خاص خبر

کووڈ ایف آئی آر: نظام الدین مرکز کے امیر کی تقریر میں پولیس کو کچھ بھی ’قابل اعتراض‘ نہیں ملا

مارچ 2020 میں دہلی کے نظام الدین مرکز میں تبلیغی جماعت کے پیروکاروں کے اجتماع کو ملک بھر میں تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ اس اجتماع سے کووڈ 19 وائرس پھیلا تھا۔ اب پولیس کا کہنا ہے کہ ان کی تحقیقات میں مرکز نظام الدین کے امیر محمد سعد کاندھلوی کی تقریروں میں ‘کچھ بھی قابل اعتراض’ نہیں ملا۔

علامتی تصویر: تبلیغی جماعت کے امیر مولانا سعد کاندھلوی۔ (تصویر: ویڈیو اسکرین گریب/ایکس)

نئی دہلی: مارچ 2020 میں قومی دارالحکومت کے نظام الدین مرکز میں تبلیغی جماعت کے پیروکاروں کے اجتماع کو میڈیا اور حکام نے ملک بھر میں تنقید کا نشانہ بنایا تھااور الزام لگایا تھاکہ کووڈ 19 وائرس اجتماع کی وجہ سے پھیلا تھا۔

اب، تقریباً پانچ سال بعد انڈین ایکسپریس نے اس معاملے کی اطلاع دی ہے کہ دہلی پولیس کی کرائم برانچ کے موجودہ تفتیشی افسر نے سینئر حکام کو مطلع کیا ہے کہ مرکز نظام الدین کے امیرمحمد سعد کاندھلوی کی تقریروں میں ‘کچھ بھی قابل اعتراض’ نہیں ملا، جو ان کے لیپ ٹاپ سے برآمد کیے گئے تھے۔

معلوم ہو کہ یہ رپورٹ 17 جولائی کو دہلی ہائی کورٹ  کی جانب سے تبلیغی جماعت کے اجتماع میں شرکت کرنے والے غیر ملکیوں کو مبینہ طور پر پناہ دینے کے الزام میں 70 ہندوستانیوں کے خلاف درج 16 مقدمات میں چارج شیٹ کو خارج کرنے کے ایک ماہ بعد سامنے آئی ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 31 مارچ 2020 کو حضرت نظام الدین پولیس اسٹیشن کے اس وقت کے ایس ایچ او کی طرف سے درج  کی گئی شکایت کی بنیاد پر سعد اور دیگر کے خلاف غیر ارداتاً قتل کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

اخبار کے مطابق، ایس ایچ او نے اپنی شکایت میں الزام لگایا تھا کہ ’21 مارچ 2020 کو مبینہ طور پر سعد کی ایک آڈیو ریکارڈنگ وہاٹس ایپ پر وائرل ہوئی تھی، جس میں مقرر کو اپنے پیروکاروں سے لاک ڈاؤن اور سماجی دوری کی خلاف ورزی کرنے اور مرکز میں مذہبی تقریب میں شرکت کے لیے کہتے سنا گیا تھا۔’

ایک سینئر اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے اخبار نے اب اطلاع دی ہے کہ اس کیس کے تفتیشی افسر نے کہا ہے کہ سعد کی تقاریر کے تجزیے میں کوئی قابل اعتراض چیز نہیں ملی – جو ایک لیپ ٹاپ میں محفوظ کرکے فرانزک لیب میں جمع کرائی گئی تھی۔

اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح اس معاملے میں 36 ممالک کے کل 952 غیر ملکی شہریوں کے خلاف چارج شیٹ دائر کی گئی تھی۔

ایک اہلکار نے بتایا کہ 26، 27، 28 مئی اور 19 جون 2020 کو عدالت میں 48 چارج شیٹ اور 11 سپلیمنٹری چارج شیٹ داخل کی گئیں۔

مقدمے کی سماعت کے دوران، 44 ملزمان غیر ملکی شہریوں نے ٹرائل کا سامنا کرنے کا انتخاب کیا، جبکہ 908 نے اعتراف جرم کیا اور 4،000 سے 10،000 روپے تک جرمانہ ادا کیا۔

قابل ذکر ہے کہ تبلیغی جماعت کی تقریب ہندوستان کی جانب سے عوامی اجتماعات سے متعلق رہنما خطوط جاری کرنے سے قبل منعقد کی گئی تھی، لیکن مارچ کے آخر میں ہندوستان میں  معاملے میں اضافے کے ساتھ ہی اس اجتماع اور بڑے پیمانے پر مسلمانوں کو قربانی کا بکرا بنانے کا کام  شروع ہو گیا۔

اس سلسلے میں، 5 اپریل 2020 کو اپنی پریس کانفرنس میں ، وزارت صحت کے اس وقت کے جوائنٹ سکریٹری لاو اگروال نے دعویٰ کیا کہ ہندوستان میں کیسز کے دگنی ہونے کی شرح 4.1 یومیہ ہے، اور ‘اگر نظام الدین کا اجتماع نہ ہوتا اور اضافی کیسز نہ آتے تو یہ تقریباً 7.14 یومیہ ہوتے۔’

اس کے بعد میڈیا میں ایک ایسا ماحول بنا، جس میں مسلمانوں پر ‘کورونا جہاد’ پھیلانے کا جھوٹا اور قابل مذمت الزام لگایا گیا۔

اس بات پر بہت کم توجہ دی گئی کہ اس اجتماع سے ٹھیک پہلے وزیر اعظم نریندر مودی نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی پہلی میعاد  کے موقع پر استقبال کرنے کے لیے احمد آباد میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کا ہجوم جمع کیا تھا۔

قابل ذکر ہے کہ 2020 میں پیو ریسرچ سینٹر کی ایک رپورٹ نے ریاست یا معاشرے کے ایک طبقے کے ذریعہ کچھ مذہبی گروہوں کے خلاف کووڈ 19 سے متعلق دشمنی سے جڑے ایک انڈیکس میں ہندوستان کو ٹاپ پر رکھا تھا۔