جے این یو طلبہ یونین کے انتخابات میں بائیں بازو کی اتحاد کی جیت کے بعد مہاتما گاندھی انٹرنیشنل ہندی یونیورسٹی میں نعرے لگانے والے دس طالبعلموں کو ہاسٹل سے معطل کر دیا گیا ہے۔ انتظامیہ کے مطابق، ان طالبعلموں نے ‘سوری-سوری ساورکر، آر ایس ایس کا چھوٹا بندر، بھاگ نریندر بھاگ نریندر’کے نعرے لگائے تھے، جبکہ طلبہ نے کہا کہ انہوں نے ‘بال نریندر، بال نریندر’کہا تھا۔

یونیورسٹی کے مطابق، ان نعروں نے ‘معزز شخصیات’ کے وقار کو مجروح کیا ہے۔ (السٹریشن: دی وائر )
نئی دہلی: مہاتما گاندھی انٹرنیشنل ہندی یونیورسٹی ایک بار پھر تنازعات میں گھری ہوئی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی اور ونائک دامودر ساورکر کے خلاف طنزیہ نعرے لگانے پر دس طالبعلموں کو ہاسٹل سے معطل کر دیا گیا ہے۔یہ طالبعلم دلت اور پسماندہ طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔
یونیورسٹی کے مطابق، ان نعروں سے ‘معزز شخصیات کے وقار کو پامال’ کیا گیا ہے۔
یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا جب 6 نومبر کوجے این یو طلبہ یونین کے انتخابات میں اے بی وی پی (اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد) کی شکست ہوئی اور بائیں بازو کے اتحاد کی جیت کے بعد وردھا یونیورسٹی کے کچھ طالبعلموں نے کیمپس میں نعرے بازی کی، اور ‘سوری-سوری ساورکر’ اور ‘بھاگ نریندر’ کے نعرے لگائے۔
یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہے اور اے آئی ایس ایف (آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن) سے وابستہ چندن سروج کہتے ہیں،’ساورکر کے نظریات کو ماننے والے اے بی وی پی کے لیے ‘سوری-سوری ساورکر’ کا نعرہ ناقابل برداشت ثابت ہوا ۔
اگلے ہی دن اے بی وی پی نے یونیورسٹی میں ایڈمنسٹریشن بلڈنگ کا گھیراؤ کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ساورکر جیسے ‘مہاپُرش’ کی توہین کی گئی ہے۔

آر ایس ایس کے ترجمان ترون بھارت (بائیں) میں شائع ہوئی واقعے کی خبر، یونیورسٹی کے اندر (دائیں) احتجاج کر تے اے بی وی پی کے اراکین ۔
انتظامیہ نے 7 نومبر کو چھ طالبعلم (کوشل کمار، کرن ویر سنگھ، برجیش سونکر، راکیش اہیروار، اشونی سونکر، اور دھننجے سنگھ) کو وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیا۔ ان طالبعلموں میں چار درج فہرست ذات(ایس سی) اور دو دیگر پسماندہ طبقے(او بی سی) کے طالبعلم شامل تھے۔
نوٹس میں کہا گیا ہے کہ ’ یونیورسٹی انتظامیہ کے نوٹس میں آیا ہے کہ 6 نومبر 2025 کی رات کو یونیورسٹی ہاسٹل کے احاطے میں آپ نے غیر مجاز طریقے سے اور انتظامیہ کو بتائے بغیر طلبہ کو جمع کیا، جلوس نکالا اور نعرے لگائے، جس میں’مہاپُرشوں کے وقار کو مجروح کرنے والے نعرے بھی شامل تھے۔آپ کے اس اقدام سے یونیورسٹی کا پرامن ماحول متاثرہوا ہے۔ کیمپس میں غیر ضروری تناؤ کا ماحول بنا ہے۔’
نوٹس میں ان طلبہ سے تین دن کے اندر وضاحت طلب کی گئی تھی۔

طلبہ کو بھیجا گیا نوٹس۔
دی وائر سے بات کرتے ہوئے کانگریس کے طلبہ ونگ این ایس یو آئی سے وابستہ دھننجے نے کہا، ‘ہم نے کوئی جلوس نہیں نکالا، ہم تو ٹہلنےنکلے تھے۔ ہم دس -پندرہ طالبعلم رہے ہوں گے۔ اس دوران ہم نے انقلاب زندہ باد، بھگت سنگھ زندہ باد، اور جئے بھیم جیسے نعرے لگائے۔’
نوٹس کے جواب میں طالبعلموں نے 10 نومبر کو پراکٹر کو لکھا، ‘آپ کے مذکورہ نکات کے حوالے سے ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہم نے نہ تو کسی مہاپُرش کی توہین کی ہے، نہ ہی کوئی تضحیک آمیز نعرے لگائے ہیں، نہ ہی کوئی اجتماع منعقد کیا ہے۔ لفظ اجتماع غلط ہے کیونکہ ہم چند ہی چلتے پھرتے شامل تھے۔’

دھننجے سنگھ کی طرف سے دیے گئے شوکاز نوٹس کا جواب۔
لیکن یونیورسٹی انتظامیہ اس جواب سے مطمئن نہیں ہوئی اور 11 نومبر کو ان چھ طالبعلموں کے ساتھ چار دیگر (دھرمیندر کمار، منیش چودھری، ستیندر رائے اور ابھیجیت کمار) کو ان کے ہاسٹل سے 14 دنوں کے لیے معطل کر دیا۔ تمام دس طلباء کا تعلق دلت اور پسماندہ طبقے سے ہے۔
ڈین (پراکٹر) راکیش کمار مشرا کی جانب سے جاری کردہ اس حکم نامے میں لکھا گیا ہے، ‘ معطلی کی مدت کے دوران ہاسٹل کے احاطے میں ان طالبعلموں کاداخلہ مکمل طور پر ممنوع ہوگا۔’
اس حکم نامے سے پہلے ہی یونیورسٹی انتظامیہ نے 10 نومبر کو رام نگر پولیس اسٹیشن میں چھ طلباء کے خلاف این سی آر (نان کوگنائزیبل رپورٹ) درج کرا دی تھی اور پولیس سے کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔

نان کوگنائزیبل رپورٹ کی بنیاد پر کسی کو گرفتار کرنے سے پہلے پولیس کو عدالت سے اجازت لینی پڑتی ہے۔
دائر رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ 6 نومبر کو یونیورسٹی کے بورڈ آف پراکٹرز نے میٹنگ کی اور سی سی ٹی وی فوٹیج کا جائزہ لیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے،’ویڈیو میں کچھ طالبعلموں کو ‘سوری-سوری ساورکر، آر ایس ایس کا چھوٹا بندر، بھاگ نریندر بھاگ’ جیسے نعرے لگاتے ہوئے سنا گیا۔
یونیورسٹی نے پولیس کو بتایا کہ طلباء نے ان کے خلاف نعرے لگا کر ‘معزز شخصیات کی توہین اور ان کے وقار کو مجروح ‘کیا ہے۔ تاہم، طلباء نے دی وائر کو بتایا کہ انہوں نے ‘بھاگ نریندر، بھاگ نریندر’ نہیں بلکہ ‘بال نریندر، بال نریندر’کے نعرے لگائے۔
اے بی وی پی کا موقف جاننے کے لیے ہم نے ان کی تنظیم کی یونیورسٹی یونٹ کی وزیر ویدیکا مشرا سے رابطہ کیا، لیکن انھوں نے کچھ بھی کہنے سے انکار کردیا۔

معطل کیے گئے دس طلبہ میں سے نو اس تصویر میں ہیں۔
دی وائر سے بات کرتے ہوئے یونیورسٹی کے رجسٹرار قادر نواز خان نے کہا، ‘پولیس میں جانا پڑا، بچوں نے مجبور کیا۔آپ نعروں کی زبان دیکھیے، دوسری بات کہ انہوں نے آدھی رات تک نعرے لگا کر ہاسٹل کا ماحول خراب کیا۔ انہوں نے اس طرح کی ریلی کی کوئی اجازت نہیں لی تھی۔ یہاں کا ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اس کو ہی روکنے کے لیے یہ کارروائی کی گئی ہے۔’
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا’سوری-سوری ساورکر’کا نعرہ اس طرح کی کارروائی کے لیےکافی ہے، تو رجسٹرار نے کہا، ‘اس کے آگے والا نعرہ بھی آپ نے پڑھا ہوگا۔’
کیا یونیورسٹی انتظامیہ کو ‘بھاگ نریندر، بھاگ نریندر’ پر اعتراض ہے؟ رجسٹرار نے جواب دیا، ‘ بات پسندآنے اور نہیں آنے کی نہیں ہے۔ بات ہے یونیورسٹی کے اکیڈمک ماحول کو خراب کرنے کی۔’
چندن سروج کہتے ہیں،’یونیورسٹی میں ایک جابرانہ ماحول بن گیا ہے جہاں ‘جئے شری رام’ کے علاوہ کوئی نعرہ برداشت نہیں کیا جاتا۔ اگر کوئی طالبعلم ‘جئے بھیم،’ ‘لال سلام، یا ‘جئے سمویدھان’ کا نعرہ لگاتا ہے، تو وہ فوراً انتظامیہ کے نشانے پر آجاتا ہے۔’
وہ مزید کہتے ہیں، ‘سنگھ کی شاکھا وردھا یونیورسٹی کے کیمپس میں باقاعدگی سے منعقد ہوتی ہے۔’
جبکہ رجسٹرار کا دعویٰ ہے کہ ‘یونیورسٹی میں کوئی بھی طلبہ تنظیم خواہ اس کا کوئی بھی نظریہ ہو بغیر اجازت کے جلسے، جلوس وغیرہ کا انعقاد نہیں کر سکتا۔’
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا یونیورسٹی میں آر ایس ایس کی شاکھا منعقد ہوتی ہے، تو رجسٹرار نے کہا، ‘مجھے تصدیق کرنی پڑے گی، مجھے ریکارڈ چیک کرنا پڑے گا۔’ جب ہم نے پوچھا کہ کیا یونیورسٹی انتظامیہ کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ کیمپس میں آر ایس ایس کی شاکھا منعقد کی جا رہی ہے، تو رجسٹرار نے کہا، ‘میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں… میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ (انتظامیہ) آگاہ ہے یا نہیں۔ مجھے ریکارڈ چیک کرنا پڑے گا۔’

یونیورسٹی کے رجسٹرار قادر نواز خان(تصویر بہ شکریہ: ہندیوشواڈاٹ او آر جی)
طلباء نے بتایا کہ یونیورسٹی ناگپور کے قریب واقع ہے اور اس علاقے میں سنگھ پریوار کا دبدبہ ہے۔ اس کے نتیجے میں بہت سے طلباء کو دباؤ اور کارروائی کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔
