خبریں

کتنے غیر قانونی تارکین وطن؟ بہار ایس آئی آر ختم، لیکن ان پانچ سوالوں کے جواب نہیں ملے

الیکشن کمیشن نے بہار میں ‘اسپیشل انٹینسو ریویژن’ مکمل کرتے ہوئے حتمی ووٹر لسٹ جاری کر دی ہے۔ 47 لاکھ رائے دہندگان کے نام خارج کر دیے گئے ہیں۔کمیشن نے نام ہٹائے جانے کی واضح وجوہات کی جانکاری نہیں دی ہے۔ دستاویزوں کی کمی کی وجہ سے ہٹائے گئے نام، نئے ووٹروں کی تعداد اور غیر قانونی غیر ملکی تارکین وطن کی تعداد جیسی اہم جانکاری بھی نہیں دی گئی ہے۔

چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار (درمیان میں) وویک جوشی (دائیں) اور سکھبیر سنگھ سندھو۔ (تصویر بہ شکریہ: الیکشن کمیشن)

نئی دہلی: الیکشن کمیشن کا متنازعہ ‘اسپیشل انٹینسو ریویژن (ایس آئی ار)’ کا عمل 30 ستمبر کو ختم ہوا ۔ کمیشن کی جانب سے جاری حتمی ووٹر لسٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ریاست میں ووٹروں کی کل تعداد میں تقریباً 6فیصد کی کمی آئی ہےیعنی47 لاکھ نام کم ہوئے ہیں۔

الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ اس عمل کے دوران 68.66 لاکھ ووٹرز کو فہرست سے ہٹایا گیا، جبکہ 21.53 لاکھ نئے ووٹرز شامل کیے گئے۔ تاہم، کمیشن نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ اتنے بڑے پیمانے پر ووٹروں کو کیوں ہٹایا گیا۔

مثال کے طور پر، یہ نہیں بتایا گیا کہ فارم 6 کے ذریعے شامل کیے گئے 21.53 لاکھ ووٹرز پوری طرح سے نئے ہیں یا ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے ڈرافٹ ووٹر لسٹ جاری ہونے کے بعد اعتراضات اور دعوے دائر کیے تھے۔

کمیشن نے یہ بھی واضح نہیں کیا کہ ڈرافٹ لسٹ میں موجود 3.66 لاکھ ووٹرز کو حتمی فہرست سے کیوں نکالا گیا اور کتنے ووٹرز کو دستاویزات جمع نہ کرنے کی وجہ سے خارج کیا گیا۔

الیکشن کمیشن نے 24 جون کو اس مشق کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا کرنے کی ایک وجہ ووٹر لسٹ میں ‘غیر قانونی غیر ملکی تارکین وطن’ کے نام شامل ہونے کا امکان بھی ہے، لیکن کمیشن نے اس کی تعداد کو عام نہیں کیا۔

اس کا مطلب ہے کہ الیکشن کمیشن نے اس عمل کے بعد ابھی تک کئی اہم سوالوں کے جواب نہیں دیے ہیں۔

سینتالیس لاکھ نام کیوں ہٹائےگئے تھے؟

جب ‘ایس آئی آر’ کا عمل جاری تھا، الیکشن کمیشن نے روزانہ پریس ریلیز جاری کیں، جن میں کہا گیا تھاکہ جن ووٹرز کے نام حذف کیے گئے ، ان میں وہ لوگ شامل تھے جو مر چکے تھے، کہیں منتقل ہو چکے تھے یا ان کا نام ایک سے زیادہ جگہوں پر رجسٹرڈ تھا۔

یکم اگست کو جاری کی گئی ڈرافٹ ووٹر لسٹ میں 65 لاکھ ناموں کو حذف کرنے کی تفصیل دی گئی تھی۔ اس میں کہا گیا تھا کہ 22 لاکھ ووٹرز کو مردہ قرار دیا گیا، 36 لاکھ مستقل طور پر کہیں چلے گئے یا نہیں ملے، اور 7 لاکھ نام ایک سے زیادہ جگہوں پر رجسٹرڈ تھے۔

الیکشن کمیشن نے 30ستمبر کو اپنے بیان میں صرف یہ کہا کہ جب 24 جون کو ایس آئی ار کا اعلان کیا گیا تھا، اس وقت ریاست میں 7.89 کروڑ ووٹر تھے۔ جب یکم اگست کو ڈرافٹ ووٹر لسٹ جاری کی گئی تو 65 لاکھ ناموں کو ہٹائے جانے کے بعد یہ تعداد 7.24 کروڑ ہو گئی۔ اس کے بعد حتمی فہرست میں یہ بڑھ کر 7.42 کروڑ ہو گئی۔

تفصیلات کے لحاظ سے الیکشن کمیشن کے بیان میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ ‘3.66 لاکھ نااہل ووٹرز کو ڈرافٹ لسٹ سے ہٹایا گیا’ اور ‘21.53 لاکھ اہل ووٹرز کو ڈرافٹ لسٹ (فارم 6) میں شامل کیا گیا’۔

لیکن الیکشن کمیشن کے بیان میں ناموں کو حذف کرنے کی وجوہات تاحال واضح نہیں کی گئی ہیں، جبکہ سپریم کورٹ نے 14 اگست کو کمیشن سے کہا تھا کہ وہ اپنی ویب سائٹ پر ڈرافٹ ووٹر لسٹ سے خارج کیے گئے ناموں کو حذف کرنے کی وجوہات کے ساتھ شائع کرے۔

ڈرافٹ لسٹ سے3.66 لاکھ ووٹرز کو کیوں نکالا گیا؟

الیکشن کمیشن کے مطابق 30 ستمبر کو شائع ہونے والی حتمی ووٹر لسٹ میں 3.66 لاکھ ووٹرزایسے ہیں جنہیں ‘نااہل پائے جانے کے بعد ڈرافٹ لسٹ سے حذف کر دیا گیا ۔’

تاہم کمیشن نے اس بات کی وضاحت پیش نہیں کی کہ ان ووٹرز کو ڈرافٹ لسٹ میں کیوں شامل کیا گیا اور پھر صرف دو ماہ بعد ہی انہیں کیوں ہٹا دیا گیا۔ اس میں یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ کیا ان افراد کو معاون دستاویزوں کے بغیر ڈرافت لسٹ میں شامل کیا گیا تھا اور بعد میں دستاویزفراہم نہ کرنے کی  وجہ سے ہٹا دیا گیا۔

تاہم، فارم 6 کا استعمال نئے ووٹروں کی درخواستوں کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔

الیکشن کمیشن کے بیان میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا کہ یہ ووٹرز دراصل نئے ہیں یا وہ لوگ ہیں جنہوں نے دعوے اور اعتراضات کی مدت کے دوران درخواست دی تھی۔ کمیشن نے تین ماہ کی اس مہم کے دوران شامل کیے گئے نئے ووٹروں کی تعداد بھی ظاہر نہیں کی۔

آخر47 لاکھ ووٹرز میں سے کتنے دستاویزوں کی کمی کی وجہ سے باہر ہوئے؟

الیکشن کمیشن نے کہا کہ ووٹر لسٹ 24 جون کو 7.89 کروڑ سے کم ہو کر حتمی فہرست میں 7.24 کروڑ رہ گئی ہے۔ لیکن اس نے یہ واضح نہیں کیا کہ جو47 لاکھ افراد صرف تین ماہ قبل تک ووٹ دینے کے اہل تھے، کیا وہ ضروری دستاویزوں کی کمی کی وجہ سے باہر کر دیے گئے۔

چوبیس جون کواس عمل کا اعلان کرتے ہوئے کمیشن نے کہا تھا کہ –

یکم جولائی 1987 سے پہلے پیدا ہونے والوں کو اپنی تاریخ پیدائش اور/یا جائے پیدائش کا ثبوت فراہم کرنا ہوگا۔

یکم جولائی 1987 اور 2 دسمبر 2004 کے درمیان پیدا ہونے والوں کو اپنی تاریخ پیدائش اور اپنی والدہ یا والد کی تاریخ/ جائے پیدائش کا ثبوت فراہم کرنا ہوگا۔

دو  دسمبر 2004 کے بعد پیدا ہونے والے افراد کو اپنی تاریخ اور جائے پیدائش کے ساتھ ساتھ اپنے والدین کی تاریخ اور جائے پیدائش کا ثبوت دینا ہوگا۔

اس کو ثابت کرنے کے لیے الیکشن کمیشن نے 11 دستاویزات کی فہرست دی تھی، لیکن آسانی سے دستیاب دستاویز جیسے آدھار، راشن کارڈ، اور ووٹر شناختی کارڈ کو شامل نہیں کیا۔ اس نے مشق کے دوران ایک بڑا تنازعہ کھڑا کر دیا، جس سے یہ خدشات پیدا ہوئے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو باہر رکھا جائے گا۔ کمیشن کی طرف سے مطلوبہ 11 دستاویزات میں سے پانچ تو ایسے تھے ،جن میں تاریخ پیدائش یا جائے پیدائش کا ذکر ہی نہیں تھا۔

دی وائر نے رپورٹ کیا ہے کہ الیکشن کمیشن نےایس آئی آر کے عمل کے دوران کئی بار قواعد کو تبدیل کیا، چاہے وہ  فارم جمع کرانے کے قواعد ہوں یا دعوےاور اعتراضات کی آخری تاریخ۔ آخر کار، عدالت میں بار بار انکار کے بعد، 9 ستمبر کو، کمیشن نے اعلان کیا کہ وہ آدھار کارڈ کوبھی  قبول کرے گا، اوریہ اقدام اس نے سپریم کورٹ کے کہنے کے بعد ہی اٹھایا۔

کتنے ‘غیر ملکی غیر قانونی تارکین وطن’ پائے گئے؟

جب الیکشن کمیشن نے 24 جون کو خصوصی نظرثانی کا اعلان کیا تھا تو اس نے کہا تھا کہ یہ کئی وجوہات کی بنا پر ضروری ہے، جن میں سے ایک ووٹر لسٹ میں ‘غیر قانونی غیر ملکی تارکین وطن’ کا نام شامل ہونا بھی تھا۔

کمیشن نے 24 جون کو اپنے بیان میں کہا تھا، ‘تیز شہری کاری، مسلسل ہجرت، نئے ووٹر بننےوالے نوجوان شہری، اموات کی اطلاع نہ دینے اور غیر قانونی غیر ملکی تارکین کے ناموں کی شمولیت جیسی مختلف وجوہات کی وجہ سے شفافیت کو برقرار رکھنے اور خامیوں سے پاک انتخابی فہرست کی تیاری کے لیے انتخابی فہرست کی مکمل نظر ثانی ضروری ہے۔’

اس عمل کے دوران الیکشن کمیشن نے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھاکہ تحقیقات کے دوران نیپال، میانمار اور بنگلہ دیش کے غیر قانونی تارکین وطن پائے گئے۔ تاہم 30 ستمبر کو جاری ہونے والے کمیشن کے سرکاری بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ایسے غیر ملکی غیر قانونی تارکین وطن کی کل تعداد کتنی تھی۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے  یہاں کلک کریں ۔