الیکشن نامہ

بہار کی شکست: کانگریس نے 61 سیٹوں پر امیدوار اتارے، صرف 6 پر جیت

کانگریس کی ناکامی کو اس طرح دیکھیے کہ پارٹی نے اس سال دلت رہنما راجیش کمار کو بہار کا ریاستی صدر مقرر کیا تھا، پارٹی کے قومی صدر بھی دلت ہیں۔ یہ دونوں مل کر بہار کی دلت برادری کو اپنی طرف کر سکتے تھے، لیکن پارٹی کی انتخابی مہم پوری طرح راہل گاندھی کے اردگرد گھومتی رہی۔

(تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: ملک کی سب سے پرانی سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس کو بہار میں گزشتہ 20 سالوں میں سب سے بری شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کانگریس نے کل 61 اسمبلی سیٹوں پر انتخاب لڑا تھا، لیکن اس کے امیدواروں نے صرف چھ پر کامیابی حاصل کی۔ 9.8فیصد کا یہ اسٹرائیک ریٹ کسی بھی بڑی پارٹی کی شکست کا بڑا اشاریہ ہے۔

سال 2020میں کانگریس نے 70 سیٹوں پر مقابلہ کیا اور 19 پر کامیابی حاصل کی۔ اس بار نہ صرف جیتنے والوں کی تعداد کم ہوئی ہے، بلکہ ان کے ووٹ فیصد میں بھی کمی آئی ہے۔

کانگریس پارٹی کی یہ عبرتناک شکست محض نمبروں کا کھیل نہیں ہے۔ یہ پارٹی کی تنظیمی کمزوریوں، اسٹریٹجک ناکامیوں اور زمین سے علیحدگی کا واضح ثبوت ہے۔

کانگریس جو چھ سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوئی — کشن گنج (قمرالہدیٰ)، منیہاری (منوہر سنگھ)، فاربس گنج (منوج بسواس)، والمیکی نگر (سریندر پرساد)، چنپٹیا (ابھیشیک رنجن) اور ارریہ (عابد الرحمن) — وہ یا تو اقلیتی اکثریتی ہیں یا وہ علاقے جہاں روایتی طور پر کانگریس مضبوط تھی۔ پارٹی نئی زمین تیار کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی۔

دلت صدر کی تقرری: کھوکھلی حکمت عملی

اس سال مارچ میں کانگریس پارٹی نے ایک اہم فیصلہ کیا۔ پارٹی نے دلت رہنما راجیش کمار کو اپنی بہار یونٹ کا سربراہ مقرر کیا۔ یہ پارٹی کے لیے ایک اسٹریٹجک قدم تھا۔ بہار کی آبادی کا تقریباً 19.65 فیصد دلت ہیں۔ ایک دلت صدر کی تقرری کرکے کانگریس اس برادری کو پارٹی کی طرف راغب کرنا چاہتی تھی۔

لیکن یہاں پارٹی قیادت کی بری طرح ناکام رہی۔ پارٹی کے صدر ملیکارجن کھڑگے، جو خود دلت برادری سے تعلق رکھتے ہیں، کو بہار کے کسی بھی دلت اکثریت والے یا انتہائی پسماندہ طبقے (ای بی سی) حلقے میں بڑے پیمانے پر انتخابی مہم کے لیے نہیں بھیجا گیا۔ کھڑگے کا بہار کا دورہ نہ صرف محدود تھا، بلکہ اس میں کسی واضح اسٹریٹجک مقصد کی بھی کمی تھی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایک دلت صدر کا پارٹی سطح پر دلت طبقے کو جیتنے کے لیے مؤثر طریقے سے استعمال نہیں کیا جا رہا ہے تو اس کا کیا فائدہ؟

اس الیکشن میں خود کانگریس کے ریاستی صدر راجیش کمار کو عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ اپنی ہی سیٹ کٹمبا سے ہار گئے۔ ہندوستان عوام مورچہ (ہم) کے  لالن رام نے انہیں 21,525 ووٹوں کے فرق سے شکست دی۔

کانگریس دلتوں کےلیے کام کرنے کا دعویٰ کرتی ہے، لیکن اقتداراور فیصلہ سازی میں ان کا کردار محدود ہے۔ راجیش کمار کی تقرری کے بعد بھی پارٹی کے اہم فیصلے دہلی سے ہوئے۔ بہار کی مقامی سیاست کو سمجھنے والے لیڈر پارٹی کے اندر ہی نظر انداز کر دیے گئے۔

اونچی ذات کے درمیان زمین کھوئی اور دلت-پسماندہ ذاتوں کو جوڑنے میں ناکام رہی

کانگریس کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس نے اپنی روایتی نام نہاد اونچی ذات کے ووٹنگ کی بنیاد کو پوری طرح سے کھو دیا ہے۔ بہار میں، بھومیہار، کائستھ، اور دیگر اعلیٰ ذاتیں روایتی طور پر کانگریس کے ساتھ منسلک  رہی ہیں۔ لیکن 1990 کی دہائی  کے بعد سے جب بی جے پی نے راشٹرواد کا جھنڈا اٹھایا ، تب سے یہ  تمام برادریاں بی جے پی کی طرف منتقل ہوگئیں۔

کانگریس پارٹی نے ان برادریوں کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی اور تاریخی طور پر دلت اور پسماندہ ذاتوں (اہیر، یادو، کوئری، مہادلت وغیرہ) پر توجہ مرکوز کی، لیکن یہ حکمت عملی ناکام رہی۔

صرف نظریات اور نعرے ان ووٹروں کو جیتنے کے لیے کافی نہیں ہیں جو تاریخی طور پر دلت اور پسماندہ ذاتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ کانگریس نے ابھی تک کچھ ایسا کرکے نہیں دکھایا، جو ان برادریوں کا اعتماد جیت سکے۔ انتخابی مہم کے دوران بھی پارٹی نے دلت برادری پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے کوئی وعدہ نہیں کیا۔ نہ ہی وہ  یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہی کہ این ڈی اے کی حکومت ان پسماندہ برادریوں کو کیانقصان پہنچا سکتی ہے۔

زمین سے علیحدگی: 61 نشستوں کی بڑی غلطی

کانگریس کی سب سے بڑی اسٹریٹجک غلطی 61 سیٹوں پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ تھا۔ پارٹی کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ اس کی اصل طاقت صرف 4-6 سیٹوں تک محدود تھی۔ تاہم، مہاگٹھ بندھن کے اندر اپنی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لیے کانگریس نے 70 سیٹوں کا مطالبہ کیا، بالآخر 61 پر طے ہوا۔ سیٹوں کی تقسیم کے اعلان میں تقریباً دو ہفتے کی تاخیر ہوئی، وہ بھی انتخابی مہم کے قیمتی وقت کے دوران ۔ تاہم، نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ کانگریس کی ضد بے بنیاد تھی۔ یہ پارٹی کی طرف سے ایک بڑی غلطی تھی۔

کانگریس کی اس 55 سیٹوں کی’اوور کمٹمنٹ’ کا مطلب یہ تھا کہ پارٹی کے محدود وسائل پوری طرح منتشرتھے۔ کسی ایک سیٹ پر مرکوز انتخابی مہم ناممکن تھی۔ کانگریس کی 9.8 فیصد کامیابی کی شرح بہار میں کسی بھی بڑی سیاسی پارٹی کے مقابلے میں سب سے کم ہے۔

تنظیم کی کمزوری: زمین پر کوئی موجودگی نہیں

بہار میں کانگریس کے لیے ایک اور بڑا مسئلہ اس کا بالکل کمزور تنظیمی ڈھانچہ ہے۔ کانگریس کے پاس اسمبلی حلقوں میں ضروری کارکن نہیں ہیں۔ 2020 میں بھی یہ ایک مسئلہ تھا، لیکن 2025 میں یہ اور بھی سنگین ہو گیا۔ ضلع، بلاک اور پنچایت کی سطح پر پارٹی کارکنوں کی تعداد انتہائی محدود ہے۔

اس کے برعکس بی جے پی اور جے ڈی یو کے پاس منظم کارکنوں کی ایک بڑی فوج ہے۔ دونوں پارٹیاں براہ راست لوگوں کے گھروں تک پہنچتی ہیں، ان کے مسائل  کوسنتی ہیں اور حل کرنے کا وعدہ کرتی ہیں۔ کانگریس نے اس بنیادی سیاسی نقطہ نظر کو اہمیت نہیں دی۔

راہل گاندھی کی ‘ووٹر ادھیکار یاترا’

اگست 2025 میں، راہل گاندھی نے ‘ووٹرادھیکار یاترا’ کا آغاز کیا، جس میں 1,300 کلومیٹر سے زیادہ کا فاصلہ طے کیا گیا اور 23 اضلاع میں 16 دنوں تک قیام کیا۔ ابتدائی طور پر یہ ایک اچھی شروعات دکھائی دی ، راہل نے لوگوں سے براہ راست ملاقات کی اور ان کے مسائل سنے۔ تاہم اس یاتراکے بعد راہل گاندھی بہار کی سیاست سے عملی طور پر غائب ہو گئے۔ انہوں نے انتخابی مہم کے دوران بھی کوئی اہم کردار ادا نہیں کیا۔

مہاگٹھ بندھن کے اتحادیوں، خاص طور پر آر جے ڈی اور بائیں بازو کی جماعتوں نے شکایت کی کہ کانگریس کی اعلیٰ قیادت انتخابات میں سرگرم نہیں ہے۔ جبکہ گٹھ بندھن کو 122 سیٹیں جیتنی تھیں، آر جے ڈی کو اکیلے کانگریس کا بوجھ اٹھانا پڑا۔ آر جے ڈی کو صرف 25 سیٹیں مل سکیں۔ یہ ناکامی جزوی طور پر کانگریس کی بے عملی کی وجہ سے تھی۔

سال  2020 سے بھی بدتر کارکردگی

سال 2020کے انتخابات میں کانگریس نے 70 میں سے 19 سیٹیں جیتی تھیں۔ 27فیصد کی کامیابی کی شرح کو بھی ناقص سمجھا گیا تھا، لیکن 2025 میں یہ گر کر 9.8فیصد رہ گئی۔ یہ صرف ایک گراوٹ  نہیں ہے، بلکہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کانگریس کی پوزیشن تیزی سے خراب ہو رہی ہے۔

سال1985 تک بہار میں کانگریس مضبوط دکھائی دیتی تھی۔ تاہم، منڈل کے عروج اور سماجی انصاف کا وعدہ کرنے والی نئی پارٹیوں کے درمیان کانگریس اپنی زمین بچانے میں ناکام رہی۔ منڈل تحریک کے بعد بہار میں بدلتے ہوئے ماحول کو سمجھنے میں کانگریس بھی ناکام رہی۔ اس کے نتیجے میں آج کانگریس ریاست کی سب سے کمزور پارٹی بن گئی ہے۔