بہار میں الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ ڈرافٹ ووٹر لسٹ میں غریب، مسلم اکثریتی اور روزی روٹی کے لیے دوسری ریاستوں میں جانے والے اضلاع سے بڑی تعداد میں ناموں کو حذف کیا گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ غربت، ہجرت اور ناموں کے ہٹائے جانے کے درمیان براہ راست تعلق ہے۔

بہار ایس آئی آر میں سب سے زیادہ نام ان دس اضلاع سے ہٹائے گئے ہیں۔ (فوٹو:مائی میپس)
نئی دہلی: بہار میں اسپیشل انٹینسو ریویژن (ایس آئی آر)کے تحت الیکشن کمیشن کے شائع کردہ مسودہ ووٹر لسٹ سے جن دس اضلاع میں سب سے زیادہ ناموں کو حذف کیا گیا ہے، ان میں ریاست کے غریب ترین اور سب سے زیادہ مسلم اکثریتی اضلاع شامل ہیں۔ انہی اضلاع سے لوگ بڑے پیمانے پرروزی روٹی کے لیے ہجرت کرتے ہیں۔
ان 10 اضلاع میں سے چار – پورنیہ، کشن گنج، سیتامڑھی اور سہرسہ – بہار کے غریب ترین اضلاع میں سے ہیں (کثیر جہتی غربت کے پیمانے پر)۔
پورنیہ ان دس اضلاع میں دوسرے نمبر ہے، جہاں سے سب سے زیادہ نام حذف کیے گئے ہیں۔غورطلب ہے کہ پورنیہ دس سب سے بڑے مسلم اکثریتی اضلاع ، دس غریب ترین اضلاع اور بہار میں روزی روٹی کے لیے تیزی سے نقل مکانی کرنے والے اضلاع میں شامل ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ ضلع ریاست کے ٹاپ پانچ درج فہرست قبائل (ایس ٹی) اکثریتی اضلاع میں بھی شامل ہے۔
ایک اگست کو جاری ڈرافٹ ووٹر لسٹ کے مطابق، سب سے زیادہ نام حذف کیے جانے والے ٹاپ ٹین اضلاع کی فہرست میں شامل ہیں؛
گوپال گنج(15.09فیصد)
پورنیہ(12.07فیصد)
کشن گنج(11.82فیصد)
مدھوبنی(10.44فیصد)
بھاگلپور(10.19فیصد)
سہرسہ(9.45فیصد)
سیتامڑھی(9.32فیصد)
سمستی پور(9.02فیصد)
سارن(8.71فیصد)
شیوہر(8.69فیصد)
یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بہار کے ان اضلاع سے زیادہ نام ہٹائے گئے ہیں، جو معاشی اور سماجی طور پر پسماندہ ہیں۔
سبز کالم ان اضلاع کی نمائندگی کرتے ہیں جو بہار کے دس غریب ترین اضلاع میں شامل ہیں (کثیر جہتی غربت کے پیمانے پر) اور دس سب سے بڑے مسلم اکثریتی اضلاع میں بھی آتے ہیں۔
سرخ کالم ان اضلاع کی نمائندگی کرتا ہے جو بہار کے دس سب سے بڑے مسلم اکثریتی اضلاع میں شامل ہیں، لیکن دس غریب کثیر جہتی اضلاع میں نہیں ہے۔
نیلا کالم ایسے ضلع کی نمائندگی کرتا ہے جو بہار کے دس غریب ترین اضلاع میں سے ہے (ملٹی ڈائمینشنل پاورٹی اسکیل پر)، لیکن ریاست کے دس سب سے بڑے مسلم اکثریتی اضلاع میں شامل نہیں ہے۔
ریاست کے غریب ترین اضلاع
بہار کے دس اضلاع میں جہاں سب سے زیادہ نام ووٹر لسٹ سے ہٹائے گئے ہیں، ان میں سے چار اضلاع – پورنیہ، کشن گنج، سیتامڑھی اور سہرسہ – نیتی آیوگ کے کثیر جہتی غربت انڈیکس (2023) کے مطابق ریاست کے دس غریب ترین اضلاع میں شامل ہیں۔ یہ رپورٹ این ایف ایچ ایس -5 (2019-21) کے ڈیٹا پر مبنی تھی۔
اتفاق سے، نیتی آیوگ کی ایک رپورٹ کے مطابق، بہار کی 33فیصد آبادی کثیر جہتی غربت میں گزر بسر کر رہی ہے – جو ملک کی تمام ریاستوں میں سب سے زیادہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق، ریاست میں پورنیہ دوسرے نمبر پر ہے، جہاں کی 50.70فیصد آبادی غربت سے متاثر ہے۔ سہرسہ چوتھے نمبر پر ہے، جہاں یہ 49 فیصد ہے۔ چھٹے نمبر پر کشن گنج ہے، جہاں 45.55فیصد آبادی غریب ہے، جبکہ سیتامڑھی آٹھویں نمبر پر ہے، جہاں 42.82فیصد لوگ اس زمرے میں آتے ہیں۔
این ایف ایچ ایس -5کے اعداد و شمار کے مطابق، سیتامڑھی ضلع میں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں غذائی قلت کی شرح 54.2فیصد ہے، جو کہ ملک کے دس سب سے زیادہ غذائیت کے شکار اضلاع میں پانچویں نمبر پر ہے۔
اس کے علاوہ، مدھوبنی اور سمستی پور، جو کہ ڈرافٹ ووٹر لسٹ سے سب سے زیادہ نام حذف کیے جانے والے اضلاع کی فہرست میں بھی شامل ہیں، پوشن تھنک ٹینک کی ایک اسٹڈی (این ایف ایچ ایس -5 ڈیٹا پر مبنی)کے مطابق حاملہ اور غیر حاملہ خواتین میں خون کی کمی کے معاملے میں ریاست کے سرفہرست پانچ اضلاع میں شامل ہیں۔
ریاست میں سب سے زیادہ مسلم آبادی والے چار اضلاع
کچھ اضلاع جہاں سب سے زیادہ نام ووٹر لسٹ سے ہٹائے گئے ہیں وہ بہار کے ان دس اضلاع میں شامل ہیں جہاں سب سے زیادہ مسلم آبادی ہے۔
پورنیہ، کشن گنج اور سیتامڑھی – یہ تینوں اضلاع کثیر جہتی غربت اور مسلم اکثریت کے دونوں پیمانوں پر ریاست کے ٹاپ ٹین اضلاع میں شامل ہیں۔ مدھوبنی، جو ان اضلاع میں سے ایک ہے جہاں ووٹر لسٹ سے سب سے زیادہ نام حذف کیے گئے ہیں، مسلم اکثریتی اضلاع کی فہرست میں بھی شامل ہے۔
بہار ریاستی اقلیتی کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق، ریاست کے دس سب سے زیادہ مسلم آبادی والے اضلاع ہیں؛
کشن گنج – 67فیصد
کٹیہار – 42.5فیصد
ارریہ – 41.13فیصد
پورنیہ – 36.76فیصد
دربھنگہ – 22.72فیصد
مغربی چمپارن – 21.24فیصد
سیتامڑھی – 21.20فیصد
مشرقی چمپارن – 19.16فیصد
سیوان – 18.2فیصد
مدھوبنی – 17.94فیصد
ان اعداد و شمار سے واضح ہے کہ جن اضلاع سے سب سے زیادہ نام ہٹائے گئے ہیں وہاں مسلمان زیادہ ہیں اور غربت بھی زیادہ ہے۔
ان دس اضلاع میں جہاں ڈرافٹ ووٹر لسٹ سے سب سے زیادہ نام نکالے گئے ہیں،اس پورنیہ واحد ضلع ہے جو بیک وقت تین زمروں میں شامل ہے—
یہ بہار میں سب سے زیادہ کثیر جہتی غربت والے دس اضلاع میں ہے، سب سے زیادہ مسلم آبادی والے دس اضلاع میں ہے، اور سب سے زیادہ درج فہرست قبائل کی آبادی والے پانچ اضلاع میں بھی شامل ہے۔ اس طرح پورنیہ سماجی، اقتصادی اور آبادی تینوں سطحوں پر شدید طور پرمحروم اور پسماندہ ضلع ہے ۔
آبادی جتنی غریب ، نقل مکانی اتنی زیادہ
الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ دعوے اور اعتراضات داخل کرنے کا ایک ماہ کا عمل جاری ہے اور ستمبر میں شائع ہونے والی حتمی ووٹر لسٹ سے اصل تصویر واضح ہو جائے گی۔ لیکن مسودہ ووٹر لسٹ کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ غربت، ہجرت اور ناموں کے حذف ہونے کے درمیان ایک تعلق ہے۔
لوک نیتی (سی ایس ڈی ایس) کے شریک ڈائریکٹر سنجے کمار کہتے ہیں،
غربت اور نقل مکانی کے درمیان گہرا تعلق ہے، کیونکہ اگر اضلاع غریب ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہاں کے لوگوں کو مناسب روزگار نہیں مل رہا ہے۔ اسی لیے لوگ کام کی تلاش میں باہر جاتے ہیں اور ان اضلاع میں نقل مکانی کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں،
امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ان افراد کے نام پہلے فہرست میں تھے، لیکن جب نظر ثانی کا عمل ہوا تو وہ اپنے گھر پر موجود نہیں تھے۔ ایسے میں ناموں کے حذف ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ یعنی جو لوگ عارضی طور پر باہر گئے ہیں ان کے نام زیادہ حذف کیے جا سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ سمجھنا غلط نہیں ہوگا کہ جتنی زیادہ غربت، اتنی زیادہ ہجرت اور ووٹر لسٹ سے ناموں کا حذف ہونا بھی اسی پیمانے پر۔
الیکشن کمیشن کے مطابق، 24 جون سے 25 جولائی 2024 کے درمیان ایس آئی آرکے تحت ریاست کے 7.89 کروڑ ووٹروں سے 7.24 کروڑ فارم جمع کیے گئے۔
الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق، تقریباً 65 لاکھ لوگ ڈرافٹ لسٹ سے باہر ہیں، جن میں سے 22.3 لاکھ کی موت ہو چکی ہے، 36.2 لاکھ مستقل طور پرنقل مکانی کر چکے ہیں، اور 7.01 لاکھ ایک سے زیادہ جگہوں پر رجسٹرڈ پائے گئے ہیں۔
اس عمل نے تارکین وطن مزدوروں کے ناموں کو فہرست سے نکالے جانے کے بارے میں شدید تشویش پیدا کر دی ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ گھر پر نہ رہنے کی وجہ سے فارم نہیں بھر سکے جس کی وجہ سے ان کے نام نکال دیے گئے۔
اس پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ ‘مستقل منتقلی’ کے اعلان کا عمل کتنا مضبوط اور شفاف تھا۔ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا الیکشن کمیشن نے اس بات کی تصدیق کرنے کی کوشش کی کہ جن لوگوں کے نام ہٹائے گئے ہیں وہ کسی دوسری ریاست کی ووٹر لسٹ میں درج ہیں یا نہیں۔
جولائی 2023 میں مرکزی حکومت نے پارلیامنٹ کو بتایا تھاکہ بہار میں مہاجر مزدوروں کی تعداد 7,06,557 ہے، جو 2011 کی مردم شماری پر مبنی ہے۔
بہار میں اپوزیشن لیڈروں نے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ یہ بتائے کہ کس طرح 36 لاکھ ووٹر مستقل طور پر ریاست چھوڑ کر چلے گئے ہیں، جبکہ ہوسکتا ہے کہ وہ دوسری ریاستوں میں عارضی طور پر کام کر رہے ہوں۔
مجموعی طور پر سوال اٹھتا ہے کہ آیا ووٹر لسٹ سے غریب اور مہاجر مزدوروں کے نام جان بوجھ کر ہٹائے جا رہے ہیں یا لاپرواہی سے، اور کیا انہیں انتخابی عمل سے باہر رکھا جا رہا ہے۔
سیلاب سے متاثرہ اضلاع
انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار پاپولیشن سائنسز (آئی آئی پی ایس) کے 2020 کے مطالعہ سے پتہ چلا ہے کہ شمالی بہار کے وہ علاقے جو بار بار اور مسلسل سیلاب کی زد میں رہتے ہیں — جیسے کہ سارن، دربھنگہ، کوسی، پورنیہ اور ترہت — وہاں نقل مکانی کی شرح جنوبی بہار کے اضلاع — جیسے پٹنہ، مگدھ اور بھاگلپور کے مقابلے کہیں زیادہ ہے ۔
شمالی بہار کے ان سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں نقل مکانی کی شرح 55 فیصد سے زیادہ دیکھی گئی، جبکہ جنوبی علاقوں میں یہ شرح 40 فیصد سے کم دیکھی گئی۔
ڈرافٹ ووٹر لسٹ کے اعداد و شمار کے مطابق، پورنیہ اور سارن ان دس اضلاع میں شامل ہیں جہاں سب سے زیادہ نام حذف کیے گئے ہیں – بالترتیب دوسرے اور نویں مقام پر۔
آئی پی ایس کے مطالعہ کے مطابق؛
سارن میں 62.5فیصد خاندان تارکین وطن تھے اور پورنیہ میں یہ تعداد 51.8فیصد تھی۔
سابق چیف الیکشن کمشنر او پی راوت نے بھی گزشتہ ماہ اس عمل کے وقت پر تشویش ظاہر کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ عمل سیلاب اور بارش کے موسم میں مہاجر مزدوروں اور بہار کی مستقل آبادی دونوں کو متاثر کر سکتا ہے۔
انہوں نے دی وائر کوسے کہا تھا؛
اگر اس عمل کے لیے ایک سال یا ڈیڑھ سال کا وقت دیا جاتا تو کوئی ہنگامہ نہ ہوتا۔ لیکن وقت بہت کم ہے، الیکشن قریب ہیں۔ یہ دستاویزات آسانی سے حاصل کرنا ممکن نہیں ہے، کیونکہ یہ سیلاب اور شدید بارشوں کا موسم ہے۔
اسٹینڈرڈورکز ایکشن نیٹ ورک(ایس ڈبلیو اے این)کی ایک رپورٹ کے مطابق، 19 اور 21 جولائی کے درمیان 338 تارکین وطن مزدوروں کا ایک سروے کیا گیا۔ اس میں پایا گیا کہ؛
نوےفیصدمزدوروں نے ووٹر لسٹ کی نظرثانی کے بارے میں سنا ہی نہیں تھا، 75فیصد کو الیکشن کمیشن کے آن لائن پورٹل کا علم نہیں تھا، اور 1فیصد سے بھی کم نے پورٹل کا استعمال کیا۔
بھارت جوڑو ابھیان کے قومی کنوینر یوگیندر یادو نے کرن تھاپر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا؛
یہ خیال کہ سینکڑوں اور ہزاروں کلومیٹر دور دوسری ریاستوں میں کام کرنے والے تارکین وطن مزدور گھر لوٹیں گے اور آن لائن فارم ڈاؤن لوڈ، اپلوڈ، دستخط وغیرہ کریں گے – یہ دہلی کے کسی افسر کے دفتر کا تصور ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں؛
ایسا کچھ نہیں ہو رہا۔ جن مہاجر مزدوروں کے فارم بھرے جا چکے ہیں، یہ صرف اس لیے ہے کہ ان کے خاندان کا ایک فرد جا کر بی ایل او کو کہتا ہے – ‘بھائی کا فارم بھرو’۔ اور یہ سب سراسر فرضی کارروائی ہے۔
یوگیندر یادو نے کہا؛
میں مزدوروں پر الزام نہیں لگاتا۔ وہ کیا کریں؟ کیا انہیں گھر واپس آنا چاہیے؟ یہ وہ وقت نہیں ہے جب بہار کے مزدور گھر لوٹتے ہیں۔ وہ چھٹھ تہوار کے دوران واپس آتے ہیں، جو اب سے 2-3 ماہ بعد ہے۔ ایسے میں وہ اس عمل کو کیسے مکمل کر سکتے ہیں؟ یہ مذاق سے بھی بدتر ہے۔ …دنیا بھر میں، جب بھی دستاویزات کے عمل کو مشکل بنایا جاتا ہے، توسب سے پہلے محروم طبقات باہر کر دیے جاتے ہیں۔
رپورٹ میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ کس طرح سیلاب، نقل مکانی اور دستاویزات کے عمل کی سختی نے مل کر غریب اور تارکین وطن کمیونٹی کو ووٹرز کی فہرست سے خارج کرنے کے لیے حالات پیدا کیے ہیں۔
ابھی کوئی نتیجہ اخذ کرنا قبل از وقت ہے
دلت آبادی پر مرکوز ایک سروے، جودی کنورجینٹ میڈیا کے ذریعے کیا گیا، اس میں، 71 فیصد شرکاء نے ووٹر لسٹ سے خارج ہونے کا خدشہ ظاہر کیا۔ بہار کے ایک سینئر صحافی اور دی کنورجینٹ میڈیا کے ڈائریکٹر پریم کمار نے کہا کہ اس وقت کسی بھی حتمی نتیجے پر پہنچنا قبل از وقت ہوگا۔
پریم کمار کے مطابق، 2020 کے بہار اسمبلی انتخابات میں، 11 سیٹیں ایسی تھیں جو 1000 سے کم ووٹوں سے جیتی گئی تھیں، اور تقریباً 70 سیٹیں ایسی تھیں جو 10000 سے کم ووٹوں کے فرق سے جیتی گئی تھیں— ایسے معاملوں میں ووٹر لسٹ سے ہٹائے گئے نام فیصلہ کن کردار ادا کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا؛
فی الحال دستیاب اعداد و شمار کی بنیاد پر یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اس طرح کے کسی بھی عمل میں مسلم اور دلت رائے دہندگان کے نام حذف ہونے کا امکان ہے۔ مسلم کمیونٹی اس کے بارے میں بیداری ہو سکتی ہے، لیکن دلتوں میں اتنی بیداری نہیں ہے۔ کشن گنج، پورنیہ، ارریہ جیسے اضلاع سیلاب سے متاثرہ علاقے ہیں، جہاں سے باہر کر دیے جانے کا خطرہ زیادہ ہے۔ پھر بھی، میں یہ کہوں گا کہ اسے ایک تصدیق شدہ حقیقت کے طور پر سمجھنے کے لیے مزید وقت اور ڈیٹا کی ضرورت ہے۔
ووٹر لسٹ کے مسودے سے اٹھنے والے ان سوالات کے بارے میں انتخابی تجزیہ کاروں کا یہ بھی ماننا ہے کہ ابھی یہ نتیجہ اخذ کرنا قبل از وقت ہے کہ کسی خاص گروپ کو منظم طریقے سے باہر کیا گیا ہے۔ یہ دیکھنا اہم ہو گا کہ الیکشن کمیشن رواں ماہ شکایات اور زمینی حقائق سے ڈرافٹ لسٹ کو کس طرح ہم آہنگ کرتا ہے۔
سپریم کورٹ میں اس معاملے پر دائر درخواستوں پر سماعت 12 اور 13 اگست کو ہونے والی ہے۔
( انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)