خاص خبر

مہاراشٹر حکومت کا مالیگاؤں کے فیصلے کو چیلنج کرنے کا کوئی ارادہ نہیں: آر ٹی آئی میں انکشاف

مالیگاؤں بم دھماکے میں ہندوتوا تنظیموں سے تعلق رکھنے والے ملزمان کے بری ہونے کے باوجود مہاراشٹر حکومت بامبے ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کی خواہشمند نہیں ہے ۔ جبکہ حال ہی میں 2006 کے ممبئی ٹرین دھماکے کے مسلم ملزمان کے بری کیے جانے پر حکومت  نے فوراً سے پیشترسپریم کورٹ کا رخ کیا تھا۔

مالیگاؤں دھماکے کے ملزمین کے بری ہونے پر اپنی  خوشی کا اظہار کرتے  مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس نے سوشل میڈیا پر لکھا تھا، ‘آتنکواد بھگوا نہ کبھی تھا،نہ ہے اور نہ کبھی رہےگا!’ (دیویندر فڈنویس فوٹو/فیس بک)

نئی دہلی: مالیگاؤں بم دھماکہ کیس میں 7 ملزمان کے بری ہونے کے بعد مہاراشٹر حکومت کا ابھی تک ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ یہ جانکاری مہاراشٹر حکومت کے محکمہ قانون و انصاف نے ایک آر ٹی آئی  کے جواب میں دی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فیصلے سے چند دن پہلے جب 2006 کے ممبئی ٹرین دھماکے کے ملزمان (تمام مسلمان) کو ہائی کورٹ نے بری کر دیا تھا، تو مہاراشٹر حکومت نے فوراً سے پیشتر  اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کیا تھا ۔

یہی نہیں، وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس نے پورے فیصلے کو پڑھے بنا ہی حیرت کا اظہار کیا تھا اور اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کی ہدایت دی تھی۔ فیصلہ آنے کے فوراً بعد 21 جولائی کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں  نے کہا تھا؛


یہ فیصلہ ہمارے لیے حیران کن ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نچلی عدالت نے یہ فیصلہ اے ٹی ایس کی طرف سے جمع کی گئی مکمل جانچ اور شواہد کی بنیاد پر دیا تھا۔ میں نے ابھی تک مکمل آرڈر نہیں پڑھا ہے لیکن میں نے فوری طور پر اپنے وکلاء سے بات کی ہے اور انہیں ہدایت کی ہے کہ وہ اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں۔


دوسری طرف مالیگاؤں دھماکہ کیس میں فیصلہ آنے کے اتنے دنوں بعد بھی مہاراشٹر حکومت اسے چیلنج کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اس کے برعکس حکومت کے سربراہ پرجوش ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں، گویا انہی کی  جیت ہوئی ہو۔

گزشتہ 31 جولائی، 2025 کو ممبئی کی ایک خصوصی این آئی اے (قومی تحقیقاتی ایجنسی) کی عدالت نے مالیگاؤں بم دھماکہ کیس میں تمام 7 ملزمان کو بری کر دیا تھا، جن میں بی جے پی کی سابق ایم پی پرگیہ سنگھ ٹھاکر اور لیفٹیننٹ کرنل پرساد پروہت بھی شامل ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ29 ستمبر 2008 کو مہاراشٹر کے مالیگاؤں میں ایک بم دھماکہ ہوا تھا، جس میں 6 لوگوں کی جانیں گئی تھیں  اور تقریباً 100 لوگ زخمی ہوئے تھے۔ اس وقت رمضان کا مہینہ چل رہا تھا۔

آر ٹی آئی میں کیا پوچھا گیا؟

آر ٹی آئی ایکٹوسٹ اجئے باسودیو بوس کے ذریعے دی وائر  کودستیاب کرائے گئے دستاویز کے مطابق، انہوں نے 1اگست 2025 کو ایک آر ٹی آئی درخواست دائر کی تھی جس میں مہاراشٹر حکومت سے پوچھا گیا تھا کہ کیا حکومت مالیگاؤں بم دھماکہ کیس میں 7 ملزمان کو بری کیے جانے کے خلاف بامبے ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے؟

پانچ اگست 2025 کو حکومت مہاراشٹر کے محکمہ قانون و انصاف کے پبلک انفارمیشن آفیسر لکیش آر کناڈے نے بتایا کہ محکمہ کے ریکارڈ کے مطابق، پبلک پراسیکیوٹر آفس کو ابھی تک اس کیس میں اپیل دائر کرنے کی کوئی تجویز موصول نہیں ہوئی ہے۔

خط میں لکھا ہے؛


اس برانچ میں دستیاب ریکارڈ کے مطابق، متعلقہ پبلک پراسیکیوٹر آفس سے بامبے ہائی کورٹ یا معزز سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کی کوئی تجویز اس برانچ کو آج تک موصول نہیں ہوئی ہے۔


آر ٹی آئی درخواست کا یہ جواب مہاراشٹر اور مرکزی حکومت کی منشا کا اظہار معلوم ہوتا ہے۔ 31 جولائی کا فیصلہ حکومت کی خواہش کے مطابق آیا ہے، یہ ان کی اپنی زبان سے ظاہر ہے۔ ملزمین کے بری ہونے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے مہاراشٹر کے وزیر اعلی دیویندر فڈنویس نے لکھا تھا ، ‘آتنکواد بھگوا نہ کبھی تھا،  نہ ہے اور نہ کبھی رہےگا! ہیش ٹیگ مالیگاؤں ورڈکٹ

یہ اتفاق ہے کہ اس فیصلے سے ٹھیک ایک دن پہلے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے راجیہ سبھا میں بحث کے دوران کہا تھا ، ‘میں دنیا کے سامنے فخر سے کہتا ہوں کہ ہندو کبھی آتنکوادی نہیں ہو سکتے۔’

(اوپر، بائیں سے) مالیگاؤں دھماکے کے ملزمین کو بری کیے جانے کے بعد لڈو تقسیم کرتیں اوما بھارتی اور ایودھیا میں ہنومان گڑھی کے مہنت۔ (نیچے) فیصلے پر جشن مناتے پارٹی کارکن۔ (تصویر: سوشل میڈیا اسکرین گریب/پی ٹی آئی)

قابل ذکر ہے کہ مہاراشٹر اے ٹی ایس کے ذریعے 2008 کے مالیگاؤں دھماکوں کی تحقیقات کے دوران ‘بھگوا آتنکواد’ کی اصطلاح قومی سطح پر بحث کا موضوع بن گئی تھی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اے ٹی ایس کی ابتدائی تحقیقات میں کچھ ہندوتوا تنظیموں کی طرف اشارہ کیا گیا تھا۔ جیسے جیسے تفتیش آگے بڑھی، اے ٹی ایس کو ایسے سراغ ملنا شروع ہوئے جس میں ہندوتوا تنظیموں سے وابستہ کارکنوں کے نام سامنے آئے۔ اس کے ساتھ ہی ‘بھگوا آتنکواد’ کا ایشو سیاسی اور نظریاتی بحث کا مرکز بن گیا۔

حکومت کا دوہرا  رویہ؟

مالیگاؤں دھماکہ کیس میں بی جے پی حکومت ابھی تک اپیل کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، لیکن یہ اس طرح کا پہلا معاملہ نہیں ہے۔

سال 2007 میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان چلنے والی سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین میں دھماکہ ہوا تھا، جس میں 68 افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔ اس بم دھماکہ کیس میں سوامی اسیمانند سمیت کئی لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ لیکن 2019 میں شواہد کے فقدان میں عدالت نے اسیمانند سمیت چاروں ملزمان کو بری کر دیا ۔ اور مالیگاؤں بم دھماکہ کیس کی طرح اس معاملے میں بھی مرکزی حکومت نے فیصلہ کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

حیدرآباد کی تاریخی مکہ مسجد دھماکہ کیس میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔ 18 مئی 2007 (جمعہ) کو مکہ مسجد کے احاطے میں ایک  امپرووائزڈ ایکسپلوسیو ڈیوائس (آئی ای ڈی) کا استعمال کیا گیا، جس میں 9 افراد ہلاک اور کئی درجن افراد زخمی ہوئے تھے۔ اسیمانند اور 11 دیگر کو اس معاملے میں ملزم بنایا گیا تھا۔ لیکن مالیگاؤں دھماکے اور سمجھوتہ ایکسپریس دھماکے کی طرح، اپریل 2018 میں، این آئی اے کی خصوصی عدالت نے نامزد ملزمان (دیویندر گپتا، لوکیش شرما، بھارت موہن لال ریتیشور، راجندر چودھری اور نبا کمار سرکار عرف سوامی اسیمانند) کو بری کر دیا ۔ این آئی اے نے اس فیصلے کو کسی اعلیٰ عدالت میں چیلنج نہیں کیا۔

تاہم، تمام معاملات میں بی جے پی حکومت کا رویہ ایسا نہیں ہے۔

مالیگاؤں بم دھماکہ کیس کے فیصلے سے صرف 10 دن پہلے 21 جولائی 2025 کو بامبے ہائی کورٹ نے 2006 کے ممبئی سیریل ٹرین بلاسٹ کیس میں تمام 12 ملزمین کو بری کر دیا تھا۔ 72 گھنٹوں کے اندر (23 جولائی)، مہاراشٹر حکومت نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کا رخ کیا، اور سپریم کورٹ نے بامبے ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگا دی۔

واضح ہو کہ اس کیس میں بری ہونے والے تمام ملزمان مسلمان تھے۔ دوسری طرف مالیگاؤں دھماکہ، سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ اور مکہ مسجد دھماکہ کیس کے تمام ملزمان نہ صرف ہندو تھے بلکہ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق انتہا پسند ہندو تنظیموں سے تھا۔

مالیگاؤں دھماکے کے ملزمان کو کیوں بری کیا گیا؟

مالیگاؤں دھماکہ کیس میں سادھوی پرگیہ اور کرنل پروہت کے ساتھ ہی ریٹائرڈ میجر رمیش اپادھیائے، اجئے راہرکر، سدھاکر چترویدی، سمیر کلکرنی اور سدھاکر دویدی کو بھی تمام الزامات سے بری کرتے ہوئے خصوصی جج اے کے لاہوٹی نے کہا کہ ‘استغاثہ فیصلہ ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا’۔

استغاثہ تحقیقاتی ایجنسی این آئی اے کی جانب سے پیش ہونے والے سرکاری وکیل تھے۔

جسٹس اے کے لاہوٹی نے انڈین پینل کوڈ (آئی پی سی) کی دفعہ 120-بی، 153-اے، 302، 307، 326، 324، 427؛ غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ، 1967 کی دفعہ 16 اور 18؛ اور دھماکہ خیز مواد ایکٹ، 1908 کی دفعہ 3، 4، 5 اور  6 کے تحت تمام الزامات سے ملزم کو بری کر دیا۔

بار اینڈ بنچ کے مطابق عدالت نے کہا؛

‘ریکارڈ پر دستیاب تمام شواہد کی مکمل جانچ کے بعد، یہ میری واضح رائے ہے کہ استغاثہ قابل اعتماد، ٹھوس اور قانونی طور پر درست ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا ہے۔ استغاثہ کے گواہوں کی گواہی میں سنگین تضادات اور خامیاں ہیں۔ اس طرح کے تضادات استغاثہ کی ساکھ کو کمزور کرتے ہیں اور ملزم کو شک سے بالاترقصوروار ثابت نہیں کر پاتے۔’

مالیگاؤں بلاسٹ: حکومت، این آئی اے اور تاریخیں

سال 2008 میں جب یہ دھماکہ ہوا تھا تو مرکز میں یو پی اے کی حکومت تھی اور مہاراشٹر میں کانگریس-این سی پی کی مخلوط حکومت تھی۔ ریاستی حکومت نے جانچ کی کمان انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) کو سونپ دی ۔ 20 جنوری 2009 کو 14 لوگوں کے خلاف دائر اپنی آخری چارج شیٹ میں اے ٹی ایس نے دیگر دفعات کے ساتھ ‘مکوکا’ بھی لگایا تھا۔

مکوکا(مہاراشٹرا کنٹرول آف آرگنائزڈ کرائم ایکٹ) 1999 منظم جرائم اور انڈر ورلڈ کو کنٹرول کرنے کے لیے بنایا گیا ایک سخت قانون ہے۔ اس کے تحت پولیس کو خصوصی اختیارات ملتے ہیں جیسے ملزم کو بغیر  الزام  طے کیے 180 دن تک حراست میں رکھنا اور ملزم کو ضمانت نہ دینا۔ اس کے تحت پولیس کی طرف سے ریکارڈ کرائے گئے بیان کو بھی (کچھ شرائط کے ساتھ)عدالت میں ثبوت کے طور پر تسلیم کیا جا سکتا ہے۔

سال2011میں کیس کو این آئی اے کے حوالے کرنے سے پہلے اے ٹی ایس نے دو چارج شیٹ داخل کی تھی۔

پھر سال 2014 آیا۔ مرکز اور ریاست میں اقتدار کی تبدیلی ہوئی۔ مرکز کی کمان نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے کے پاس چلی گئی اور ریاست میں شیو سینا-بی جے پی کی حکومت بنی۔

چند ماہ بعد، 2015 میں، انڈین ایکسپریس نے سرکاری وکیل روہنی سالیان کا ایک سنسنی خیز انٹرویو شائع کیا، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا،’پچھلے سال مجھے این آئی اےکے ایک افسر کا فون آیا، انہوں نے کہا کہ وہ مجھ سے ملنا چاہتے ہیں، کیونکہ وہ فون پر بات نہیں کرنا چاہتے تھے۔ جب وہ مجھ سے ملے تو انہوں نے کہا کہ اوپر سے ایک پیغام آیا ہے کہ مجھے نرم رویہ اپنانا چاہیے۔’ سالیان کے ان الفاظ کا مطلب یہ لیا گیا کہ حکومت نے این آئی اے کے ذریعے ان سے ملزمین کے تئیں نرم رویہ اپنانے کی گزارش کی۔

سالیان نے اس وقت افسر کا نام نہیں لیا تھا لیکن یہ ضرورکہا تھاکہ وہ ‘ناخوش تھے کیونکہ کیس میں مکوکاکو برقرار رکھا گیا  تھا۔’

اس انٹرویو کے تین ماہ بعد سالیان نے انکشاف کیا تھا کہ وہ شخص (اس وقت) این آئی اے کے سپرنٹنڈنٹ سہاس وارکے تھے، جنہوں نے 2008 کے مالیگاؤں دھماکہ کیس کے ملزمین کے خلاف ‘نرم رویہ’ اختیار کرنے کو کہا تھا اور یہ این ڈی اے کے اقتدار میں آنے کے بعد ہوا تھا۔

اب آتے ہیں مئی 2016 کی طرف، جب این آئی اے نے ایک ضمنی چارج شیٹ داخل کی اور مکوکا قانون کے تحت الزامات کو مکمل طور پر خارج کر دیا گیا۔ یہی نہیں، تفتیشی ایجنسی نے کہا کہ پرگیہ ٹھاکر اور دیگر پانچ افراد کے خلاف کافی ثبوت نہیں ہیں، اس لیے ‘ان کے خلاف مقدمہ چلانا مناسب نہیں ہے۔’

چارج شیٹ کے بعد عدالت نے مکوکا کو ہٹا دیا تھا، لیکن پرگیہ ٹھاکر اور دیگر چھ لوگوں کو الزام سےبری نہیں کیا۔ اس چارج شیٹ کے بعد سالیان نے کہا تھا کہ مالیگاؤں دھماکے کے ملزمین کے لیے این آئی اے نے ڈھال کی طرح  کام کیا ہے ۔

اب کیس کے تمام ملزمان کے بری ہونے پر تبصرہ کرتے ہوئے سالیان نے کہا ہے؛


یہ تو پتہ ہی تھا کہ ایسا ہو گا۔ اگر آپ ٹھوس ثبوت پیش نہیں کریں گے تو اور کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ میں وہ پراسیکیوٹر نہیں ہوں، جس نے آخر تک عدالت میں ثبوت پیش کیے۔ میں 2017 سے کیس سے باہر تھی، اس سے پہلے میں نے بہت سارے ثبوت پیش کیے تھے اور سپریم کورٹ نے انہیں صحیح ٹھہرایا تھا۔ وہ سب (ثبوت) کہاں غائب ہو گئے؟


مڈ ڈے سے بات کرتے ہوئے سالیان نے کہا کہ جب کیس این آئی اے کو سونپا گیا تو ایجنسی نے پہلے سے دائر چارج شیٹ پر آگے بڑھنے کے بجائے دوبارہ تفتیش کا انتخاب کیا۔ ایجنسی کے مطابق، اس سے پہلے کے شواہد جھوٹے تھے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ اس سے تاخیر ہوئی اور تضادات پیدا ہوئے۔