خاص خبر

ملک کو ایک نئی تحریک آزادی کی ضرورت ہے …

جدوجہد آزادی صرف برطانوی راج کو ختم کرنے کے لیے نہیں تھی۔ یہ اپنے وقار کو دوبارہ حاصل کرنے، بے اختیار لوگوں کو بااختیار بنانے اور ایک منصفانہ اور جامع معاشرے کی تشکیل کے  لیے ایک تہذیبی تحریک تھی۔ ہندوستان کو دوبارہ انہی جذبات کی ضرورت ہے…

السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر

آج پٹنہ میں گوپال کرشن گاندھی کی حال ہی میں شائع ہوکر منظر عام پر آنے والی کتاب دی انڈائنگ لائٹ کو پڑھتے ہوئے میرے ذہن میں ایک عجیب سا خیال آیا کہ کیا یہ سائنس یا کسی اور قوت کے توسط سے ممکن ہے کہ گاندھی، نہرو، بابا صاحب اور مولانا آزاد جیسی شخصیات کے امتزاج والی کوئی نئی شخصیت آج کے دور کے لیے مل جائے اور عصری مسائل کے درمیان سماج کے لیے مشعل راہ (لیمپ پوسٹ)بن جائے۔ اس کے بعد سب  کچھ سلسلہ وار قائم ہوتا چلا گیا، اور یہ مضمون کاغذ پر اتر آیا۔ کیونکہ میں شاید ان کروڑوں ہندوستانیوں میں صرف شامل ہوں جو محسوس کرتے ہیں کہ ملک میں ایک بار پھر تحریک آزادی کے جذبے کی ضرورت ہے۔

آزادی کے تقریباً  78 سال بعد ہندوستان ایک نازک موڑ پر ہے۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا جمہوری نظام، نوجوان آبادی اور تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت ہے۔ لیکن اس کے برعکس بعض اندرونی اور اہم پہلو کمزور ہوتے نظر آ رہے ہیں، مثلاً وہ اقدار اور جذبات؛جنہوں نے جدوجہد آزادی کو تحریک دی؛ انصاف، اتحاد، قربانی اور اخلاقی جرأت کے لیے گہری وابستگی پیدا کی۔


ہندوستان کو دوبارہ ان جذبوں کی ضرورت ہے – نوآبادیاتی نظام سے لڑنے کے لیے نہیں، بلکہ جمہوریت کی بدنما بے ضابطگیوں کو دور کرنے کے لیے؛ عدم مساوات، نفرت اور آمرانہ رویے کو ختم کرنے کے لیے۔


ہندوستان کی آزادی کی لڑائی صرف برطانوی راج کے خاتمے کے لیے نہیں تھی۔ یہ اپنے وقار کو دوبارہ حاصل کرنے، بے اختیار لوگوں کو بااختیار بنانے اور ایک منصفانہ اور جامع معاشرے کی تشکیل کے لیے ایک تہذیبی تحریک تھی۔ اس دور کے قائدین – گاندھی، نہرو، امبیڈکر، آزاد، پٹیل اور ان گنت دوسرے – نے نہ صرف ایک آزاد ہندوستان بلکہ ایک منصفانہ اور جامع ہندوستان کا خواب دیکھا تھا۔

گوپال کرشن گاندھی کی کتاب ‘دی انڈائنگ لائٹ’۔ (تصویر بہ شکریہ: سوشل میڈیا)

گاندھی نے سیاست میں اخلاقیات اور عدم تشدد کو متعارف کرایا۔ نہرو نے سائنس، جمہوریت اور سیکولرازم کو عوام الناس تک پہنچایا۔ امبیڈکر نے ملک کو ذات پات کے خاتمے اور سماجی مساوات کے لیے تیار کیا۔ مولانا آزاد نے تکثیریت اور تعلیمی فروغ کو ترقی کا نیا فلسفہ قرار دیا۔ یہ احساس انگریزوں سے نفرت سے پیدا نہیں ہوا بلکہ تمام تر تنوع اور تضادات کے باوجود ہندوستان اور اس کے لوگوں سے بے پناہ محبت کے جذبےسے پیدا ہوا تھا۔

موجودہ ہندوستان کے بہت سے مسائل بلاشبہ مختلف ہیں – لیکن سرسری نظر سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ بڑھتی ہوئی عدم مساوات اور تعصب تحریک آزادی کے وعدوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ فرقہ وارانہ پولرائزیشن ہمارے آباؤ اجداد کے بنائے ہوئے اتحاد کو تیزی سے خطرے میں ڈال رہی ہے۔ اختلاف رائے کی توہین اور جمہوری اصولوں کی تنزلی جدوجہد سے پیدا ہونے والے ہمارے متحرک سیاسی کلچر کو کچل رہی ہے۔ اور حالیہ برسوں کی ’شارٹ کٹ قوم پرستی‘ اکثر تحریک آزادی کی شدیداور اقدار پر مبنی قوم پرستی کو حاشیے پر ڈال رہی ہے۔


ہندوستان کی روح جو کبھی ایثاروقربانی، بحث اور آئیڈیل ازم سے عبارت تھی، آج مایوسی، بے حسی اور صارفیت کے بوجھ تلے دبی  جا رہی ہے۔ تحریک آزادی کی اقدار – سچائی، قربانی، مکالمہ، جامعیت اور ناانصافی کے خلاف مزاحمت – لازوال ہیں۔ اس جذبے کو دوبارہ بیدار کرنے کا مطلب ماضی کی طرف مراجعت نہیں ہے بلکہ آج کے بحران اور مسائل کا مقابلہ کرنے کے لیے اس سے اخلاقی توانائی حاصل کرنا ہے۔


سچائی کے لیے کھڑے ہونے کے لیے آج ہمیں گاندھی کی ہمت کی ضرورت ہے، خواہ وہ غیر مقبول ہی کیوں نہ ہو۔ گاندھی کو ہندوستانی سماج اور سیاست کے اخلاقی سمت نما کے طور پر دیکھا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے ہندوستانی سیاست میں روحانیت اور تبدیلی کا ایک شاندار امتزاج لانے کی کوشش کی۔ انہوں نے استعمار کو صرف مزاحمت کی خاطر نہیں بلکہ سچائی اور عدم تشدد پر مبنی اخلاقی مزاحمت کے ساتھ چیلنج کیا۔

ہمیں سماجی ناانصافی پر سوالات اٹھانے اور حکومتوں کو جوابدہ ٹھہرانے کے لیے امبیڈکر کے شعلےکی ضرورت ہے۔ انہوں نے ذات پات کے ڈھانچے میں پھنسے معاشرے کے اخلاقی کھوکھلے پن کو بے نقاب کیا۔ امبیڈکر کے لیے سیاسی آزادی سماجی اور معاشی آزادی کے بغیر بے معنی تھی۔ انہوں نے ہندوستان کو اس کا آئین دیا، ایک زندہ دستاویز جو آزادی، مساوات اور بھائی چارے کے نظریات کی عکاس ہے۔ قدامت پسندی کا مقابلہ کرنے کی ان کی ہمت اور آئینی اخلاقیات پر ان کے بے مثال بھروسےکی آج پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔

آج ہمیں جمہوری اداروں کو مضبوط بنانے اور تنقیدی سوچ کو فروغ دینے کے لیے نہرو کے وژن کی کہیں زیادہ ضرورت ہے۔  وژنری، نہرو مستقبل کی طرف دیکھتے تھے، سائنس، سیکولرازم، تعقل پسندی اور صنعتی ترقی سے چلنے والے ہندوستان کا تصور کیا کرتے تھے۔ وہ فکر و عمل میں جمہوریت پسند تھے، فرد سے زیادہ اداروں پر یقین رکھتے تھے۔ جہاں گاندھی جذبات کے سہارے عوام تک پہنچے، نہرو نے خیالات کا ایک فریم ورک تیار کیا، جس نے ہندوستان کی پارلیامانی جمہوریت، سائنسی تحقیق اور منصوبہ بندی کے نظام کی بنیاد رکھی۔

اور اسی روایت میں شکستہ قومی نفسیات کو تکثیریت اور رواداری سے درست کرنے کے لیے مولانا آزاد کی فہم ودانش کی ضرورت ہے۔ مجاہد آزادی اور دانشور مولانا آزاد ہندوستان کی جامع ثقافت کی علامت تھے۔ ایک روایتی مسلمان اور پرعزم قوم پرست ہونے کے ناطے وہ دو قومی نظریہ کے خلاف ڈٹے رہے۔ انہوں نے ہندو مسلم اتحاد، سیکولرازم اور تعلیم کو قوم کی تعمیر میں ریڑھ کی ہڈی کے طور پر قائم کیا۔ آزاد نہ صرف ایک سیاسی رہنما تھے بلکہ تہذیبوں اور مذاہب کے درمیان ایک فکری پل بھی تھے، جو ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ حقیقی قوم پرستی تکثیریت سے ہم آہنگی کا تقاضہ کرتی ہے، یکسانیت نہیں، او  ان جیسے پلوں کی آج بھی اشد ضرورت ہے۔

ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد ایک مشترکہ خواب تھا اور آج کے تناظر میں اس مشترکہ خواب کو ایک اجتماعی ذمہ داری کے طور پر زندہ کرنا ضروری ہے، خاص طور پر اس دور میں جب شخصیت پرستی کا غلبہ ہے اور اجتماعی شعور سکڑتا جا  رہا ہے۔

ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ آزادی وہ شے نہیں ہے جو 1947 میں ایک بار اور ہمیشہ کے لیے حاصل کی گئی ہو۔ یہ مسلسل چوکسی کا عمل ہے۔ تحریک آزادی ایک اخلاقی اور جذباتی انقلاب تھا – ہم سب کو یاد رکھنا چاہیے کہ انقلاب تاریخ کی کتابوں میں دفن نہیں ہوتے۔ وہ ان لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں جو نتائج کی پرواہ کیے بغیر آئینی اقدار پر سوال اٹھانے اور بحال کرنے کو تیار رہتے ہیں۔

آج کے سیاسی ماحول میں، جہاں پولرائزیشن اکثر تکثیریت کو زیر کر لیتی ہے، اور بیان بازی دلیل کی جگہ لے لیتی ہے، ایسی جامع شخصیت کا تصور کرنا صرف ایک رومانوی خیال نہیں ہے بلکہ ایک اخلاقی ضرورت ہے۔ اس طرح کی فکرمندی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ قیادت کیسی ہونی چاہیے: جارحانہ نہیں بلکہ اصول پرست، تفرقہ انگیز نہیں بلکہ جامعیت پسند، نرگسیت پسند نہیں بلکہ انسانیت پر مرکوز ۔ گاندھی، نہرو، امبیڈکر اور آزاد کی جامع شخصیت کوئی خیال نہیں ہے۔ یہ ایک بنچ مارک ہے – ایک جامع آئینہ جو ہندوستان کے ضمیر، عقل، انصاف اور روح کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔

اگرچہ ہم ایک شخص میں ان چارسرکردہ شخصیات کی کامل ترکیب کبھی نہیں پا سکتے ہیں، لیکن ہم ایسی قیادت کی خواہش  توکر ہی  سکتے ہیں جو ان کی مشترکہ میراث کی عکاسی کرے۔ ہندوستان کا خواب – سیکولر، جمہوری، منصفانہ اور جامعیت پسندی – اس سے کم  کچھ نہیں مانگتا۔

(منوج کمار جھا راشٹریہ جنتا دل کے راجیہ سبھا ممبر ہیں۔)