نائب صدر اور راجیہ سبھا کے چیئرمین جگدیپ دھنکھڑ نے ‘صحت کی وجوہات’ کا حوالہ دیتے ہوئے 21 جولائی کو فوری اثر سے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ 74 سالہ دھنکھڑ کی میعاد 2027 تک تھی۔ دریں اثنا، کانگریس نے کہا ہے کہ اس قدم کے پیچھے گہری وجوہات ہیں۔

پارلیامنٹ کے مانسون اجلاس کے پہلے دن راجیہ سبھا کے چیئرمین جگدیپ دھنکھڑ۔ (تصویر: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: کانگریس نے منگل (22 جولائی، 2025) کو دعویٰ کیا کہ جگدیپ دھنکھڑکے نائب صدر کے عہدے سے استعفیٰ کے پیچھے ان کی طرف سے بتائے گئے صحت کی وجوہات سے کہیں زیادہ بعض دوسری اور’گہری وجوہات’ ہیں۔کانگریس نے کہا کہ ان کا استعفیٰ ان کے لیے تواچھا ہے، لیکن ان لوگوں کے لیے برا ہے جنہوں نے انہیں اس عہدے کے لیے منتخب کیا۔
معلوم ہو کہ نائب صدر اور راجیہ سبھا کے چیئرمین جگدیپ دھنکھڑ نے ‘صحت کی وجوہات’ کا حوالہ دیتے ہوئے سوموار (21 جولائی) کو فوری اثر سے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ۔
ہندوستان میں دوسرے اعلیٰ ترین آئینی عہدے پر فائز شخص کے استعفیٰ کے حوالے سے قیاس آرائیاں جاری ہیں۔
دریں اثنا، کانگریس کے جنرل سکریٹری اور مواصلات کے انچارج جئےرام رمیش نے کہا کہ اس اقدام کے پیچھے ‘گہری وجوہات’ ہیں، جبکہ لوک سبھا میں پارٹی کے ڈپٹی لیڈر گورو گگوئی نے مرکز سے یہ واضح کرنے کو کہا کہ کیاانہیں استعفیٰ کے بارے میں پہلے سے علم تھا ۔
گگوئی نے نائب صدر کے عہدے کے لیے تبدیلی کے منصوبے کے بارے میں بھی حکومت سے وضاحت طلب کی۔ انہوں نے ایکس پر لکھا، ‘معزز نائب صدر کا استعفیٰ اچانک اور چونکا دینے والا ہے۔ میں عزت مآب دھنکھڑ جی کی اچھی صحت کے لیے دعا کرتا ہوں۔’
انہوں نے مزید کہا، ‘لیکن یہ مرکزی حکومت کو واضح کرنا ہوگاکہ کیا ان کے پاس پہلے سے معلومات تھیں اور کیا انھوں نے ایک ہموار منتقلی کا منصوبہ بنایا تھا۔ کل عزت مآب نائب صدر کی صدارت میں ہونے والی میٹنگ میں سینئر وزراء کی غیر حاضری اب اور بھی معنی خیزہو گئی ہے۔’
دریں اثنا، رمیش نے کہا کہ دھنکھڑکا استعفیٰ ان کے لیے اچھا ہے، لیکن ان لوگوں کے لیے برا ہے جنہوں نے انھیں اس عہدے کے لیے منتخب کیا تھا۔
انہوں نے سوموار کو راجیہ سبھا بزنس ایڈوائزری کمیٹی (بی اے سی) کی دوسری میٹنگ میں مرکزی وزراء جے پی نڈا اور کرن رجیجو کی غیر حاضری پر بھی سوال اٹھایا اور کہا کہ دوپہر 1 بجے سے 4.30 بجے کے درمیان کچھ بہت سنگین ہوا، جو ان کی جان بوجھ کر غیر حاضری کی وجہ بتاتا ہے۔
رمیش نے کہا کہ دھنکھڑنے سوموار کو 12.30 بجے راجیہ سبھا بی اے سی کی صدارت کی۔انہوں نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا،’اس میں ایوان کے لیڈرجے پی نڈا اور پارلیامانی امور کے وزیر کرن رجیجو سمیت زیادہ تر اراکین نے شرکت کی۔ کچھ تبادلہ خیال کے بعد بی اے سی نے شام 4.30 بجے دوبارہ میٹنگ کا فیصلہ کیا ۔’
رمیش نے کہا کہ دھنکھڑ کی صدارت میں شام 4.30 بجے دوبارہ بی اے سی کی میٹنگ ہوئی۔ رمیش نے دعویٰ کیا، ‘اس میں نڈا اور رجیجو کا انتظار کیا گیا۔ وہ نہیں آئے۔ جگدیپ دھنکھڑ کو ذاتی طور پر یہ اطلاع نہیں دی گئی تھی کہ دونوں سینئر وزیر میٹنگ میں شریک نہیں ہو رہے ہیں۔ فطری طور پر انہیں اس بات کا برا لگا اور بی اے سی کی اگلی میٹنگ آج دوپہر ایک بجے تک ملتوی کر دی۔
انہوں نے کہا، ‘یہ واضح ہے کہ کل دوپہر 1 بجے سے 4:30 بجے کے درمیان کچھ سنگین ضرور ہوا ہوگا، جس کی وجہ سے جے پی نڈا اور کرن رجیجو نے جان بوجھ کر شام کی میٹنگ میں شرکت نہیں کی۔ اب ایک انتہائی چونکا دینے والا قدم اٹھاتے ہوئے جگدیپ دھنکھڑ نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ انہوں نے اس کی وجہ اپنی صحت بتائی ہے۔ ہمیں اس کا احترام کرنا چاہیے۔ لیکن سچ یہ بھی ہے کہ اس کے پیچھے کچھ گہری وجوہات بھی ہیں۔’
رمیش نے کہا، ‘دھنکھڑ جی نے ہمیشہ 2014 کے بعد کی ہندوستان کی تعریف کی، لیکن ساتھ ہی انہوں نے کسانوں کے مفادات کے لیے کھل کر آواز اٹھائی۔ انہوں نے عوامی زندگی میں بڑھتے ہوئے ‘گھمنڈ’ پر تنقید کی اور عدلیہ کے احتساب اور صبروتحمل کی ضرورت پر زور دیا۔ موجودہ ‘جی ٹو’ حکومت کے دوران بھی انہوں نے جہاں تک ممکن ہو سکااپوزیشن کو جگہ دینے کی کوشش کی۔ وہ اصولوں کے پکے تھے۔’
انھوں نے مزید کہا، ‘لیکن انھیں لگتا تھا کہ ان کے کردار میں ان چیزوں کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ جگدیپ دھنکھڑ کا استعفیٰ ان کے بارے میں بہت کچھ کہتا ہے۔ نیز، یہ ان لوگوں کے ارادوں پر سنگین سوالات اٹھاتا ہے جنہوں نے انہیں نائب صدر کے عہدے پر فائز کیا تھا۔’
استعفیٰ کا کوئی اشارہ نہیں
دھنکھڑ نے طبی وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے سوموار کی شام اچانک اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ انہوں نے اپنا استعفیٰ صدر دروپدی مرمو کو بھیجا اور کہا کہ وہ فوری اثر سے عہدہ چھوڑ رہے ہیں۔
بتادیں کہ 74 سالہ دھنکھڑ نے اگست 2022 میں عہدہ سنبھالا تھا اور ان کی میعاد 2027 تک ہے۔ وہ راجیہ سبھا کے چیئرمین بھی تھے اور پارلیامنٹ کے مانسون اجلاس کے پہلے دن انہوں استعفیٰ دے دیا ۔
دن کی کارروائی ختم ہونے سے پہلے دھنکھڑ نے اراکین کو ایک تحریک کے نوٹس کے بارے میں مطلع کیا جس میں جسٹس یشونت ورما کو ہٹانے کے لیے ایک قانونی کمیٹی کی تشکیل کا مطالبہ کیا گیا تھا، یہ ہائی کورٹ کے وہی جج ہیں جن کے گھر سے جلے ہوئے نوٹ ملے تھے۔ ورما نے سپریم کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی ہے جس میں داخلی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کو چیلنج کیا گیا ہے جس نے اس معاملے میں انہیں قصور ورار ٹھہرایا ہے۔
دھنکھڑ نے تمام سیاسی جماعتوں سے سیشن میں خوش اخلاقی سے پیش آنے کی اپیل کی۔
انہوں نے کہا، ‘ایک پھلتی پھولتی جمہوریت مسلسل تلخی کو برداشت نہیں کر سکتی۔ سیاسی تناؤ کو کم کرنا ہوگا، کیونکہ محاذ آرائی سیاست کا نچوڑ نہیں ہے۔ سیاسی جماعتیں ایک ہی مقاصد کو مختلف طریقوں سے حاصل کرنے کی کوشش کر سکتی ہیں، لیکن ہندوستان میں کوئی بھی ملک کے مفادات کی مخالفت نہیں کرتا۔’
دھنکھڑ نے کہا، ‘میں تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ہم آہنگی اور باہمی احترام کو فروغ دیں، ٹیلی ویژن یا کہیں اور لیڈروں کے خلاف بدسلوکی یا ذاتی حملوں سے گریز کریں۔ ایسا سلوک ہماری تہذیب کے بنیادی جوہر کے خلاف ہے۔’
ایک متنازعہ دور
دھنکھڑ نے اگست 2022 میں اپوزیشن کی امیدوار راجستھان کی سابق گورنر مارگریٹ الوا کو شکست دینے کے بعد 14ویں نائب صدر کا عہدہ سنبھالا۔ نائب صدر اور راجیہ سبھا کے چیئرمین کے طور پر ان کا دور اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ تصادم سے بھرا رہا۔
دسمبر 2024 میں، ‘انڈیا’ اتحاد نے دھنکھڑ کو ان کے متعصبانہ رویے اور ایوان میں اپوزیشن کی آواز نہ سننے دینے کے ان کے فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں عہدے سے ہٹانے کے لیے ایک نوٹس دیا تھا ۔ بعد میں، راجیہ سبھا کے ڈپٹی چیئرمین ہری ونش نے ‘ طریقہ کار کی بے ضابطگی ‘ اور ‘موجودہ نائب صدر کو بدنام کرنے’ کی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے عدم اعتماد کی تحریک کو مسترد کر دیا ۔
اگست میں بھی اپوزیشن نے دھنکھڑ کو ہٹانے کے لیے اسی طرح کی تحریک لانے کا منصوبہ بنایا تھا، لیکن کوئی نوٹس نہیں دیا گیا۔
حالیہ مہینوں میں دھنکھڑ نے عدلیہ کے خلاف سخت حملہ کیا تھا۔ اپریل میں دھنکھڑ نے کہا تھا کہ جج ‘سپر پارلیامنٹ’ کے طور پر کام کر رہے ہیں اور ان کی کوئی جوابدہی نہیں ہے ‘کیونکہ ملک کا قانون ان پر لاگو نہیں ہوتا۔’ دھنکھڑ نے آئین کے آرٹیکل 142 کو – جو سپریم کورٹ کو اختیارات دیتا ہے – ‘ جمہوری طاقتوں کے خلاف جوہری میزائل ‘ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ ایسی صورت حال نہیں ہو سکتی جب عدلیہ ہندوستان کے صدر کو ہدایات دے۔
پارلیامنٹ کے بجٹ اجلاس کے دوران جسٹس ورما کی سرکاری رہائش گاہ سے نقدی ملنے کے بعد انہوں نے عدلیہ کے خلاف بھی تنقیدی تبصرے کیے تھے ۔
نائب صدر بننے سے پہلے مغربی بنگال کے گورنر کے طور پر دھنکھڑممتا بنرجی کی قیادت والی ترنمول کانگریس حکومت کے ساتھ اپنے طویل تصادم کے لیے بدنام چکےتھے ۔
گورنر کے طور پر دھنکھڑ نے ریاستی حکومت اور ترنمول کانگریس کو بدعنوانی، سیاسی تشدد اور انتظامیہ اور تعلیمی اداروں کی سیاست کرنے سے لے کر مبینہ غیر جمہوری رویہ تک کئی مسائل پر بار بار نشانہ بنایا تھا۔ جواب میں ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) نے بار بار دھنکھڑ کو ‘اصلی اپوزیشن کا لیڈر’ بتایا۔
اس سے قبل، وہ 1990 سے 1991 تک چندر شیکھر حکومت کے دوران پارلیامانی امور کے مرکزی وزیر مملکت کے طور پر، 1989 سے 1991 تک لوک سبھا کے رکن کے طور پر، 1993 سے 1998 تک راجستھان قانون ساز اسمبلی کے رکن کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ پیشے سے وکیل، دھنکھڑبھارتیہ جنتا پارٹی، کانگریس اور جنتا دل سمیت تمام سیاسی جماعتوں سے وابستہ رہے ہیں۔