راہل گاندھی نے مہادیو پورہ اسمبلی حلقہ کی ووٹر لسٹ میں فرضی پتے، ڈپلیکیٹ ووٹر اور’ووٹ چوری’ کے الزام لگاتے ہوئے الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ اب یہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ گاندھی یا کسی دوسرے اپوزیشن لیڈر کے ساتھ زبانی جمع خرچ کرنےکے بجائے ان الزامات کا جائزہ لے اور واضح جواب دے۔

راہل گاندھی کے مطابق، ان کی ٹیم کو ‘انتخابی دھاندلی’ کے ثبوت اکٹھے کرنے میں کل چھ مہینے لگے۔ (تصویر بہ شکریہ: کانگریس)
نئی دہلی: کانگریس لیڈر راہل گاندھی کے بنگلورو سنٹرل لوک سبھا سیٹ کے تحت آنے والے ایک اسمبلی حلقہ کی ووٹر لسٹ میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیوں کے انکشاف نے ایک تازہ تنازعہ کو جنم دے دیا ہے۔
مہادیو پورہ اسمبلی حلقہ کے ووٹر لسٹ میں متعدد بے ضابطگیوں کو اجاگر کرنے کے لیے کانگریس کی ٹیم کی طرف سے گزشتہ چھ ماہ کے دوران کی گئی کوششیں الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری پر سوال اٹھانے کے لیے جاری مہم کا حصہ ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مہادیو پورہ واحد اسمبلی حلقہ ہے، جہاں سے بی جے پی نے 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں کانگریس کو شکست دے کر حیرت انگیز اور ناقابل شکست برتری حاصل کی تھی، جبکہ اسی پارلیامانی حلقے کے باقی سات اسمبلی حلقوں میں اسے کانگریس کے سامنے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
بالآخر، مہادیوپورہ میں بی جے پی کو ملے غیر معمولی طور پر زیادہ ووٹ اتنے ہی تھےکہ اس نے بنگلورو سنٹرل لوک سبھا حلقہ میں کانگریس پر تقریباً 33000 ووٹوں کی برتری بنالی۔
یہ دیکھتے ہوئے کہ کانگریس نے جن ووٹر لسٹ کا استعمال کیا، وہ الیکشن کمیشن کے ہی دستاویزہیں، راہل گاندھی کے ذریعے جمعرات (7 اگست) کو مبینہ انتخابی دھوکہ دہی کے ثبوت پارٹی کا ابھی تک کا سب سے ٹھوس دعویٰ ہے۔ یہ بے ضابطگیاں انتخابی نظام کی ایک بڑی خامی کی طرف اشارہ کرتی ہیں، جس کو حل کرنے کا اختیار اور ذمہ داری صرف الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔
لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ راہل گاندھی کے ذریعہ اٹھائے گئے مسائل کی سنجیدگی سے تحقیقات کرنے کے بجائے الیکشن کمیشن نے کانگریس لیڈر کو حلف نامہ کے تحت یہ الزامات لگانے کا چیلنج دیا۔ ای سی کا یہ جواب نہ تو ان خدشات کو دور کرے گا جو ہندوستان میں انتخابات کی سالمیت کے بارے میں حالیہ دنوں میں اٹھائے گئے ہیں اور نہ ہی اس سے عوام کی نظروں میں الیکشن کمیشن کی خود مختار ساکھ کو بڑھانے میں مدد ملے گی۔
بلکہ تنقید کو اس کی حقیقی روح کے ساتھ قبول کرنے سے انکار گاندھی کے الزامات کوہی تقویت دے گا۔
گاندھی نےمہادیو پورہ میں ووٹر لسٹ میں واضح طور پرفرضی تفصیلات، ووٹر لسٹ میں تکرار، جعلی پتے، فرضی ووٹروں کو شامل کرنے کے لیے فارم 6 کا غلط استعمال اور لاپرواہی سے تیار کردہ ووٹر لسٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے الیکشن کمیشن پر ‘ووٹ چوری’ کا الزام لگایا اور کہا کہ الیکشن کمیشن ایک ایسا ‘امپائر’ ہے جو ‘دوسری ٹیم’ – یعنی بی جے پی — میں ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ الیکشن کمیشن بی جے پی کے اشارے پر کام کر رہا ہے ، انہوں نے اس کی غیر جانبداری پر بھی براہ راست سوال اٹھایا ۔
راہل گاندھی کی طرف سے شیئر کی گئی کچھ باتیں انتہائی حیران کن تھیں۔
انہوں نے کہا کہ مہادیو پورہ ووٹر لسٹ کی ہارڈ کاپی چھ ماہ تک چیک کرنے کے بعد کانگریس کی ٹیم کو 11,965 ڈپلیکیٹ ووٹر، 40,009 جعلی پتے والے ووٹر، 10,452 ایسے ووٹر جو ایک ہی پتے پررجسٹرڈ تھے، فرضی تصویروں والے 4,132 ووٹر اور 33,692 ایسے ووٹر جن پائے جنہوں نے فارم 6 (نئے ووٹر کے طور پر نام کے اندراج کے لیے ضروری دستاویز) کا استعمال کرکے رائے دہندگان کی فہرست میں نام شامل کروایا تھا۔
انہوں نے دکھایا کہ کس طرح ایک ہی ووٹر کو انتخابی حلقے کے مختلف پولنگ اسٹیشنوں پر رجسٹر کیا گیا تھا۔ انہوں نے تین مثالیں دیں، جن میں 80 ووٹرز اور ایک کمرے والے گھر میں 46 ووٹرز کے نام درج تھے۔ انہوں نے پتوں کی تصویریں بھی دکھائیں، جنہیں کانگریس کی ٹیم نے چیک کیا اور وہاں ان میں سے کوئی ووٹر نہیں ملا۔
بنگلورو کی ایک شراب فیکٹری ‘153 بیئر کلب’ کے پتے پر 68 افراد ووٹر کے طور پردرج تھے، لیکن ان میں سے ایک بھی شخص وہاں موجود نہیں تھا۔
یہ سنگین الزامات ہیں اور ان تمام لوگوں کو فکرمند ہونا چاہیے جو ہندوستانی انتخابات کی منصفانہ ہونے کی قسمیں کھاتے ہیں۔
راہل گاندھی کا ماننا ہے کہ ووٹر لسٹ میں خامیوں کی وجہ سے ان کی پارٹی کو بنگلورو سنٹرل میں ایک سیٹ کا نقصان اٹھانا پڑا کیونکہ کانگریس نے اس لوک سبھا حلقہ میں مہادیو پورہ کے علاوہ تمام اسمبلی حلقوں میں کامیابی حاصل کی، سوائے مہادیو پورہ کے، جہاں بی جے پی کو 1.1 لاکھ سے زیادہ ووٹوں کی برتری حاصل ہوئی۔
کانگریس لیڈر نے مہادیو پورہ کے ان واقعات کو ‘ووٹ چوری’ کا ‘ماڈل’ قرار دیا اور کہا کہ انہیں ‘شک ہے’ کہ دوسری ریاستوں میں بھی ایسا ہی معاملہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہریانہ اور مہاراشٹر کے اسمبلی انتخابات میں ہارنے کے بعد کانگریس کے شکوک و شبہات میں اضافہ ہوگیا، کیونکہ ان دونوں ریاستوں میں لوک سبھا انتخابات میں پارٹی نے بہت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا اور پارٹی کے اپنے رائے عامہ کے جائزوں نے جیت کی پیشین گوئی کی تھی۔
گاندھی نے کہا، ‘اب گیند الیکشن کمیشن کے کورٹ میں ہے۔’ سچ مچ ایسا ہی ہے، اب واضح طور پر یہ ذمہ داری الیکشن کمیشن پر عائد ہوتی ہے کہ وہ گاندھی یا کسی دوسرے اپوزیشن لیڈر کے ساتھ زبانی جمع خرچ کرنے کے بجائے ان الزامات کی جانچ کرے، ان کی تحقیقات کرے اور واضح جواب دے۔
الیکشن کمیشن نے ابھی تک ان الزامات کا جواب نہیں دیا ہے۔
پہلے بھی اٹھے ہیں سوال
قابل ذکر ہے کہ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے راہل گاندھی نے کہا کہ ہندوستان میں انتخابات کے معاملے میں اب بحث اس بات پر نہیں رہ گئی ہے کہ انہیں الکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کے ذریعے کرایا جائے یا بیلٹ پیپر سے، بلکہ یہ اس بات پر ہے کہ الیکشن کمیشن آزاد ہے یا نہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ الیکشن کمیشن صحیح طریقے سے کام کرے گا تو انتخابات آزادانہ اور منصفانہ ہوں گے۔
اگرچہ کانگریس نے ماضی میں عوامی سطح پر اس طرح کے الزامات عائد کیے ہیں، لیکن یہ شاید پہلی بار ہے کہ اس کے سب سے قد آور لیڈر نے انتخابی ادارے پر بے باکی سے حملہ کیا ہے اور اس کی آزادی پر اس طرح سوال اٹھائے ہیں جس کا مشاہدہ پہلے کبھی نہیں کیا گیا۔
الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہونے کے ناطے صرف بیٹھ کر تماشا نہیں دیکھ سکتا۔ اسے ان خدشات کو سنجیدگی کے ساتھ دور کرنا چاہیے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔
لیکن ایسا کرنے کے لیے کمیشن کو اپنا جارحانہ انداز ترک کرنا ہوگا۔ الیکشن کمیشن کو اس کے کام کاج پر سوال اٹھانے کے لیے اپوزیشن پر حملہ کرتے دیکھا گیا ہے، اور سی ای سی نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ کمیشن کی قانونی حیثیت کو نقصان پہنچانے کے لیے ایک ‘جھوٹا بیانیہ’ گھڑا جا رہا ہے – جو کہ بی جے پی کی دلیل کے مطابق تھا۔
چند ماہ قبل کانگریس نے پولنگ اسٹیشنوں کی سی سی ٹی وی فوٹیج مانگی تھی، لیکن الیکشن کمیشن نے قواعد میں تبدیلی کرتے ہوئے پولنگ اسٹیشنوں کے کسی بھی سی سی ٹی وی فوٹیج کو شیئر کرنے پر روک لگا دی۔ کمیشن نے دلیل دی کہ ویڈیو فوٹیج شیئر کرنے سے غیر ضروری سیاسی تنازعہ پیدا ہوگا۔
حال ہی میں، بہار میں جاری ‘اسپیشل انٹینسو ریویژن’ (ایس آئی آر) مہم کے معاملے میں کمیشن نے سپریم کورٹ کی اس تجویز پر واضح طور پر اپنی ناراضگی ظاہر کی تھی کہ اسے آدھار، ووٹر فوٹو شناختی کارڈ یا راشن کارڈ جیسے شناختی دستاویزوں پر غور کرنا چاہیے۔
الیکشن کمیشن کو یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ موجودہ سیاسی ماحول سے خود کو الگ نہیں رکھ سکتا، جہاں ہر ادارے کی خود مختاری پر سوالیہ نشان لگ رہا ہو یا وہ سیاسی دباؤ میں ہو۔ الیکشن کمیشن کے پاس اس بڑھتے ہوئے تنازعہ سے خود کو دور کرنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ – وہ اپنے خلاف لگائے گئے ہر الزام کا منطقی اور پرامن طریقے سے جواب دے۔
فی الحال، کمیشن ووٹر لسٹ کے ڈیجیٹل ریکارڈ کو تصدیق کے لیے عام کر سکتا ہے، جیسا کہ جمعرات کو کانگریس رہنما رہول گاندھی نے مطالبہ کیا تھا، اور اگر اپوزیشن پارٹیاں مانگیں تو پولنگ کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی جاری کر سکتا ہے۔
جب تک ایسا نہیں ہوتا، راہل گاندھی کی تشویش ہر جمہوری سوچ رکھنے والے شہری کو پریشان کرتی رہے گی۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔