راج شیکھر کا کام نصف صدی سے زیادہ پر محیط ہے، جس کے دوران انہوں نے دلتوں کے جذبات اور مسائل کی انتھک نمائندگی کی ہے، اپنے پلیٹ فارم کا استعمال کرتے ہوئے اعلیٰ ذات کی بالادستی کو چیلنج کیا۔ جرنل دلت وائس کو انہوں نے 1981 میں قائم تھا۔ ان کا جرنل ہندوستان کے انسانی حقوق سے محروم سبھی طبقات کے ترجمان کے طور پر کام کرتا تھا۔
پریس کلب آف انڈیا میں ہوئے ایک پروگرام میں مختلف پریس تنظیموں نے صحافت کو دباؤ سے آزاد رکھنے کی اپیل کی۔ نیوز کلک کے ایڈیٹر پربیر پرکایستھ نے کہا کہ میڈیا کے پاس لوگوں تک سچائی پہنچانے کی ذمہ داری اور آزادی، دونوں ہونی چاہیے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ یو اے پی اے معاملے میں نیوز کلک کے مدیر پربیر پرکایستھ کی گرفتاری غلط ہے کیونکہ صحیح طریقہ کار پر عمل نہیں کیا گیا تھا۔
گلوبل سول سوسائٹی الائنس ‘سی آئی وی آئی سی یو ایس’ نے کہا ہے کہ یہ پوری طرح سے ہندوستان میں پریس کی آزادی پر حملہ ہے اور نیوز ویب سائٹ نیوز کلک کی تنقیدی اور آزاد صحافت کے خلاف انتقامی کارروائی ہے۔ یو اے پی اے کے تحت اس ویب سائٹ پر الزام عائد کرنا، آزاد میڈیا، کارکنوں اور شہریوں کو خاموش کرانے اور ہراساں کرنے کی ایک بے شرم کوشش ہے۔
ویڈیو: پچھلے ہفتے کئی میڈیا آؤٹ اداروں نے تمل ناڈو میں بہار کے مزدروروں پر حملوں کی خبریں چلائیں۔ سوشل میڈیا پر کئی ویڈیو وائرل ہوئے تھے، جن میں مزدروں پر حملہ کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔ تمل ناڈو پولیس نے ان تمام خبروں اور ویڈیوز کی تردید کی ہے۔ اس پورے واقعے کے بارے میں بتا رہے ہیں علی شان جعفری۔
تمل ناڈو پولیس نے کہا کہ ڈی ایم کے کے تھرونینراور آئی ٹی ونگ کے سوریہ پرکاش نے شکایت درج کرائی ہے کہ اوپ انڈیا ڈاٹ کا ویب سائٹ جھوٹی خبریں پھیلا رہی ہے اورتمل ناڈو میں رہنے والے دیگر ریاستوں کے مزدوروں میں خوف کا احساس پیدا کر رہی ہے۔
رضوان اللہ کے اوراق مصور میں کلکتہ بھی ہے اور دلی بھی— اس سے ہمیں کلکتہ کے کل، آج اور کل کے بارے میں بہت سی معلومات ملتی ہیں اور دلی کے دل کا حال معلوم ہوتا ہے۔’اوراق مصور‘ کلکتہ کا کولاژ ہے اور اس میں شبدوں سے جو چترکاری کی گئی ہے، وہ تصویریں انتہائی حسین ہیں … اس میں فکر، معانی اور لفظیات کا حسن سمٹ آیا ہے۔
ہندوستان کی جمہوریت دن دہاڑے دم توڑ رہی ہے۔ پریس کو شکنجے میں لیا جا رہا ہے، لیکن اس کو ثابت قدم رہنے کے طریقے تلاش کرنے ہوں گے۔
ایک شاندار ماضی ہوتے ہوئے بھی اب اردو کے صرف مٹھی بھر قارئین رہ گئے ہیں اور اب اس کے وجود پر سوالیہ نشان لگنا شروع ہو گئے ہیں۔
ویڈیو: اتر پردیش میں ‘4پی ایم’ اخبار کے چیف ایڈیٹر سنجے شرما نے پریس کی آزادی پر حملے اور اپنے اخبار کے یوٹیوب چینل کو بندکیے جانے کےحوالے سے دی وائر سے بات چیت کی۔
اتر پردیش کی راجدھانی لکھنؤ سے شائع ہونے والے اخبار ‘4 پی ایم’کے ایڈیٹر نے کہا ہےکہ انہوں نے اس سلسلے میں ایف آئی آر درج کرانے کے ساتھ صدر رام ناتھ کووند کومعاملے کا نوٹس لینے کے لیے خط لکھا ہے۔ اس کے علاوہ اخبار کا ایک نیا یوٹیوب چینل بھی شروع کیا گیا ہے۔
جمہوریت کو اپنےٹھینگے پر رکھے گھوم رہے لٹھیتوں کے اس دور میں46 سال پہلے کی ایمرجنسی کے 633 دنوں پر خوب ہائےتوبہ مچائیے،مگر پچھلے 2555 دنوں سے بھارت ماتا کی چھاتی پر چلائی جا رہی غیر اعلانیہ ایمرجنسی کی چکی کے پاٹوں کونظرانداز مت کریے۔
اخبارات کے کالم نگاروں کا موازنہ آپ نیوز چینلوں کے اینکرز سے کر سکتے ہیں کہ چینلوں کی تعداد جس رفتار سے بڑھی ہے، اچھے اینکرز کی اہمیت و مقبولیت بڑھتی گئی ہے لیکن جس طرح چینلوں پربہت سے بھانڈ اورمسخرے میڈیا کی رسوائی کا سامان کرتے ہیں، ہمارے درمیان بھی قلم کی روشنائی سے اپنی روسیاہی کاسامان کرنے والوں کی کمی نہیں ہے۔
ویڈیو: جنگ آزادی میں روزنامہ ملاپ کی خدمات ،فکر تونسوی کا کالم پیاز کے چھلکے،اردو رسم الخط میں ہندی کا استعمال اور اردو صحافت کے مستقبل پر ملاپ کے مدیر نوین سوری سے فیاض احمد وجیہہ کی بات چیت۔
ویڈیو:کلکتہ کی اردو صحافت، ایمرجنسی، اردو اخبار، مسلمانوں کی گرفتاری اور اردو صحافت کے مستقبل پر سینئر صحافی رضوان اللہ سے فیاض احمد وجیہہ کی بات چیت۔
ایک بات جو موجودہ حالات کو ایمرجنسی سے بھی زیادہ سنگین بناتی ہے وہ یہ کہ آج ملک کو تانا شاہی کے ساتھ ساتھ فسطائیت کا بھی سامنا ہے۔ فرقہ پرستی اپنے عروج پر ہے۔ مذہبی اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف تشدد عام ہو گیا ہے۔ اس کے خلاف کوئی شنوائی نہیں ہے۔ مظلوم کو انصاف کی جگہ ذلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ایمرجنسی کوئی ناگہانی واقعہ نہیں بلکہ اقتدار کی بےانتہا مرکزیت، جابرانہ رویہ ، شخصیت پرستی اور چاپلوسی کے بڑھتے رجحان کا ہی نتیجہ تھا۔ آج پھر ویسا ہی نظارہ دکھ رہا ہے۔ سارے اہم فیصلے پارلیامانی کمیٹی تو کیا، مرکزی کابینہ کاؤنسل کی بھی عام رائے سے نہیں کئے جاتے، صرف اور صرف پی ایم او اور وزیر اعظم کی چلتی ہے۔
ایمرجنسی کے 43 سال بعد ان سینسر فرمان کو پڑھنے پر اس ڈراؤنے ماحول کا اندازہ ہوتا ہے جس میں صحافیوں کو کام کرنا پڑا تھا، اخباروں پر کیسی پابندی لگی تھی اور کیسی کیسی خبریں روکی جاتی تھیں۔
آپ سے ایک گزارش ہے۔ آپ کسی اینکر کو اسٹار ہونے کا احساس نہ کرائیں۔ مجھے بھی نہیں۔ ایسا کرکے آپ میڈیا کے اندر کے گناہ کو تسلیم کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ اینکر اب عوام مخالف غنڈے ہیں۔