں۔
یہ منصوبہ کئی سطحوں پر خدشات کو جنم دیتا ہے۔
سب سے پہلے، ماہرین تعلیم کے مطابق، ریاست کا اسکول سسٹم پہلے ہی شدید بحران کا سامنا کر رہا ہے — ناقص انفراسٹرکچر، اساتذہ کی شدید کمی اور پالیسی پر عملدرآمد میں رکاوٹیں۔ نتیجتاً طلبہ کے امتحانی نتائج متاثر ہو رہے ہیں،ا سکولوں میں طلبہ کی تعداد کم ہو رہی ہے، اور بنیادی سہولیات بھی ناپید ہیں۔ ایسے میں اگر حکومت فوجی تربیت پر زور دیتی ہے تو امکان ہے کہ تعلیم کے لیے مختص وسائل مزید کم ہو جائیں گے۔
دوسرا، مہاراشٹرا میں پچھلی دہائی میں ہزاروں اسکول بند ہوچکے ہیں، جس کی بنیادی وجہ وسائل کی کمی اور پالیسی میں تبدیلی ہے۔ اس سے تعلیم کے حق کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ سالانہ رپورٹیں بھی ریاست کی بگڑتی ہوئی تعلیمی صورتحال کی تصدیق کرتی ہیں ۔ اب خدشہ ہے کہ حکومت یہ نئی اور دکھاوے کی اسکیم لا کر ان مسائل پر پردہ ڈالنا چاہتی ہے۔
تیسری بات، یہ تجویز یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ حکومت کے پاس تعلیم کے حوالے سے کوئی ٹھوس یا دور بیں پالیسی نہیں ہے۔ حال ہی میں، ریاستی حکومت نے بغیر کسی عوامی مشاورت کے، اپنے اسکول کے نصاب کو ترک کرنے اور سی بی ایس ای کے نصاب کو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا، جس سے 2.1 کروڑ طلبہ اور 7 لاکھ اساتذہ متاثر ہوں گے ۔ اس پر ماہرین کی جانب سے پہلے ہی شدید تنقید کی جا چکی ہے۔
چوتھا، سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ تین- چار سال کے بچوں کو فوجی تربیت دینا تعلیم کے جوہر کے خلاف ہے۔ تعلیم کا مقصد بچوں کی سوچ کو آزاد بنانا ہے، معاشرے، خاندان یا ریاست وغیرہ کی طرف سے بچوں کے ذہنوں پر جو طرح طرح کی زنجیریں ڈالی جاتی ہیں، انہیں ایک جھٹکے میں توڑنا ہوتاہے، نہ کہ اطاعت اور نظم و ضبط کے نام پر انہیں خوف اور پابندیوں کا غلام بنانا ۔
پانچویں، پہلی جماعت سے فوجی تربیت کا آغاز بچوں کے ذہنوں میں ‘نامعلوم دشمنوں’ کا خوف پیدا کر سکتا ہے۔ یہ خوف ان کی ذہنی صحت پر منفی اثر ڈال سکتا ہے اور مختلف نفسیاتی مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔
2
تہذیب کا سب سے اہم کام لوگوں کو سوچنا سکھانا ہے۔ ہمارے پبلک اسکولوں کا بنیادی مقصد یہی ہونا چاہیے… ہمارے طریقہ تعلیم کی پریشانی یہ ہے کہ یہ ذہن میں لچک پیدانہیں ہونے دیتا۔ یہ ذہن کو ایک سانچے میں ڈھالتا ہے۔ یہ بچے کے موافق ہونے پر اصرار کرتا ہے۔ یہ غوروفکریا استدلال کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا، اور یہ مشاہدے کے مقابلے میں یادداشت پر زیادہ زور دیتا ہے۔- تھامس ایڈیسن
حکومت کا یہ منصوبہ اسکولی تعلیم میں ایک بڑا قدم مانا جا سکتا ہے، جو دوسری ریاستوں کے لیے ایک مثال بن سکتا ہے۔ ایسے میں توقع تھی کہ حکومت ماہرین تعلیم سے مشورہ کرے گی اور پرائمری سطح پر فوجی تربیت کے اثرات کا جائزہ لے گی اور پھر کوئی فیصلہ کرے گی۔
لیکن حالیہ برسوں میں، مرکز میں بی جے پی کی حکومت اور مختلف ریاستوں میں اس کی حکومتوں نے وسیع بحث اور مشاورت کے بغیر بڑے فیصلے لینے کی عادت بنالی ہے – چاہے وہ نوٹ بندی ہو، اچانک لاک ڈاؤن ہو یا سینٹرل وسٹا پروجیکٹ جس کی لاگت ہزاروں کروڑ روپے ہے۔ مہاراشٹر حکومت کا یہ فیصلہ بھی اسی غیرشفافیت کی مثال ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کسی بھی قیمت پر اس اسکیم کو نافذ کرنا چاہتی ہے۔
تعلیمی دنیا پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام براہ راست وزیر اعظم کے دفتر (پی ایم او) کے اس سابقہ منصوبے سے منسلک ہے ، جس میں سینک اسکول ماڈل کو کیندریہ ودیالیوں اور نوودیا ودیالیوں میں لاگو کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ اس تجویز میں سخت جسمانی تربیت، نظم و ضبط اور حب الوطنی پر زور دینے کی بات کہی گئی تھی۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وزیر اعظم کے دفتر کی اس متنازعہ سفارش کا ایک اثر یہ ہواہے کہ ملک کے دو تہائی سینک اسکولوں کا انتظام اب سنگھ پریوار، بی جے پی لیڈروں اور ان سے منسلک تنظیموں کے ہاتھوں میں ہے۔ اس تبدیلی کا کوئی باضابطہ اعلان نہیں ہوا تھا، لیکن رپورٹرز کلیکٹو کی رپورٹ میں اس کا انکشاف ہوا تھا۔
آزادی کے بعد، ملک میں تعلیمی پالیسی پر فیصلہ کرنے کے لیے ماہرین تعلیم کی قیادت میں وقتاً فوقتاً تعلیمی کمیشن بنائے جاتے رہے ہیں – جیسے 1953 کے رادھا کرشنن کمیشن۔ لیکن پچھلی دہائی میں، اس طرح کے ادارہ جاتی عمل تقریباً رک گئے ہیں۔ اب پالیسی سازی اور اس کے نفاذ کا مرکز صرف پی ایم او رہ گیا ہے جہاں تعینات نوکرشاہ اور کچھ ماہرین ہی اہم فیصلوں کی سمت ورفتار طے کرتے ہیں۔
3
پچھلی دہائی میں، مرکز میں ہندوتوا کی بالادستی والی حکومت کے عروج کے بعد، ‘نظم و ضبط’ اور ‘حب الوطنی’ کا فوجی ماڈل اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں قائم کیا گیا ہے۔
اس سوچ کی ایک مثال جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے اس وقت کے وائس چانسلر جگدیش کمار کی تجویز تھی، جس میں انہوں نے یوم کارگل کے موقع پر کیمپس میں ایک پرانا فوجی ٹینک نصب کرنے کا مطالبہ کیا تھا تاکہ طلبہ میں ‘فوج کے تئیں محبت’ پیدا ہو سکے۔ انہوں نے اس سیاسی تقریب میں موجود دو مرکزی وزراء سے ٹینک کا بندوبست کرنے کی اپیل کی تھی ۔
اس کے ساتھ ہی پروگرام میں موجود دو ریٹائرڈ فوجی افسران نے جے این یو پر ‘کنٹرول’ قائم کرنے کے لیے مرکزی حکومت کو مبارکباد دی تھی اور کہا تھا کہ یہی کنٹرول دوسری یونیورسٹیوں پر بھی لاگو کیا جانا چاہیے۔
جے این یو میں ٹینکوں کی نمائش کی تجویز کی طلبہ، ماہرین تعلیم اور سماجی طور پر باشعور شہریوں نے سخت مخالفت کی تھی۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ قدم یونیورسٹی میں اختلاف کی آوازوں کو دبانے کی نیت سے اٹھایا گیا ہے۔ یونیورسٹیوں کا مقصد سپاہی یا فرمانبردار عوام پیدا کرنا نہیں بلکہ ایسے باشعور شہری پیدا کرنا ہے جو ذی علم ہوں ، ان میں تجسس کا مادہ ہو اور اختلاف رائے کا اظہار کرنے کی ہمت رکھتے ہوں۔
درحقیقت، یہ بات اکثر فراموش کر د ی جاتی ہے کہ آزادی کے بعد ہی حکومت ہند کی طرف سے ملک میں سینک اسکولوں کا ایک سلسلہ قائم کیا گیا تھا اور چند ڈیفنس اکیڈمیاں بھی قائم کی گئی تھیں جہاں دلچسپی رکھنے والے طلبہ کو داخلہ مل سکتا تھا۔
پہلی جماعت سے فوجی تربیت شروع کرنے کے مہاراشٹر حکومت کے فیصلے پر سنجیدگی سے نظرثانی نہیں کی گئی ہے۔ نہ ہی اس بات کی چھان بین کی جا رہی ہے کہ کیا یہ اقدام تعلیم کے شعبے کی ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش ہے، اور نہ ہی یہ دیکھا جا رہا ہے کہ یہ ہندوستانی معاشرے کی عسکریت پسندی کی سمت ایک اہم قدم ہے۔ یہ منصوبہ ہندوتوا کی بالادستی کے نظریے کے ایجنڈے سے میل کھاتا ہے، جو پورے سماج کو عسکری بنا کر ‘اندرونی دشمنوں’ سے لڑنے کی تیاری کراتا ہے۔
آر ایس ایس کے بانی رکن اور ڈاکٹر ہیڈگیوار کے سیاسی سرپرست بی ایم مونجے نے 1930 کی دہائی میں اٹلی کا سفر کیا تھا اور فاشسٹ منصوبوں کا مطالعہ کیا تھا۔ انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ آر ایس ایس کے لیے ایسے ادارے قائم کریں گے اور ہندوستان واپس آکر انہوں نے بھونسالہ ملٹری اسکول قائم کرنے کی تگ ودوکی۔
ہندوتوا جماعتوں کے پسندیدہ ویر ساورکر نے 1942 میں ‘ہندوستان چھوڑو تحریک’ کے دوران ملک بھر کا سفر کیا تھااور نوجوانوں سے برطانوی فوج میں شامل ہونے کی اپیل کی تھی۔ ان کا نعرہ تھا، ‘ سیاست کا ہندو کرن کرو اور ہندوتوا کا سنیہ کرن کرو۔’
مہاراشٹر حکومت کا یہ قدم اسی خواب کو پورا کرتا ہے۔
(سبھاش گاتاڈے بائیں بازو کے کارکن، مصنف اور مترجم ہیں۔)