خاص خبر

بہار ایس آئی آر: الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں کہا – کمیشن کو شہریت کی جانچ کا اختیار حاصل ہے

الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ اس کے پاس شہریت کا ثبوت مانگنے کا اختیارہے۔ اس کے ساتھ ہی کمیشن نے بہار اسمبلی انتخابات سے قبل اپنے متنازعہ اسپیشل انٹینسو ریویژن (ایس آئی آر)کے عمل میں آدھار، ووٹر شناختی کارڈ اور راشن کارڈ کو قانونی دستاویز کے طور پر تسلیم کرنے کی عدالت کی تجویز کو بھی مسترد کر دیا ہے۔

بہار میں الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری ووٹر لسٹ رویژن کی سپریم کورٹ میں سماعت ہو رہی ہے۔

نئی دہلی: الیکشن کمیشن آف انڈیا نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ اس کے پاس شہریت کا ثبوت مانگنے کا اختیارہے۔ اس کے ساتھ ہی کمیشن نے بہار اسمبلی انتخابات سے قبل اپنی متنازعہ ‘اسپیشل انٹینسیو ریویژن’ (ایس آئی آر) مہم میں آدھار، ووٹر شناختی کارڈ اور راشن کارڈ کو درست دستاویز کے طور پر تسلیم کرنے کی عدالت کی تجویز کو بھی مسترد کر دیا ہے۔

اس سلسلے میں الیکشن کمیشن نے ووٹر لسٹ میں ترمیم کو چیلنج کرنے والی متعدد درخواستوں پر 10 جولائی کو شنوائی کے دوران سپریم کورٹ  کی جانب سے طلب کیا گیا حلف نامہ داخل کر دیا ہے ۔

معلوم ہو کہ پچھلی سماعت کے دوران جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس جوائےمالیہ باگچی کی بنچ نے کہا تھا کہ شہریت ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا فیصلہ الیکشن کمیشن آف انڈیا نے نہیں بلکہ وزارت داخلہ کو کرنا ہے۔

تاہم، الیکشن کمیشن عدالت کے اس فیصلے سے متفق نظر نہیں آتا ۔

کمیشن کو شہریت کا جائزہ لینے کا حق حاصل ہے

اب اپنے حلف نامے میں کمیشن نے دعویٰ کیا ہے کہ الیکشن کمیشن کو یہ جانچ کرنے کا اختیار حاصل ہے کہ کوئی شخص ووٹر لسٹ میں اندراج کے معیار پر پورا اترتا ہے یا نہیں، جس میں دیگر چیزوں کے علاوہ ووٹر لسٹ کے آرٹیکل 326 کے مطابق شہریت کا تعین بھی شامل ہے۔ اس طرح کی انکوائری آئینی طور پر لازمی ہے اور عوامی نمائندگی ایکٹ 1950 کے تحت واضح طور پر تسلیم شدہ ہے۔ یہ اختیار براہ راست آرٹیکل 324 (326 کے ساتھ) اور عوامی نمائندگی ایکٹ 1950 کی دفعہ 16 اور 19 کی دفعات سے حاصل ہے۔

اس جوابی حلف نامے پرڈپٹی الیکشن کمشنر سنجے کمار کے دستخط ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ کمیشن نے اب تک چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار کو اس عمل کے چہرے کے طور پر پیش کیا تھا۔ ہر دن کے اختتام پر پریس ریلیز کے ساتھ صرف ان کی   تصویر شائع کی جاتی ہے۔

اپنے حلف نامے میں الیکشن کمیشن نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ ووٹر کی اہلیت کی تصدیق کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔

کمیشن کے مطابق، ‘آئین ہند اور قانونی دفعات کے تحت الیکشن کمیشن ووٹروں کی اہلیت کی تصدیق کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے کا پابند ہے کہ کوئی بھی فرد جو اہلیت کے لازمی تقاضوں کو پورا کرنے میں ناکام رہتا ہے اسے ووٹر لسٹ میں شامل نہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ، کوئی بھی شخص جو اہلیت کے تمام تقاضوں کو پورا کرتا ہے وہ  ووٹر لسٹ سے خارج نہ ہو۔’

الیکشن کمیشن نے اس حقیقت کی بھی تردید کی ہے کہ شہریت کے معاملےسے نمٹنے کا حق صرف مرکزی حکومت کو ہے۔

کمیشن کا کہنا ہے کہ شہریت ایکٹ 1955 کی دفعہ 9 صرف غیر ملکی ریاست کی شہریت کے رضاکارانہ حصول کے معاملات میں ہی شہریت ختم کرنے کی بات کرتی  ہے اور مرکزی حکومت کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار دیتی ہے کہ ہندوستان کے شہری نے کب اور کیسے کسی دوسرے ملک کی شہریت حاصل کی ہے۔ صرف اس محدود مقصد کے لیے مرکزی حکومت کو دیگر تمام اتھارٹیز کو چھوڑ کر خصوصی دائرہ اختیار دیا گیا ہے۔

حلف نامے میں مزید کہا گیا، ‘شہریت سے متعلق دیگر پہلوؤں کی جانچ دیگر متعلقہ حکام اپنے مقاصد کے لیے کر سکتے ہیں، جن میں آئینی طور پر ایسا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، یعنی الیکشن کمیشن۔’

کمیشن نے یہ کہہ کر عدالت کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ ایس آئی آر کے عمل کے تحت کسی شخص کی شہریت اس بنیاد پر ختم نہیں کی جائے گی کہ اسے ووٹر لسٹ میں اندراج کے لیے نااہل قرار دیا گیا ہے۔

دستاویزوں کی یہ فہرست ‘علامتی ہے، مکمل نہیں’: الیکشن کمیشن

قابل ذکر ہے کہ الیکشن کمیشن نے 11 دستاویزوں کی ایک فہرست جاری کی ہے جو ووٹر اس عمل کے لیے جمع کر سکتا ہے، جس میں آدھار شامل نہیں ہے، جسے کمیشن نے برسوں پہلے ووٹر شناختی کارڈ سے منسلک کرنے کی اپیل کی تھی۔ یہ بات بھی حیران کن ہے کہ کمیشن نے خود اپنے ووٹر شناختی کارڈ کو درست دستاویز نہیں مانا ہے۔

الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ دستاویزوں کی یہ فہرست ‘علامتی ہے، مکمل نہیں’، اس لیے افسران ووٹرز کے ذریعے جمع کرائے گئے تمام دستاویزوں پر غور کر سکتے ہیں۔

کمیشن نے واضح کیا ہے کہ وہ مختلف وجوہات کی بنا پر آدھار، ووٹر شناختی کارڈ یا راشن کارڈ پر غور نہیں کر سکتا – جیسا کہ سپریم کورٹ نے تجویز کیا ہے۔

کمیشن کا کہنا ہے، ‘گنتی فارم میں دیے گئے 11 دستاویزوں کی فہرست میں آدھار شامل نہیں ہے، کیونکہ یہ آرٹیکل 326 کے تحت اہلیت کی جانچ کرنے میں مدد نہیں کرتا ہے۔ تاہم، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آدھار کو اہلیت ثابت کرنے کے لیے دیگر دستاویزوں کے ضمیمہ کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے۔’

تاہم، کئی مقامات سے ایسی اطلاعات ہیں کہ اہلکار آدھار کارڈ جمع کر رہے ہیں۔

کمیشن نے اپنے نوٹ میں ‘فرضی راشن کارڈ’ کی وسیع پیمانے پر موجودگی کا بھی ذکر کیا ہے، جو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ راشن کارڈ کو آدھارسے جوڑنے میں حکومت کی ناکامی کو ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہو۔

الیکشن کمیشن نے حلف نامے میں ووٹر شناختی کارڈ کو ایک درست دستاویز کے طور پر قبول کرنے سے بھی انکار کیا ہے، یہ کہتے ہوئے کہ ووٹر فوٹو شناختی کارڈ اپنی نوعیت کے اعتبار سے صرف ووٹر لسٹ کی موجودہ حیثیت کی عکاسی کرتا ہے اور خود ووٹر لسٹ میں شامل کرنے کے لیے پہلے سے طے شدہ اہلیت قائم نہیں کرسکتا۔