سال 1975کی ایمرجنسی تاریخ میں ایک سیاہ باب کے طور پر درج ہے۔ لیکن آج کی غیر اعلانیہ ایمرجنسی کہیں زیادہ سنگین ہے، کیونکہ یہ جمہوریت کے لبادے میں جمہوریت کا گلا گھونٹ رہی ہے۔ انتخابات اب صرف ووٹ ڈالنے کے عمل تک محدود ہیں اور یہ عمل بھی کئی سطحوں پر داغدار ہے۔

نریندر مودی نے اندرا گاندھی کی طرح ایمرجنسی کا اعلان نہیں کیا، لیکن موجودہ ہندوستانی حکومت ایمرجنسی کا ہی ایک ورژن ہے۔ (فائل فوٹو)
سال 1975میں ہندوستان نے اپنی جمہوری تاریخ کے سیاہ ترین دور کا مشاہدہ کیا تھا۔دراصل، 25 جون 1975 کو، اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے ایمرجنسی کا اعلان کیا تھا- شہری آزادیوں کو معطل کر دیا گیا تھا، پریس سنسر شپ نافذ کر دی گئی تھی، سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈال دیا گیا تھا اور آئین میں من مانی تبدیلیاں کی گئی تھیں۔ لیکن کم از کم یہ سب ایک سرکاری اعلان کے ساتھ ہوا تھا۔
اب ذرا ٹھہر کر ہم موجودہ صورتحال کا مشاہدہ کرتے ہیں؛
بھلے ہی آج ایمرجنسی کا کوئی باضابطہ اعلان نہیں ہوا ہے، لیکن اس کی علامات اور نتائج بے حد ملتے جلتے ہیں۔ کئی حوالوں سے یہ دور اور بھی خطرناک معلوم ہوتا ہے۔ 1975 میں سنسر شپ کھلے طور پرنافذ کی گئی تھی۔ مدیران کو حکومت کی جانب سے احکامات صادر کیے جاتےتھے، اور اخبارات احتجاج کے طور پر خالی کالم شائع کرتے تھے۔ آج ایسا کوئی فرمان نہیں ہے، لیکن خوف اور دباؤ پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ صحافی سیلف سنسر شپ پر مجبور ہیں۔ حکومت پر تنقید کرنے والے میڈیا اداروں پر انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کےچھاپے، سرکاری اشتہارات میں کمی یا قانونی دباؤ عام سا واقعہ ہے۔ یہ ایک ‘غیر اعلانیہ سنسرشپ’ ہے – خاموشی کی سازش۔
سال 1975میں جمہوری ادارے اقتدار کے ماتحت ہو گئےتھے، لیکن آج وہ زیادہ خطرناک انداز میں اقتدار کی کٹھ پتلیاں بن چکے ہیں۔ ای ڈی، سی بی آئی، این آئی اے جیسی ایجنسیاں قانون کے محافظ بننے کے بجائے حکومت پر تنقید کرنے والوں کو ڈرانے اور خاموش کرنے کا ذریعہ بن گئی ہیں۔ اپوزیشن لیڈروں سے لے کر طلباء، کسانوں، ادیبوں اور فنکاروں تک – ہر کوئی اسٹیٹ کے نشانے پر ہے۔
آئین اقتدار کا ہتھیار بن گیا ہے
آج اسٹیبلشمنٹ کو آئین کی شقوں کو معطل کرنے کی ضرورت نہیں۔ آج اسٹیبلشمنٹ آسانی سے آئین کی دفعات کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر سکتی ہے۔یو اے پی اے،سیڈیشن اور دہشت گردی سے متعلق قوانین کا استعمال کرتے ہوئے، حکومت اپنے ناقدین کو جیل میں ڈال سکتی ہے – وہ بھی بغیر کسی مقدمے کے اوربغیر سماعت کے۔ یہ نئی ایمرجنسی قانون اور جمہوریت کی نئی تشریح کی آڑ میں چھپی ہوئی ہے۔
سال 1975میں میڈیا یعنی اخبارات پر حکومت کا براہ راست کنٹرول تھا۔ آج، یہ کنٹرول میڈیا اداروں کی خریدو فروخت، کارپوریٹ اتحادوں اور سوشل میڈیا کی حکمت عملیوں کی سے ہوتا ہے۔ مکالمے کی جگہ شور نے لے لی ہے، اوربحث کی جگہ نفرت اور ٹرولنگ نے ۔
سال 1975کی ایمرجنسی کا سب سے بدنما چہرہ عدلیہ کی خودسپردگی میں نظر آتا تھا۔ آج عدالتیں سرکاری طور پر خاموش نہیں ہیں، لیکن بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر ان کی بے عملی اور سماعت میں تاخیر باعث تشویش ہے۔
ملک پر حاوی حکومت
حکومت اور ملک کے بیچ کا ایک بڑا فرق جو جمہوریت کو توانائی فراہم کرتا ہے، اس کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے۔ حکومت چلانے والے کو فرد کو ملک کا مترادف قرار دے دیا گیا ہے اور یہ ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جا رہی۔ اس فرد خاص کے کام کرنے کے انداز پر تنقید کو بھی ملک کی تنقید قرار دیا جا رہا ہے۔ ناقدین کو ‘غدار’ بتایا جا رہا ہے۔
سال1975کی ایمرجنسی آمریت کی بازگشت تھی۔ آج کا دور آمریت پسندی کا ہے جس میں اکثریتی قوم پرستی کا رنگ چڑھا ہوا ہے جو مذہبی پولرائزیشن کے ذریعے معاشرے کو تقسیم کرنے اور احتجاج کی آواز کو ‘غداری’ قرار دے خارج کرنے والی پالیسی کو حکومتی پالیسی بنا کر کام کر رہا ہے۔ یہ صورتحال جمہوریت کے لیے اور بھی خطرناک ہے۔
ایمرجنسی اس وقت زیادہ خطرناک ہوتی ہے جب وہ خود کو ایمرجنسی کہتی ہی نہیں۔ جب انتخابات ہوتے ہیں تو پارلیامنٹ کام کرتی ہے، نعرے لگائے جاتے ہیں اور یہ وہم پیدا کیا جاتا ہے کہ جمہوریت زندہ ہے۔ لیکن اس ‘زندہ ہونے’ کی حقیقت یہ ہے کہ جن اقدار پر ہمیں بحیثیت قوم فخر تھا وہ ایک ایک کر کے تباہ کی جارہی ہیں۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جو اپنے جمہوری تنوع، تکثیریت اور آئینی اقدار سے پہچانا جاتا ہے۔ لیکن گزشتہ دہائی میں حکومت جمہوریت کی روح کو تباہ کر رہی ہے جس پر آزاد ہندوستان کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ کیا یہ بالکل واضح نہیں ہے کہ حکومت کی پالیسیاں اور اعلیٰ لیڈروں کی تقریریں اکثر اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف پولرائزیشن پیدا کرتی ہیں۔ پسماندہ گروہوں، خاص طور پر دلت اور پسماندہ طبقات کو دوئم درجے کا سمجھاجاتا ہے۔ سی اے اے-این آر سی، لو جہاد قانون، مساجد پر تنازعات اور بلڈوزر کی سیاست – یہ سب ایک خاص نظریہ کو فروغ دیتے ہیں، جو آئین کی مساوات اور سیکولر فطرت کے خلاف ہے۔
سال 1975کی ایمرجنسی تاریخ کے ایک سیاہ باب کے طور پر درج ہے۔ لیکن آج کی غیر اعلانیہ ایمرجنسی اس سے بھی زیادہ سنگین ہے کیونکہ یہ جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر جمہوریت کا گلا گھونٹ رہی ہے۔ انتخابات اب صرف ووٹ ڈالنے کے عمل تک محدود ہیں اور یہ عمل بھی کئی سطحوں پر داغدار ہے۔ یہ اس کا سب سے بڑا المیہ ہے۔
آج، جب ہم اعلانیہ ایمرجنسی کے 50 سال مکمل ہونے پر اس دور کو یادکر رہے ہیں، تو ہمیں آزاد ہندوستان کی پیدائش سے پہلے کے اس عزم کا اعادہ کرنا چاہیے کہ ہم جمہوریت اور آزادی کی حفاظت کریں گے – خواہ اس کے لیے کوئی بھی قیمت کیوں نہ ادا کرنی پڑے۔ یہ عزم محض ایک جذبہ نہیں بلکہ ایک پرعزم معاشرے کا مشترکہ عہد ہے۔
سچ کہوں تو یہ ایک تنبیہ کے ساتھ ساتھ اپیل بھی ہے کیونکہ جمہوریت ہمیں اسٹیبلشمنٹ کا تحفہ نہیں بلکہ ایک ایسا حق ہے جو جدوجہد، قربانیوں اور بے مثال حوصلے سے حاصل کیا گیا ہے اور جس کے لیے شہریوں کو لگاتار اور مسلسل بیدار رہنے کی ضرورت ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی آمریت نے اپنی جڑیں جمانے کی کوشش کی ہے تو کبھی ترقی کی آڑ میں، کبھی قوم پرستی کی آڑ میں اور کبھی مذہب کی آڑ میں۔ لیکن ہم یہ بخوبی جانتے ہیں – جہاں سوال پوچھنا جرم بن جائے، جہاں اختلاف رائے کو گناہ سمجھا جائے، اور جہاں سچ بولنے پر جیل رسید کیا جائے – وہاں جمہوریت خطرے میں ہے۔
ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ آزادی نازک ہوتی ہے۔ اور ظلم کے سامنے خاموشی بذات خود ظلم ہے۔ ہم زبان، ذات پات، نظریے میں مختلف ہو سکتے ہیں، لیکن جو چیز ہمیں متحد کرتی ہے وہ ہمارا آئین، ہماری جمہوریہ اور آزادی سے ہماری محبت ہے۔
پچیس جون 1975کے جمہوریت کےاس سیاہ باب کو یاد کرتے ہوئے ہمیں موجودہ جمہوریت پر چھائے ہوئے سیاہ بادلوں سے جوجھنا ہو گا اور عہد کرنا ہو گا کہ ہر ظلم کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہونے والوں میں ہمارا نام لکھا جائے۔
منوج کمار جھاراشٹریہ جنتا دل کے راجیہ سبھا ممبر ہیں۔