خاص خبر

سنکرشن ٹھاکر: بہار کا مصور اپنے قلم کے ساتھ چلا گیا …

سنکرشن ٹھاکر کا جانا صرف ایک شخص کا جانا نہیں، بلکہ ان الفاظ کا خاموش ہو جانا ہے جو سماج کی بُو باس اور سچائی کو گرفت میں لینے کی قوت رکھتے تھے۔ پٹنہ کی سرزمین سے آنے والے اس صحافی نے کشمیر سے بہار تک کی کہانیوں کو دلجمعی سے قلمبند کیا۔ ان کے یہ نوشتہ جات صحافت کا لازوال ورثہ ہیں۔

تصویر بہ شکریہ: ایکس / سنکرشن ٹھاکر

صبح دہلی سے خبر آئی، ‘سنکرشن ٹھاکر نہیں رہے’۔ یہ جملہ جتنا مختصر تھا، اس کی چوٹ اتنی ہی شدید تھی۔ جیسے کسی ندی نے اچانک بہنا بندکر دیا ہو۔ زندگی کے اتنے شور شرابے کے درمیان یہ خاموشی اندر تک اترتی چلی گئی۔ صحافت کی دنیا، جو پہلے ہی شکوک و شبہات سے بھری ہوئی ہے، اب اور بھی خاموش ہوگئی ہے۔

ان کا جانا صرف ایک شخص کا جانا نہیں ہے۔ یہ ان الفاظ کا جانا ہے، جو زندگی کی بُوباس اور سچائی کو گرفت میں لینے کی قوت رکھتے تھے۔ وہ آواز جو بھیڑ میں بھی الگ سنائی پڑتی تھی۔ ان کےجانے سےصحافت کا چہرہ اور بھی ویران ہو گیا ہے۔

جڑوں سے وابستہ صحافی

سنکرشن ٹھاکر 1962 میں پٹنہ میں پیدا ہوئے، اور بہار کی اس سر زمین سے نکلے، جس نے انہیں گہری نظر اور جینے کا عزم عطا کیا۔ گنگا کے کنارے آباد یہ شہر صدیوں سے تاریخ اور یادوں کا سنگم رہا ہے۔ وہی مٹی، وہی بُو باس، وہی جدوجہد ان کے اندر بھی گامزن تھی۔

ان کے والد جناردن ٹھاکر معزز صحافی تھے۔ سنکرشن ٹھاکر کا تعلق متھلا کے ایک علمی گھرانے سے تھا، جہاں تعلیم اور تہذیب دونوں کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔ سینٹ زیویئرز، پٹنہ کی تعلیم اور پھر ہندو کالج، دہلی یونیورسٹی سے سیاسیات کی تعلیم نے انہیں علم، اپنے عہد اور معاشرے کو دیکھنے کا ایک نیا نظریہ دیا۔ 1983 میں اپنی تعلیم کی تکمیل تک تو وہ سمجھ چکے تھے کہ ہندوستان کی سیاست اور سماج کی نبض کہاں اور کس  طرح درج ہوتی ہے۔

قلم اور قدم

صحافت نے انہیں بہت جلد اپنا لیا۔ ان کا سفر 1984 میں سنڈے میگزین سے شروع ہوا۔ ان دنوں صحافت ابھی ڈیجیٹل نہیں ہوئی تھی۔ صحافی کا سب سے بڑا ہتھیار اس کے پاؤں اور کان ہوتے تھے، سڑکوں پر چلنا اور لوگوں کی باتیں سننا۔

بعد کے سالوں میں انہوں نے انڈین ایکسپریس، ٹیلی گراف اور تہلکہ میں خدمات انجام دیں۔ لیکن انہوں نے جہاں بھی کام کیا، خود کو ڈیسک بیس ایڈیٹر کے طور پر کبھی محدودنہیں کیا۔ وہ ہمیشہ ایک ‘روونگ ایڈیٹر’ تھے، یعنی ایک ایسا ایڈیٹر جو خبروں کے پیچھےنکل پڑتا ہے، چاہے وہ کشمیر کی وادی ہو یا بہار کا کوئی گاؤں۔

ان کی رپورٹنگ سفاکیت اور درمندی کی مثال تھی۔ وہ کبھی سچائی سے پیچھے نہیں ہٹے اور نہ ہی مصائب سے ڈرے۔

کتابیں: وقت کی گواہی

سنکرشن ٹھاکر کی کتابیں نہ صرف سیاسی سوانح حیات ہیں بلکہ ہمارے دور کی گواہی بھی ہیں۔ ‘دی میکنگ آف لالو یادو: دی ان میکنگ آف بہار’ ان کا مشہور ترین اور لازمی طور پرپڑھا جانے والا کارنامہ ہے، جسے بہار کے سماجی اور سیاسی حالات کو سمجھنے کے لیے ایک ضروری متن تسلیم کیا جاتا ہے۔

اس کے بعد سبالٹرن صاحب میں انہوں نے لالو پرساد یادو کے عروج اور بہار کے زوال کو قلمبندکیا ہے۔ یہ صرف ایک لیڈر کی کہانی نہیں ہے بلکہ اس معاشرے اور سماج کا دستاویز ہےجس نے اسے جنم دیا۔ سنگل مین میں نتیش کمار کے سیاسی سفر اور ان کے تنازعات کی کہانی سامنے آتی ہے۔ جبکہ، دی بردرز بہاری لالو اور نتیش، دونوں کے متوازی سفر کی عکاسی کرتا ہے، جنہوں نے بہار کو دو مختلف سمتوں میں کھینچا۔

سنکرشن ٹھاکر نے سال 2022 میں اس تصویر کو شیئر کرتے ہوئے لکھا تھا، ‘اگر آپ بہار کی انتہائی دلچسپ اور مؤثر سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں، تو میری تحریر کردہ  لالو پرساد یادو اور نتیش کمار کی سیاسی سوانح عمریاں ضرورپڑھیں۔ یہ وہ دو لیڈر ہیں جنہوں نے گزشتہ تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے بہار کی تقدیر کا فیصلہ کیا ہے۔’

ان کتابوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ لیڈروں کے پیچھے کھڑےلوگ بھی اس میں زندہ  ہوجاتے ہیں۔ گاؤں کی  چوپالیں، تھکے ہوئے کسان، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اور پُر امید نوجوان۔

بہار کی یہ مجموعی تصویر ہی سنکرشن ٹھاکر کی تحریروں کو منفرد اور مخصوص بناتی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے کارگل جنگ، پاکستان اور اتر پردیش میں غیرت کے نام پر قتل پر بھی کتابیں لکھیں۔ سائز میں چھوٹی یہ کتابیں اپنے اندر پوری تاریخ کا بوجھ اٹھاکر قاری کو واقعات اور معاشرے کی گہرائیوں تک لے جاتی ہیں۔

الفاظ کے ساتھ رنگوں کی کائنات

بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ سنکرشن ٹھاکر مصور بھی تھے۔ اپنے فارغ وقت میں وہ کینوس پر پینٹ کیا کرتے تھے۔ ان کی مصوری میں وہی بے چینی، وہی گہرائی اور وہی خاموشی جھلکتی تھی جو ان کی رپورٹنگ میں تھی۔ ان کے برش کا ہر اسٹروک ایک ادھوری کہانی سنا تا تھا۔

ان کے لیے لکھنا اور مصوری، دونوں اپنے عہد اور شخصی گواہی کے اسلوب تھے۔ لفظوں سے انہوں نے وقت  کوقلمبند کیا اور رنگوں سے اپنے اندر کی خاموشی کو ۔

شخصیت

ان کے دیرینہ شریک کار اور مشہور پالیٹکل  جرنلسٹ اور مصنف رشید قدوائی کہتے ہیں کہ سنکرشن ٹھاکر جس قدر گرمجوشی سے بھرےتھے اتنے ہی نظم و ضبط کے بھی پابند تھے۔ دکھاوے اور منافقت کو بالکل برداشت نہیں کرتے تھے۔ نوجوان صحافیوں سے انہیں ہمیشہ بڑی توقعات ہوتی تھیں۔ ان کی تنقید بعض اوقات تلخ معلوم ہوتی تھی، لیکن اس میں چھپی سچائی اور رہنمائی ہمیشہ صاف نظر آتی تھی۔

وہ صرف ایک سینئرمعلم نہیں تھے؛ وہ سننے والے بھی تھے۔ گاؤں کی چوپال ہو یا پارلیامنٹ ہاؤس، ان کی توجہ اور ارتکاز میں کوئی فرق نظر نہیں آتا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ ہر شخص کی کہانی پہلی بار سن رہے ہوں، ہر بات کو حساس طبیعت اور سنجیدگی کے ساتھ اپنے اندر جذب کر  رہے ہوں ۔ رشید قدوائی جذباتی ہوتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘وہ ایک حساس انسان تھے، جو ہر کہانی، ہر شخص اور ہر واقعے کو سمجھتے اور اس کے اندر اترتے تھے۔ ان کے کام میں جو حساسیت، سچائی اور انسانیت تھی وہی ہماری یادوں اور خراج تحسین میں زندہ رہے گی۔’

یادیں اور خراج تحسین

سینئر صحافی نریندر ناتھ مشرا نے لکھا؛

‘ملک کے عظیم صحافی، ٹیلی گراف کے ایڈیٹر، بہار سے آنے والے سنکرشن ٹھاکر جی آج انتقال کر گئے۔ وہ کچھ دنوں سے بیمار تھے۔ وہ بہار کے بارے میں حیرت انگیز معلومات رکھتے تھے۔ میں ہر الیکشن میں ان سے رہنمائی حاصل کرتا تھا۔ ملک نے ایک شاندار صحافی، شخص اور بہاری  کوکھو دیا ۔’

رویش کمار نے لکھا:

‘بہت افسوس ہوا۔ میں سنکرشن ٹھاکر کی لکھاوٹ کا قائل رہا ان کی لکھاوٹ  سڑکوں پر گھوم گھوم کر نکھرتی تھی اور میز پر بیٹھ کر لکھی گئی کسی شاندار تخلیق  کی طرح مہکتی تھی۔ اس دنیا میں انہوں نے بہت مختصر زندگی گزاری لیکن جب بھی لکھا اسے خوبصورت بنانے کی خواہش میں  لکھا۔ میرا خراج تحسین۔’

اس کے علاوہ کئی دیگر سینئر صحافیوں اور مدیران  نے بھی ان کے انتقال پر دکھ کا اظہار کیا ہے۔ یہ خراج تحسین ان کے حیات اور کارنامے کی حقیقی پہچان ہیں۔

میری یادیں

سنکرشن ٹھاکر سے میری پہلی ملاقات تقریباً بارہ سال پہلے ہوئی تھی۔ ایک چھوٹی سی پریس کانفرنس کے بعد ہم قریبی کیفے میں بیٹھے تھے۔ اتفاق سے میں ان کے ساتھ والی کرسی پر تھا۔ اس ملاقات کی سب سے پیاری چیز جو مجھے آج بھی یاد ہے وہ ان کا دھیان اور سننا۔ میرے معمولی سےسوالوں پر بھی اتنی ہی توجہ،جتنی کسی بڑے سوال پر ۔ ان کی آنکھوں میں شفقت اور جینے کی خواہش نظر آتی تھی، جیسے ہر شخص کی کہانی ان کے اندر اتر رہی ہو۔

میں نے ان سے بہار اور سیاست کے بارے میں سوالات پوچھے۔ وہ اپنائیت کے ساتھ جواب دیتے رہے – بغیر کسی دکھاوے کے۔ کبھی ان کا مزاح ماحول کو ہلکا کر دیتا اور کبھی ان کی سنجیدگی خاموش کر دیتی۔

ہم دونوں ایک ہی زبان بولتے تھے — میتھلی — اور یہ بندھن  ہماری  بات چیت کو اور بھی زیادہ اپنا بناتا تھا۔ ان کا گاؤں سنگھواڑہ، دربھنگہ ضلع میں پڑتا ہے، ایک محبوب جگہ ہے، جس کی مٹی اور یادیں وہ ہمیشہ اپنے ہمراہ لاتے تھے۔ ہم اکثر ملتے تھے — دہلی میں ، پٹنہ میں اور متھلا میں۔ ان کی حساس طبعیت اور سادگی ہر ملاقات میں محسوس ہوتی تھی۔

ایک چراغ جو بجھانہیں

وہ اپنے پیچھے ایک خلا چھوڑ گئے ہیں۔ لیکن یہ خلا بھی ہمیں بار بار یاد دلاتا ہے کہ سنکرشن ٹھاکرجیسے لوگ کبھی مکمل طور پر جاتے نہیں۔ وہ اپنی کتابوں، رپورٹوں اور پینٹنگز میں زندہ رہتے ہیں۔

ان کی تحریریں ہمیں یہ درس دیتی رہیں گی کہ صحافی کا کام اقتدار کی قصیدہ خوانی نہیں بلکہ اس کے انجام کا گواہ بننا ہے۔ ان کی زندگی ہمیں بتاتی رہے گی کہ سچ کی گواہی صرف الفاظ سے نہیں بلکہ بصارت اور حساسیت سے بھی دی جاتی ہے۔

(آشوتوش کمار ٹھاکر پیشے کے اعتبار سے مینجمنٹ پروفیشنل ہیں، ادب اور آرٹ پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔)