پورے بہار میں سیلاب سے اب تک 72 افراد کی موت ہو چکی ہے ۔
اس وقت سیمانچل خاص طور پر ارریہ، فاربس گنج، جوگبنی، پورنیہ، کشن گنج کا پورا علاقہ زبردست تباہی کی زد میں ہے۔نیپال سے پانی چھوڑے جانے اور مسلسل موسلادھار بارش سے یہ صورت حال ہوئی ہے۔ یہ دس سالہ سوشاسن بابو کی پول کھولنے کیلئے کافی ہے، گزشتہ 12 سال سے زائد اپنی حکمرانی کے دوران انہوں نے بہار کی کتنی ترقی کی ہے۔ گجرات کی طرح وہ بہار کو بھی ہوا کی دوش پر ترقی دے رہے ہیں۔ جہاں نقل مکانی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ بہار کے گاؤں کے گاؤں نوجوانوں سے خالی ہے، پورے میں ہندوستان میں مزدور فراہم کرنے والا بہار کو مفلسی میں اول مقام حاصل ہے، ڈرامہ بازی بہار حکومت کی جبلت ہے۔ بہار میں خاص طور پر سینچائی اور آبپاشی کے لئے سیمانچل میں نہروں کا جال بنایا گیا تھا تاکہ کھیتی کے ذریعہ کسان اپنی مالی کو بہتر کرسکیں لیکن گزشتہ دس پندرہ برسوں سے نہر کی صفائی نہیں ہوئی، ریت اور گاد کی وجہ سے نہر کی گہرائی کم ہوتی گئی۔ صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ تھوڑا بھی پانی آتا ہے تو نہر میں ابال میں آجاتا ہے۔ بیرپوربھیم نگر بیراج سے منسلک کئی بڑی نہروں کوجگہ جگہ کاٹا گیا گیا ہے تاکہ تباہی کم ہوسکے اور دوسرے خطے کو بچایا جاسکے۔ صنعت کاری کے نا م پر کوئی فیکٹری نہیں لگی۔پھر بھی ’سوشاسن بابو‘ اپنے آپ کو کہلاتے رہے۔ اس سے زیادہ گھٹیا حکمرانی کی اور کیا مثال ہوسکتی ہے۔
سیمانچل کا خطہ چھ سات دن سے ڈوبا ہوا ہے اور اب تک نہ این ڈی آر ایف اور ایس ڈی آر ایف کی ٹیم وہاں پہنچی ہے۔ پوری طرح یہ علاقہ بے یارو مددگار ہے۔ انتظامیہ بالکل سوئی ہوئی ہے۔ ریاستی حکومت ہی نہیں مرکزی حکومت سوئی پڑی ہوئی ہے۔وزیر داخلہ راج ناتھ بھی بے بس نظر آرہے ہیں۔ انہوں نے کہہ دیا ہے کہ جوکرے گا ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ہی کرے گا اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا کہنا ہے کہ جب ہمارے پاس آئے گا تو ہم تقسیم کریں گے۔ ہمارے پاس جتنے وسائل ہوں گے اسی کا استعمال کریں گے۔یہ بارڈر کا علاقہ ہے یہاں سب کی نظر رہتی ہے لیکن جب کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ سب کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔خفیہ ایجنسیوں کو وہاں کی سرگرمی نظر آتی لیکن تباہ حال لوگوں کے بارے میں وہ کوئی رپورٹ حکومت کو کیوں نہیں پیش کرتے کہ یہاں کے لوگ کس قدر جانوروں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔
مرکزی ،ریاستی حکومت اور انتظامیہ کا رویہ دیکھ کر ایسا محسوس ہورہا ہے کہ جیسے سیمانچل ہندوستان کا حصہ نہ ہوکر پاکستان کا حصہ ہو۔ پاکستان کے زلزلے پر بھی حکومت ہند امداد کے ساتھ راحت رساں ٹیم بھیجتی ہے لیکن سیمانچل کے خطے میں اب تک ایسی کوئی سرگرمی نظر نہیں آرہی ہے۔فاربس گنج اور جوگبنی سیلاب سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ ہے۔ فاربس گنج تک روڈ ٹرانسپورٹ کے ذریعہ پٹنہ سے چھ سات گھنٹے کے اندر پہنچا جاسکتا ہے لیکن کل (16اگست) تک کوئی امدادی ٹیم نہیں پہنچی ہے ۔اس قدر بے حسی کا نظارہ شاید ہی کسی ملک میں دیکھا گیا ہوگا۔ ہمیشہ سے ہی تعصب اور امتیاز کا شکار سیمانچل کا خطہ صورت حال اس قدر بھیانک ہے کہ کوئی میڈیا بھی اب تک نہیں پہنچا ہے۔ پشپک ویمان کو ڈھونڈنے والا ہنڈی میڈیا نے اس خطہ کو پوری طرح نظرانداز کردیا ہے۔
سیلاب متاثرین کے مطابق چھ سات دن ہوگئے، وہاں کے لوگ دانے دانے کے محتاج ہوگئے ہیں۔ مویشی کا اور بھی برا حال ہے۔ مویشی چارہ نہ ملنے کی وجہ سے مرنے کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ مویشی بھوک کی وجہ سے عجیب و غریب آواز نکال رہے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں اور بھی پریشانی میں مبتلا ہورہے ہیں۔ اپنی زندگی کا سہارا کو مرتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔سڑکوں پر آٹھ سے دس فٹ پانی بہہ رہا ہے۔ پانی اس طرح جلدی آیا کہ لوگوں کو سامان نکالنے کا موقع تک نہیں ملا۔ بہ مشکل اپنی جان بچاکر گھر سے نکلنے میں کامیاب ہوئے۔فاربس گنج، نرپت گنج، ارریہ، کشن گنج پورنیہ اور دیگر مقامات پر نہر کے پشتے اور نیشنل ہائی وے 57 پر لوگ اپنے مویشیوں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ پولیس ان لوگوں کی مدد کرنے کے بجائے ان لوگوں سے روڈ خالی کرنے کے لئے اپنے دبدبے کا استعمال کر رہی ہے۔ اگرچہ متعدد اموات ہوچکی ہیں۔ صحیح تعداد اور صحیح صورت حال کا پتہ نہیں چل رہا ہے اور اطلاع مل بھی کیسے سکتی ہے جب وہاں سے تما م لوگوں کا رابطہ ٹوٹا ہوا ہے۔بہت سے ایسے علاقے ہیں جو پوری طرح کٹ گئے ہیں۔ ان کا رابطہ دنیا سے کٹ گیا ہے۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے سب موبائل فون بند ہیں کسی سے رابطہ نہیں ہوپارہاہے۔ جن کوبھی فون کیا جاتا ہے ان فون سوئچ آف ملتا ہے۔پانی کا بہاؤاتنا تیز ہے کہ پھوس کے بنے گھروں، جانوروں اور دیگر چیزوں کو بہاکر لے جارہا ہے۔ وہاں کے ریلوے اسٹیشن پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ بہار سے باہر رہنے والے لوگوں کی تکلیف بھی کم نہیں ہے۔ گھروں سے رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے پریشان حال ہیں۔ وہ اپنے گھر والوں کا حال چال جاننا چاہتے ہیں۔ مگر کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے۔
سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ نتیش کمار کے ہوائی سروے کے بعد بھی ٹیم بھیجی نہیں جارہی ہے۔ گرچہ علاقے میں پانی کم ہونا شروع ہوگیا ہے لیکن بہت سے لوگوں کی کھانے نہ کھانے کی وجہ سے موت ہوچکی ہوگی۔ گھروں میں پانی بھر جانے کی وجہ سے اناج سڑ گیا ہے۔ فون پر بات کرتے ہوئے لوگوں نے بتایا کہ پانی اچانک آگیا ہے اور گھروں سے سامان نکالنے کا وقت بھی نہیں مل سکا۔لوگوں نے بتایا کہ ان لوگوں نے مویشی کے ساتھ فوری طور پر اونچے مقامات پر پناہ لی اور حکومت کی راحت رساں ٹیم کا انتظار کرتے رہے۔مگر اب تک حکومت کی طرف سے کوئی مدد نہیں آئی ہے۔فاربس گنج کے لوگوں نے بتایا کہ فاربس گنج بلاک کی چہادر دیوار سے اوپر سے پانی بہہ رہا تھا۔ بلاک سے آدھے کلو میٹر سے بھی کم دوری پر فورلین ہے جہاں پر لوگوں نے مویشی کے ساتھ ڈیرہ ڈال رکھا ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ تین چار دن ہوگئے مگر اب تک ان کی خیرو خبر لینے کے لئے کوئی نہیں آیا ہے۔ جب کہ بی ڈی او اور ایس ڈی او ، سی او آفس وہاں سے بہ مشکل آدھا کلو میٹر بھی نہیں ہے۔فاربس بلاک سے متصل گاؤں بھجن پور پوری طرح سیلاب میں ڈوب چکا ہے اور یہ گاؤں چاروں طرف سے باندھ سے گھرا ہوا ہے لیکن جب پانی داخل ہوجاتا ہے تو نکلتا بھی مشکل سے ہے۔ وہاں کے لوگوں نے الزام لگایا کہ مصیبت کی اس گھڑی میں مقامی انتظامیہ اور پولیس کا رویہ متعصبانہ ہے۔ مدد کرنے کے بجائے طرح طرح لوگوں کو پریشان کرنے پر لگے ہیں۔ راحت رساں اور این ڈی آر ایف اور ایس ڈی آر ایف کی ٹیموں کے نہ پہنچنے کے خلاف وہاں کے لوگوں نے انتظامیہ کی توجہ اپنی جانب مرکوز کرنے کے لئے آج روڈ کو جام کردیا۔ وہاں اب تک کوئی امدادی سامان ،نہ میڈیا اور نہ ہی دیگر امدادی گروپ وہاں پہنچا ہے۔
بارش شروع ہونے سے پہلے حکومت نے دعوی کیاتھا کہ سیلاب سے نمٹنے کے لئے ان کی پوری تیاری ہے۔ نتیش کمار نئی حکومت بنانے اور جوڑتوڑ کرکے اپنی حکومت بچانے میں پوری طرح مشغول رہے جس کی وجہ سے سیلاب پر کوئی توجہ نہیں دے پا رہے ہیں۔ نتیش کمار کے استعفی پر ٹوئٹ کرکے مبارکباد دینے والے مودی کا کوئی ٹوئٹ سامنے نہیں آیا ہے۔ یہ دنیا میں شاید پہلا موقع تھا استعفی دینے پر مبارکباد پیش کی گئی ہو۔ بہار کو ملنے والاسوا لاکھ کا پیکج کا بھی اب تک کوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔ مرکزی حکومت نے بھی اب تک کوئی فنڈ جاری نہیں کیا ہے۔ بہار حکومت تو میڈیا کے ذریعہ کام کررہی ہے اور میڈیا میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے۔ رضاکار تنظیموں پر ذمہ داری ہے وہ ان مساعد حالات میں سیمانچل کے لوگوں کی تکلیف کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ جس سے جو بھی ممکن ہو وہ ضرور کریں۔ سیلاب کی مصیبت ایسی ہوتی ہے کہ انسان کے پاس رہتے ہوئے بھی وہ کچھ نہیں کرپاتا۔ مکان کی تباہی کا ایک مسئلہ ہوتا ہے۔ فصلیں تباہ ہوچکی ہوتی ہیں۔ آمدنی کے ذرائع ختم ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے متاثرین برسوں کو نارمل حالات کی طرف نہیں واپس آپاتے۔
پانی اترنے کے بعد بھی لوگوں کے مسائل کم نہیں ہوتے، کھانے پینے کی اشیاء سمیت تمام چیزیں سڑ چکی ہوتی ہیں۔ اس وقت وہاں کے لوگ سخت پریشانیوں کے دوچار ہیں۔بہار میں اس وقت سیلاب کی تباہ کاری جاری ہے ۔ لوگوں کی پریشانی کایہ عالم ہے کہ کوئی خشک جگہ نہیں ہے جہاں وہ دو وقت روٹی پکاسکیں۔ جانورچارہ کے لئے ترس رہے ہیں۔ لوگوں تک ریلف نہیں پہنچ رہا ہے۔ چندہ خور علماء پیسہ اکٹھا کرنے میں مصروف ہیں۔ بڑے بڑے اشتہارات کے ذریعہ اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اس وقت سارے لوگ منظرسے غائب ہیں۔ کوئی تنظیم ریلیف کام میں نظر نہیں آرہی ہے۔ سیلاب اور آفات سماوی ایسی تنظیموں کے بہترین موسم ہوتے ہیں۔ جن کے دوران وہ کروڑ پتی بن جاتے ہیں اور روزگار کا اچھا ذریعہ پیدا ہوجاتا ہے۔ سیمانچل کے خطے کو بیشتر تنظیموں، مدرسوں اور علماء نے غربت کے نام پر کیش کیا ہے۔ کروڑ روپے کا فنڈ غربت دور کرنے ، جہالت ختم کرنے اور بنیادی سہولت کی دستیابی کے نام پر حاصل کیا ہے ۔ان لوگوں کی زمین جائداد میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ وہ کروڑ پتی بن کر لگزری گاڑیوں میں گھومتے ہیں اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ عیش کی زندگی گزار تے ہیں لیکن سیمانچل خطے کی حالت آج بھی جوں کی توں ہے۔سیلاب تباہ کاریوں نے علاقے کے لوگوں کا بے حال کردیا ہے۔ اس مصیبت کی گھڑی میں تمام تنظیموں اور بالخصوص مسلم تنظیموں کو چاہئے کہ وہ آگے آئیں اور ملک کے سیلاب زدہ علاقوں، خصوصاً بہار اور سیمانچل کے خطے کے لئے کام کریں۔ اس وقت ان کو ریلیف کی سخت ضروری ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں.)
Categories: فکر و نظر