خاص خبر

اردو تنظیموں نے اسلامی گروپوں کے احتجاج کے بعد جاوید اختر کے پروگرام کی منسوخی کی مذمت کی

مغربی بنگال اردو اکیڈمی نے کچھ اسلامی تنظیموں کے احتجاج کے بعد ‘ہندی سنیما میں اردو کا کردار’ کے موضوع  پر جاوید اختر کی تقریب کو ملتوی کر دیا تھا۔ اب ‘اردو کلچر لندن’ اور ‘انجمن ترقی اردو یو کے’ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ  اردو اکیڈمی کی جانب سےاس طرح تقریب  کوملتوی کرنا جمہوری معاشرے کے لیے نیک فال نہیں ہے۔

مغربی بنگال اردو اکیڈمی نے ہندی سنیما میں اردو کا کردار کے موضوع پر چار روزہ جشن  کو ملتوی کر دیا ہے، جس میں جاوید اختر کومدعو کیا گیاتھا۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: اردو زبان کو فروغ دینے والی برطانیہ کی دو تنظیموں نے کہا ہے کہ جاوید اختر کو پروگرام  میں مدعو کیے جانے کے خلاف اسلامی تنظیموں کے احتجاج کے بعد مغربی بنگال اردو اکیڈمی کی طرف سے پروگرام کو ملتوی کرنا جمہوری معاشرے کے لیے نیک فال نہیں ہے۔

‘اردو کلچر لندن’ اور ‘انجمن ترقی اردو یو کے’ نے بدھ (3 ستمبر) کو ایک بیان میں کہا کہ وہ ‘ادبی اور فنی اظہار کو دبانے کی اس کوشش کی واضح لفظوں میں مذمت کرتے ہیں۔’

انہوں نے مزید کہا کہ ‘اختلاف رائے کا احترام کیا جانا چاہیے، لیکن جمہوری معاشرے میں جبر، دھمکی اور سینسر شپ کی کوئی جگہ نہیں ہے۔’

دونوں تنظیمیں کولکاتہ میں مغربی بنگال اردواکیڈمی کے زیر اہتمام مجوزہ سہ روزہ پروگرام (ہندی فلموں میں اردو کا کردار)  کوآخری لمحات میں ملتوی کرنے کا حوالہ دے رہی تھیں، جس  کے تحت سوموار کو دو پروگرام  میں اختر کو شامل ہونا تھا ۔

اکیڈمی نے اپنے فیصلے کی وجہ نہیں بتائی، لیکن رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ کم از کم دو اسلامی تنظیموں، بشمول جمعیۃ علماء کولکاتہ، نے اختر کے اس پروگرام میں مدعو کرنے کی اس بنیاد پر مخالفت کی تھی کہ انہوں نے مذہبی عقائد یا مذہبی لوگوں کا ‘مذاق’ اڑایا تھا۔

برطانیہ کی اردو تنظیموں نے کہا کہ اختر، جو خود کو ملحد مانتےہیں، نے ‘اس انداز میں بات کی تھی کہ اسے کچھ لوگ مذہب یا عقیدے کی توہین سمجھ سکتے ہیں’، لیکن یہ ‘کسی کی آواز کو دبانے کا کبھی جواز نہیں بن سکتا۔’

انہوں نے کہا، ‘اس سے بھی بری بات یہ ہے کہ اردو کو کسی خاص مذہب سے جوڑنا خطرناک ہے اور اس کی وجہ سے ہندوستان میں اس کی ترقی کو شدید نقصان ہوا ہے۔’

انہوں نے کہا، ‘ہم میں سے جو لوگ برطانیہ میں اردو ثقافت کے تحفظ کے لیے پرعزم ہیں، ان کے لیے یہ دیکھنا انتہائی مایوس کن ہے کہ اس ثقافت کو اس کے اپنے وطن  میں تباہ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔’

انہوں نے یہ بھی کہا کہ کولکاتہ جیسے شہر میں – جسے انہوں نے فکری آزادی اور تکثیریت کا مرکز قرار دیا – اس طرح کا واقعہ اور بھی پریشان کن ہے۔

دستخط کنندگان ہلال فرید، اینی زیدی اور سیف محمود کے ذریعے تنظیموں نے مغربی بنگال کی حکومت، ثقافتی اداروں اور لوگوں سے اپیل کی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ فنکار، ادیب اور شاعر بلا خوف و خطر سامعین کے ساتھ آزادانہ مکالمہ قائم کر سکیں اور ثقافتی تقریبات کو کسی بھی قسم کے دباؤ سے محفوظ رکھا جائے۔

دریں اثنا، دی ہندو سے بات کرتے ہوئے جاوید اختر نے کہا کہ انہیں پروگرام میں مدعو کرنے کی مخالفت سے دکھ ہوا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ‘ہندو گروپ مجھے کہتے ہیں کہ مجھے پاکستان چلے جانا چاہیے، جبکہ مسلم گروپ مجھے کہتے ہیں کہ مجھے اپنا نام بدل کر ہندو نام رکھ لینا چاہیے۔ ‘یہ سب میرے لیے بہت جانا پہچانا ہے۔’

انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ کولکاتہ جیسے شہر میں اس طرح کا احتجاجی مظاہرہ ہوگا۔

اردو تنظیموں کا مکمل بیان پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔