خبریں

قبائلی شعور کو سیاسی زبان دینے والا رہنما چلا گیا

شیبو سورین کی کہانی کسی افسانوی ہیرو کا قصہ نہیں۔یہ اس ہندوستان کے درد و کرب کا نغمہ ہے، جسے مرکزی دھارے کی سیاست اور میڈیا نے اکثر نظر انداز کیا۔ ایک ایسا ہندوستان جو جنگل میں سانس لیتا ہے، جو زمین سے وابستہ ہے اور بار بار یہ سوال اٹھاتا ہے کہ ’وکاس‘ کس کا ہوتا ہے۔

جنگل سے نکل کر آیا ایک آدی واسی لیڈرآج چلا گیا۔ نام تھا شیبو سورین ۔

شیبو سورین کے اس سیاسی اور سماجی سفر کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے، جو ہندوستانی سماج کی پیچیدہ، الجھی ہوئی اور انتہائی کھردری جمہوریت سے گزرتا ہے۔

دراصل، یہ محض’ہندوستان’ کے اندر آباد جھارکھنڈ کی کہانی نہیں ہے۔ یہ کچی زمین، پکے ارادےاور اپنی پہچان کی جدوجہد کی عجیب و غریب گاتھا ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ آپ الگ ہو کر توکچھ کر سکتے ہیں؛ لیکن ساتھ رہ کر نہیں۔ اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اعلیٰ ذات کا غلبہ حاشیائی سماج کو اقتدار میں شریک ہونے  ہی نہیں دیتا۔

چنانچہ اعلیٰ ذات کےغلبے اور دیگر پسماندہ ذاتوں کے طاقتور گروہوں کے درمیان آدی واسی  اور محروم طبقہ سے آنے والے شیبو سورین جنم لیتے ہیں اور مختلف ہونے اور اپنی طاقت کا لوہا منوالینے کے باوجود سماج میں اقتدار کے چشمے کا گدلا پانی ہی ان کے حصے میں آتاہے۔

شیبو سورین کی کہانی کسی افسانوی ہیرو کا قصہ نہیں ہے۔ یہ اس ہندوستان کے دردو کرب کی شاعری ہے جسے مرکزی دھارے کی سیاست اور میڈیا  نےاکثر نظر انداز کیا۔ ایک ایسا ہندوستان جو جنگلوں میں سانس لیتا ہے، جو زمین سے وابستہ ہے اور جو بار بار یہ سوال اٹھاتا ہے کہ ‘وکاس’ کس کا ہوتا ہے۔ سوالوں کا یہ سلسلہ اتنا دراز ہے کہ جمہوریت کے چشمے سے ٹپکتی یہ آواز قبائلی عوام کے لیے نئی امیدوں کا گیت بن کر جنگل-جنگل  پھیل جاتی ہے۔ لیکن پھر بھی نئے خوف ان کے سروں پر منڈلا تے رہتے ہیں۔

سال 1944میں بہار کے رام گڑھ ضلع کے نیمرا گاؤں میں پیدا ہوئے شیبو سورین کا تعلق اس قبائلی برادری سے تھا، جسے ہمیشہ ‘حاشیے کا شہری’ کہا گیا۔ ان کے والد کو ایک ساہوکار نے قتل کروا  دیا تھا۔ یہ محض ایک ذاتی المیہ نہیں تھا، بلکہ اس نظام کا سفاک چہرہ تھا، جس میں قبائلی محض ہندسہ  ہوتے تھے، شہری نہیں۔ اور یہیں سے ان کی جدوجہد کا آغاز ہوا ۔ صرف اپنے لیے نہیں بلکہ پورے قبائلی معاشرے کی شناخت کے لیے۔

اٹھارہ سال کی عمر میں انہوں نے سنتھال نو یووک سنگھ کی بنیاد رکھی اور بعد میں جھارکھنڈ مکتی مورچہ کی قیادت سنبھالی۔ ان کی سیاست کا آغازان  کھیتوں اور جنگلوں سے ہوا جہاں  قبائلی اپنی  ہی زمین سے بے دخل کیےجا رہے تھے۔ جیسے آج راجستھان کے صحرائی علاقوں میں، جہاں سورج کی وہی تپش عوام کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بن گئی ہے، جس کے سہارے انہوں نے صدیوں سے اپنی ایک الگ ثقافت پیدا کی ہے۔

لیکن شیبو سورین راجستھانیوں کی طرح سرد، بردبار اور اسٹیٹس کوسٹ نہیں تھے۔ انہیں اپنی مٹی، اپنے جنگلوں اور اپنی ثقافت سے بے پناہ محبت تھی۔ انہوں نے اس ناانصافی کے خلاف نہ صرف تقریریں کیں بلکہ زمینی سطح پر جدوجہد بھی کی۔ کبھی کبھی توقانون کی حدوں کوعبور کرتے ہوئے بھی۔

یہ وہ وقت تھا، جب وہ مقامی انصاف کے طور پر ‘جن عدالتوں’ کا انعقاد کیا کرتے تھے، جو مرکزی دھارے کے لیے تکلیف دہ اور ‘غیر قانونی’ ہوتا تھا، لیکن قبائلیوں کے لیے یہی آخری سہارا تھا۔ ان کی پہچان صرف ایک لیڈر کی نہیں تھی؛ وہ بذات خودایک چیلنج تھے۔ ایسا چیلنج،جواقتدار اور سسٹم کی ان تہوں کو مضطرب کر دیتا تھا، جن میں اعلیٰ ذات کا غلبہ، سرمایہ دارانہ بھوک اور نام نہاد وکاس کی لکیریں قبائلیوں کو نظر انداز کرتی آئی تھیں۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب وہ قومی دھارے میں داخل ہوئے تو اس نوجوان کو اس کے پہلے الیکشن میں پوری قوت سے ہرایا گیا۔

اگرچہ بعد میں وہ رکن پارلیامنٹ بنے،کوئلہ کے وزیر بنےاور وزیر اعلیٰ بنے؛ اور اقتدار کے گلیاروں نے کسی طرح انہیں قبول توکیا؛ لیکن کبھی پوری طرح سے اپنایا نہیں۔ ان پر بار بار مقدمہ چلایا گیا، گرفتار کیا گیا اور قتل کا الزام لگایا گیا۔ 2006 میں انہیں ان کے پرسنل سکریٹری ششی ناتھ جھا کے قتل کے معاملے میں عمر قید کی سزا سنائی گئی ۔ بعد میں دہلی ہائی کورٹ نے انہیں بری کر دیا۔

ان کی امیج دو قطبوں میں بٹی رہی۔ ایک طرف، وہ قبائلیوں کے لیے ‘گروجی’ تھے، جنہوں نے انھیں شناخت دی، اور دوسری طرف، وہ اقتدار کے لیے ‘ناپسندیدہ سوال’ بن کر ابھرے۔ ان کی زندگی میں فتوحات سے زیادہ الزامات تھے، خوابوں سے زیادہ جدوجہد۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے جو سب سے بڑا کام کیا وہ قبائلی شعور کو سیاسی زبان دینا ہے۔

ان کا انتقال 4 اگست 2025 کو ہوا، لیکن وہ ایک لیڈر کے طور پر نہیں بلکہ ایک تحریک کے طور پر تاریخ میں درج کیے جائیں گے۔ انہوں نے اپنے پیچھے نہ صرف ایک سیاسی وراثت چھوڑی ہے بلکہ ایک ایسی شناخت چھوڑی ہے جو اب جھارکھنڈ کی ہر وادی میں گونج رہی ہے کہ ایک قبائلی صرف برداشت کرنے کے لیے نہیں  بلکہ حکومت کرنے کے لیے بھی جنم لے سکتا ہے۔

سچ کہا جائے تو شیبو سورین ایک ایسا چہرہ تھے، جسے وقت مٹا نہیں پایا۔ پہاڑوں اور جنگلوں کے بطن سے پیدا ہونے والے لوگ اکثر تاریخ میں صرف ایک لفظ بن پاتے ہیں – ‘آدی واسی’۔ لیکن کچھ لوگ ہوتے  ہیں جو اس ایک لفظ کے اندر ایک مہاکایہ تخلیق کر جاتے ہیں۔ شیبو سورین ان چند لوگوں میں شامل تھے۔ وہ کسی ریلی کے بلاوے سے نہیں، زمین کی دھڑکنوں سے اٹھے تھے۔ ان کی زندگی کوئی سیاسی بایوڈیٹا نہیں، بلکہ وہ صدیوں سے برداشت کی جانے والی ناانصافی کا ایک مزاحمتی نغمہ تھے، جسے انہوں نے سڑک سے سنسد تک اپنی آدی واسی  زبان، چال اور خوشبو میں گایا۔

شیبو کی زندگی خاموشیوں سے شروع ہوئی۔ ان کے گاؤں میں نہ ریڈیو آتاتھا، نہ پارٹی کا کوئی کارکن۔ وہاں صرف زمین تھی۔ جنگل تھے۔ آبشاریں تھیں۔ زمین کے رحم میں بیش قیمتی دھاتیں تھیں۔ کبھی قبضہ کی ہوئی، کبھی بچانے کی جدوجہد میں بندھی۔ ان کے لیے سیاست نہ تو کیریئر تھی اور نہ ہی کوئی موقع۔ وہ توزندگی کے خلاف جاری استحصال کی زنجیر کو توڑنے کا اوزار تھی۔ اور یہی چیز انہیں دوسروں سے مختلف بناتی ہے۔ انہوں نے اسٹیج سے کم تقریر کی، لیکن جنگلوں اور کھیتوں سے زیادہ مکالمہ کیا۔ لالو یادو کی طرح انہوں نے بھی جو پسند کیا وہ کیا اور بغیر کسی لاگ لپیٹ کے اور کسی اخلاقی دعوے کے بغیر کیا۔

ان کی قیادت شور سے نہیں بلکہ سماعت سے پیدا ہوئی۔ وہ ہر اس مقام پر پہنچے جہاں نقشے پر جھارکھنڈ لکھا ہوتاتھا، لیکن اس پرحق نہیں ہوتا تھا۔ انہوں نے قبائلی شناخت کو قانونی شکل دینے کی جرات کی۔ اسے ریلیوں کی بھیڑ نہیں، پارلیامنٹ کی زبان دلائی۔ ان کے لیے سیاست کوئی بساط نہیں تھی، جس پر مہرے چلائے جائیں؛ یہ وہ جنگ تھی جہاں ہر پیادہ، ہر جوان، ہر بوڑھا، ہر عورت بذات خود حاکم تھا اور جس کے ہاتھ میں جمہوریت کی باگ ڈور تھی۔

وہ اقتدار کے پاس ضرور پہنچے،لیکن اقتدار ان کے پاس کبھی نہیں آیا۔ یہ ایک تکلیف دہ منصب کی طرح ان کے ارد گرد رہا، جوانہیں بیٹھنے تو دیتا تھا لیکن چین نہیں لینے دیتا تھا۔ شاید اسی لیے شیبو نے کبھی منصب کو اپنی منزل نہیں سمجھا،  اسے ایک عارضی پڑاؤ سمجھا۔ ان کے طرز عمل میں یہ سچائی تھی کہ وزیر اعلیٰ بننے کے بعدبھی وہ اتنے ہی زمینی تھے، جتنے ایک قبائلی پنچایت میں بولتے ہوئے ۔

ان پر لگے الزام، جیسے قتل، بدعنوانی، سازش وغیرہ ایک شخص پر نہیں، ایک خیال آئیڈیا  پر لگے الزام تھے۔ جدوجہد اور تحریک پر لگے الزام تھے۔ یہ سوچنا آسان ہے کہ یہ ایک لیڈر کے جرائم تھے، لیکن گہرائی سے دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ پورے نظام کی بے چینی تھی، جو ایک ‘غیر اعلیٰ ذات، غیر ہندی، غیر مہذب’ شخص کے اقتدار میں رہنے کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی۔

شیبو سورین کا 2025 میں جانا ایک جسد خاکی کا خاتمہ ہے، لیکن ان کی موجودگی ایک لافانی روح کی طرح جھارکھنڈ کی مٹی میں تحلیل ہو گئی۔ سرہول کے گیتوں میں، مہوا کی خوشبو میں، پلاش کے سائے میں عورتیں کہتی ہیں، ‘گروجی اب نہیں رہے، لیکن ہم سب اب گرو کی طرح بولتے ہیں۔’

وہ لیڈر نہیں تھے، وہ ایک گھنے جنگل میں بنا  راستہ تھے، جو کسی شاہراہ کی طرح خوبصورت اور عالیشان نہیں ہوتا۔ یہ ایک قدرتی راستہ ہوتا ہے، جس پر چلتے ہوئے جھارکھنڈ نے پہلی بار مشاہدہ کیا کہ قبائلی اور حکمران دونوں ایک ساتھ ہیں۔ اور آج جھارکھنڈ کا وہ راہبر چلا گیا۔

(تریبھون سینئر صحافی ہیں۔)