دنیا جب اس بحران کو بڑھتے ہوئےدیکھ رہی ہے، تو بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ہم ایک نئے عالمی تنازعہ کے آغاز کا مشاہدہ کر رہے ہیں؟ ایران، جو پانچ ہزار سال سے بھی زیادہ پرانی تہذیب والا ملک ہے، اس طرح کی جارحیت کے سامنے خاموش رہنے والا نظر نہیں آتا۔

ایک خاتون نے حزب اللہ کے سابق رہنما سید حسن نصر اللہ کی تصویر اٹھا رکھی ہے، جبکہ دیگر ترکی اور ایران کے جھنڈے لہرا رہی ہیں۔ یہ مظاہرہ استنبول، ترکی میں، اتوار، 15 جون، 2025 کو ہوا۔تصویر: اے پی/ پی ٹی آئی
جنیوا: جب آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایمریٹس پروفیسر ایوی شلیم نے صحافی کرن تھاپر کو کہا کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ ‘مافیا سرغنہ’کی طرح برتاؤ کر رہے ہیں اور ‘ جھوٹ بولنے کے بدنام اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو’ کی حمایت کر رہے ہیں، تو ان کے تلخ تبصرےکو سچ ثابت ہونے میں 24 گھنٹے سے بھی کم وقت لگا۔
شلیم نے کہا،’میں حیران ہوں کہ ایک امریکی صدر کسی سربراہ مملکت کو قتل کرنے کی بات کر سکتا ہے۔ یہ زبان کسی ایک مافیا سرغنہ کی ہوتی ہے، مہذب ممالک کے رہنماؤں کی نہیں۔’
شیکسپیئر کے ہیملیٹ کی طرح طویل عرصے تک عدم فیصلہ کے بعد ٹرمپ نے اتوار کی صبح ایران کے اہم جوہری ٹھکانوں پر حملہ کیا۔
ٹرمپ نے اعلان کیا، ‘امریکی فوج نے ایرانی حکومت کے تین بڑے جوہری مقامات پر شدید اور عین مطابق حملے کیے ۔ یہ سائٹس تباہ کن منصوبے کا مرکز تھیں۔ اب وہ مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ ایران، جو مشرق وسطیٰ کا غنڈہ بن چکا ہے، اب سے امن کا راستہ چننا ہو گا۔ اگر نہیں چنا تو اگلی بار حملے اس سے بھی زیادہ تباہ کن ہوں گے۔’
ٹرمپ نے ‘وزیراعظم نیتن یاہو کا شکریہ ادا کیا اور مبارکباد دی’ – اگرچہ بہت سے لوگوں نے اسے تباہ کن اشتعال انگیزی کے طور پر دیکھا۔
ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے اس پر متوازن لیکن سخت ردعمل دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘ٹرمپ نے امریکی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکہ کی مہنگی اور نہ ختم ہونے والی جنگوں کو ختم کریں گے۔ لیکن انہوں نے ایران کے ساتھ غداری کی، سفارتی معیارات کی خلاف ورزی کی اور اپنے ہی ووٹروں کو دھوکہ دیا – صرف ایک جنگی مجرم کی مرضی کے سامنے جھکنے کے لیے جو امریکی جانوں اور مال کو اسرائیل کے ایجنڈے کے لیے استعمال کرتا ہے۔’
عالمی برادری پہلے ہی اسرائیل پر جنگی جرائم کا الزام لگا چکی ہے۔ بین الاقوامی عدالت انصاف اور انسانی حقوق کے دیگر اداروں نے نیتن یاہو حکومت کو غزہ میں منظم اور طویل تشدد کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
رپورٹس کے مطابق، 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں (جن میں ایک ہزار سے زیادہ اسرائیلی ہلاک ہوئے) کے بعد سے غزہ میں 55000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
غزہ اب ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکاہے اور حالیہ تاریخ کے سنگین ترین انسانی بحرانوں میں سے ایک کا سامنا کر رہا ہے – جس میں بھوک اور لوگوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی بھی شامل ہے۔ اقوام متحدہ نے ان حالات کی شدید مذمت کی ہے۔ ان خدشات کو اوربڑھاتے ہوئے، اسرائیل – جو کہ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کا دستخط کنندہ نہیں ہے – کے پاس ایک ہزار سے زیادہ جوہری ہتھیاروں کا تخمینہ ہے۔
تیرہ جون کو، اس نے ایران پر حملہ کیا جسے ایران نے ‘جھوٹ پر مبنی غیر اشتعال جنگ’ قرار دیا ہے۔ اس حملے نے پہلے سے ہی غیر مستحکم صورتحال کو مزید دھماکہ خیز بنا دیا۔ ‘یہ صرف ایران نہیں تھا جس پر بمباری کی گئی تھی’، ‘یہ حملہ صرف ایران کے جوہری ڈھانچے پر نہیں تھا۔’
یہ بات ایران کے وزیر خارجہ عراقچی نے استنبول میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہی۔ ‘یہ اقوام متحدہ کے چارٹر، جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے اور پورے بین الاقوامی قانونی فریم ورک پر براہ راست حملہ تھا۔’
عراقچی نے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی(آئی اے ای اے) کے مبینہ ‘اورویلین ڈبل اسپیک’ یعنی تضادار اور گمراہ کن زبان پر بھی تنقید کی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی نے ایران کی یورینیم کی افزودگی کے بارے میں مبہم بیانات دیے – انہوں نے کہا کہ افزودگی کی سطح 60 فیصد تک پہنچ گئی ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ بم بنانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
عراقچی نے کہا،’آئی اے ای اے اور اس کے ڈائریکٹر نے اس تشدد کو ممکن بنایا ہے۔ ان کے متضاد اور دوہرے پیغامات نے اسرائیلی اور امریکی جارحیت کی راہ ہموار کی۔’
یورپی ملی بھگت اور خاموشی جو حیران کن ہے
ایران کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے پر دستخط کرنے والی یورپی طاقتوں کو بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ ایران کے وزیر خارجہ عراقچی نے کہا کہ اس حملے میں برطانیہ، جرمنی اور یورپی یونین نے حصہ لیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جنیوا میں ابھی امن مذاکرات جاری تھے جب یہ حملے کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ ہم ایک بار پھر یورپی ممالک کے ساتھ مذاکرات کے بیچ میں ہی تھے۔
اکیسویں صدی کا ایک المناک باب
جیسا کہ دنیا اس بحران کو بڑھتے ہوئے دیکھ رہی ہے، بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ہم ایک نئے عالمی تنازعہ کے آغاز کا مشاہدہ کر رہے ہیں؟
ایران، جو پانچ ہزار سال سے زیادہ پرانی تہذیب والا ملک ہے، اس طرح کی جارحیت کے سامنے خاموش رہنے والا نظر نہیں آتا۔ اس کے رہنما پہلے ہی اقوام متحدہ کے چارٹر کی متعدد خلاف ورزیوں کا حوالہ دے چکے ہیں – خاص طور پر آرٹیکل 2، پیرا 4 کا، جو کسی بھی ملک کی خودمختاری کے خلاف طاقت کے استعمال کو روکتا ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ عراقچی نے کہا کہ یہ جنگی کارروائی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کی خلاف ورزی ہے اور عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ ہم اقوام متحدہ، سلامتی کونسل، آئی اے ای اے اور دیگر تمام متعلقہ اداروں کو یاد دلاتے ہیں کہ وہ فوری اور فیصلہ کن کارروائی کرنے کے پابند ہیں۔’
انہوں نے خبردار کیا کہ ‘اس طرح کی کھلی جارحیت کے سامنے خاموشی دنیا کو غیرمعمولی بحران اور افراتفری کی طرف دھکیل دے گی۔’
اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ کی متعدد مذمتی قراردادوں سے خود کو دور کرنے کے بعد، ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے بالآخر ایرانی صدر سے رابطہ کیا اور کشیدگی کو کم کرنے کی اپیل کی۔
لیکن جیسا کہ پروفیسر ایوی شلیم نے خبردار کیا تھا، ‘مافیاسرغناؤں’ کی حکمرانی والی دنیا میں یہ بتانا مشکل ہے کہ آیا قانون کی حکمرانی باقی رہے گی – یا پھروہ فردو، نتنز اور اصفہان کے ملبوں کے نیچے ہمیشہ کے لیے دفن ہو چکی ہے۔’
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔
Categories: خاص خبر, خبریں, عالمی خبریں, فکر و نظر