بھیڑ کو سیاست اور اقتدار مل کر پیدا کرتے ہیں۔ انہیں ہدایت دیتے ہیں۔ پھر بھیڑ ان کے قابو سے بھی باہر نکل جاتی ہے۔ وہ کسی کی نہیں سنتی۔
29 ستمبر 2006 کو مہاراشٹر کے بھنڈارا ضلعے کے کھیرلانجی میں زمین کے تنازعہ میں بھیالال بھوت مانگے کے گھر پر 50 لوگوں نے حملہ کیا۔ فیملی کے چار ممبروں کو کھینچا۔ ان کی بیوی اور بیٹی کو ننگی حالت میں سڑک پر گھمایا۔ عصمت دری کی اور بے رحمی سے ان کا قتل کر دیا۔جون 2017 میں 16 سال کا جنید خان ٹرین سے سفر کر رہا تھا۔ بلّبھ گڑھ میں سیٹ کو لےکر ہوئے تنازعہ کے بعد افواہ پھیلا دی گئی کہ ان کے پاس گائے کا گوشت ہے۔ اس کے بعد بھیڑ نے جنید کا پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا۔جھارکھنڈ کے چترا ضلع میں مارچ 2016 میں 32 سال کے مظلوم خان اور ان کے 15 سال کے بیٹے امتیاز خان کو ‘ مبینہ گورکْشکوں ‘ نے مارکر لٹکا دیا۔ افواہ تھی کہ وہ گائے کی نسل (کے جانور) کی اسمگلنگ کر رہے ہیں۔ قتل کے بعد پتہ چلا کہ وہ اپنے آٹھ بیلوں کو بیچنے کے لئے مقامی مویشی بازار جا رہے تھے۔دلّی میں اسی سال ایک ای- رکشہ ڈرائیور روندر کمار نے نشے میں دھت دو نوجوانوں کو کھلے میں پیشاب کرنے سے روکا۔ شام کو اس کے جواب میں 20 لوگ آئے اور روندر کو پتھروں اینٹوں سے مارا۔ روندر کی موت ہو گئی۔
مدھیہ پردیش میں راج پوت فیملی کے ساتھ رہنے والے کتّے’ شیرو ‘ نے ایک دلت خاتون کے ہاتھ سے روٹی کھا لی۔ اس پر کتّے کو اچھوت قرار دے دیا گیا، پنچائت بیٹھی اور اس خاتون پر 15 ہزار روپیے کا جرمانہ لگایا۔ ذات کے نام پر بھیڑ نے انسانی عظمت کو پوری طرح سے خارج کر دیا۔دیماپور (نگالینڈ) میں 2015 میں سات آٹھ ہزار لوگوں کی بھیڑ نے مرکزی جیل پر حملہ کیا۔ عصمت دری کے معاملہ میں وہاں بند سید فرید خان نام کے شخص کو باہر نکالا۔ اس کو ننگا کیا، پتھر مارے، اٹھاکر پٹکا، قریب 7 کلومیٹر تک کھینچا، موٹرسائیکل سے باندھ کر گھسیٹا۔ پھر اس کی لاش کی واچ ٹاور پر نمائش کی۔
مہاراشٹر میں سال 2015 میں گائے کے گوشت پر پابندی لگائی گئی۔ اس کے بعد سے ملک میں گوشت خوری اور گو کشی کے نام پر تشدد کا ماحول بنانے کا پیغام بھی دے دیا گیا۔ اس مدعے کو اتنا ابھارا گیا کہ ملک کے حقیقی اہم لوگوں، اداروں اورحکومتوں نے بےروزگاری، بھوک مری، سماجی اقتصادی غیر برابری، زراعت کی مصیبت کو جیلوں میں ڈال دیا۔ گائے بچانے کے نام پر کچھ گروہوں سے ‘ سڑک پر انصاف اور قتل ‘ کا کام خود ہاتھ میں لے لیا۔ حکومتیں خاموش رہیں اور یہ گروہ بڑھتے گئے۔ ان کی طاقت بڑھتی گئی۔ بھیڑ 1 یا 2 یا 5 لوگوں کا قتل کرتی ہے، لیکن وہ وسیع سماج، نوجوانوں، بچّوں اور مزاحمت کرنے والے گروہوں کو اشارہ دے دیتی ہے۔ کسی ایک کا قتل لاکھوں زندہ جسموں میں موجود جرات کا قتل کر دیتی ہے۔
دادری میں 28 ستمبر 2015 کو محمّد اخلاق نام کے شخص کو بھیڑ نے قتل کر دیا۔ ان کو شک تھا کہ اخلاق کے یہاں گائے کا گوشت رکھا ہوا ہے۔ کوئی قانون نہیں، کوئی عدالت نہیں، بس بھیڑ نے سزائے موت طئے کر دی۔مارچ 2016 میں جھارکھنڈ کے لاتیہار ضلعے میں مویشی بازار میں جا رہے دو مسلم مویشی کاروباریوں کو بھیڑ نے مارا پیٹا اور ان کا قتل کر دیا۔22 جون 2017 کو سرینگر میں پولیس ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ایوب پنڈت کو نؤہٹّا جامع مسجد کے باہر قتل کر دیا گیا۔ کئی باتیں کہی گئیں،مگر قتل تو بھیڑ نے ہی کیا تھا۔
قومی صورتحال
ہندوستان میں بھیڑ کے ذریعے کئے جانے والے تشدد کے اہم شکار دلت اور مسلمان ہیں۔ مذہب-ذات-جائے پیدائش یا کسی دیگر بنیاد پر جانبداری کو نبھانے کے لئے کئے گئے تشدد میں بھیڑ خاص ذریعہ ہوتی ہے۔جب ان وارداتوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ گورکْشا کے نام پر تشدد کیا گیا، کئی معاملات میں ذات اور زمین کے تنازعہ تھے۔ فی الحقیقت افواہ کی بنیاد پر ہی بھیڑ نے تشدد کو انجام دیا۔
ان معاملات میں سیاسی مفاد قاتلوں کو تحفظ دیتے ہیں۔ ان معاملات سے یہ بھی ایک بات ابھرتی ہے کہ کیا لوگوں کا قانون، نظام اور عدالتی نظام میں اعتماد کم ہو رہا ہے؟
25 جولائی 2017 کو لوک سبھا میں وزیر مملکت برائے داخلہ ہنس راج گنگارام اہیر نے بتایا کہ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) مذہب،ذات،جائے پیدائش وغیرہ (آئی پی سی کی دفعہ 153 ک اور 153 کھ)کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینے والے جرائم کے اعداد و شمار رکھتا ہے۔ بہر حال گورکْشا،گائے کے کاروبار اور بیوپاری سے متعلق تشدد کے اعداد و شمار حکومت کے پاس نہیں ہیں۔این سی آر بی بتاتا ہے کہ سال 2014 سے 2016 کے درمیان دفعہ 153 ک اور 154 کھ سے متعلقہ معاملات میں تقریباً 41 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ معاملے 336 سے بڑھ کر سال 2016 میں 475 ہو گئے ہیں۔سب سے زیادہ اضافہ مذہب، ذات، جائے پیدائش سے متعلق دشمنی کی وجہ سے ہوئے تشدد کے معاملات میں ہوا ہے۔ یہ معاملے 323 سے بڑھ کر 444 ہو گئے۔سال 2014 میں اس طرح کی سب سے زیادہ واردات کیرل (65)، کرناٹک (46)، مہاراشٹر (33)، راجستھان (39) میں درج ہوئی تھیں۔سال 2016 میں ایسے سب سے زیادہ معاملے اتّر پردیش (116)، جنوبی بنگال (53)، کیرل (50)، تمل ناڈو اور تلنگانا (33 33) درج ہوئے۔مدھیہ پردیش میں ان تین سالوں میں ایسے معاملے پانچ سے بڑھ کر 26 ہو گئے۔ جبکہ اتّر پردیش میں 26 سے بڑھ کر 116، ہریانہ میں تین سے بڑھ کر 16 اور مہاراشٹر 33 سے بڑھ کر 35 ہوئے۔راجستھان میں 39 سے گھٹ کر 22، کیرل میں 65 سے گھٹ کر 50، آندھر پردیش میں 21 سے گھٹ کر 14 درج ہوئے۔بھیڑ(کے ذریعہ) تشدد کو اب کسی ایک ریاست اور وہاں کی خاص حکومتوں کے ذیل تک ہی محدود نہیں رکھا جانا چاہئے، مگر یہ تو ماننا ہی پڑے گا کہ بھیڑ کا کوئی ایک مذہب تو ہوتا ہے۔یہ تیزی سے پھیلایا جا رہا ایک رجحان ہے، جس کو ہندو یا مسلم کی بحالیٔ عزت کے نام پر ابھارا جا رہا ہے،لیکن ایک وقت کے بعد کوئی بھی حکومت، چاہے وہ قدامت پسند کی ہو یا انتہا پسند کی، اس کو کنٹرول نہیں کر پائےگی۔
سوال یہ ہے کہ مذہب کے نام پر، بغیر کسی سبب، افواہوں کی بنیاد پر بھیڑ اکٹّھا ہوتی ہے اور قتل کر دیتی ہے۔
۔فی الحقیقت لوگوں کی بھیڑ میں بدلنے اور بھیڑ کے ذریعے تشدد کئے جانے کی نفسیات کہتی ہے کہ بھیڑکے ذریعہ تشدد اپنےآپ پیدا نہیں ہوتا، اس کو پیدا کیا جاتا ہے
پہلے لوگوں کے احساس اورہمدردی کو مار دیا جاتا ہے۔ پھر ان لوگوں کو ایک بھیڑ میں جمع کر دیا جاتا ہے۔ ایسی بھیڑ ایک خطر ناک حالت میں ہوتی ہے کیونکہ بھیڑ کو یہ احساس ہی نہیں ہوتا ہے کہ وہ بے کار ہی کسی کا قتل کر رہی ہے!
سماج کے وحشیی ہوتے جانے کا ثبوت ہے بھیڑکے ذریعہ تشدد
مذہب اور ذات فی الحال تشدد کا اہم بہانا ہیں۔ فی الحقیقت مذہب تو عدم تشدد کے احساس کو جمانے اور انسانیت کومستحکم بنانے کا ذریعہ ہوتا ہے ؛ لیکن بدلتے اقدار نے اس کو تشدد آمیز سیاست تہذیب سوزی کوجائز ٹھہرانے کا ذریعہ بنا دیا ہے۔
احساس کے مر جانے کے علامات کیا ہیں؟ جب ایک طبقہ دوسرے کے پہناوے کو ہی برداشت یا منظور کرنا بند کر دے، جب ایک طبقے کو دوسرے کے کھانے پر اعتراض ہو، جب ایک طبقے کو دوسرے کی عبادت کا طریقہ تکلیف دینے لگے، جب ایک طبقہ دوسرے طبقہ یا علاقے کی زبان کو اپنے خلاف ماننے لگے، جب بال یا داڑی سے آدمی کی تقدیر طئے ہونے لگے ؛ تب مان لیجئے کہ ایسے آدمی بھیڑ میں بدلنے کے لئے تیار ہیں۔
عموماً یہ اپنے کاموں کو صحیح ثابت کرنے کے لئے مذہب یا قدیم دقیانوسی تصورات کو ڈھال بناتے ہیں، تاکہ کسی کا قتل کرنے کے بعد اپنے خون سے سنے ہاتھوں کو پانی سے دھوکر کھانا کھا سکیں اور اپنے بچّوں کو پیار کر سکیں۔
ممکن ہے کہ کوئی وقت آئےگا، جب وہ اپنی ہی فیملی اور بچّوں کے خلاف تشدد کرنے کے لئے تیار رہیںگے، کیونکہ وہ احساس کھو چکے ہوتے ہیں۔
جس طرح سے مقابلہ بڑھا ہے، اس نے تشدد کو ایک نئی ضرورت کے طور پر قائم کیا ہے۔ ہماری اقتصادی پالیسیاں اس قدر غیراخلاقی رہی ہیں کہ ان میں سیٹ اپ عوام کے متعلق اور عوام کا ایک طبقہ اور دوسرے طبقے کے متعلق وحشیانہ ہونے کی حد تک عمل کرتا ہے۔ دونوں کو اپنا خاص وجود ثابت کرنا ہوتا ہے۔
لوگ بھوکے،عدم غذائیت کے شکار، بےروزگار، بے پناہ، غیر محفوظ رکھے جاتے ہیں، ان کو عدم تشدد اور انسانیت کی تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے، ان کو درد میں علاج سے محروم رکھا جاتا ہے، ان کے دل میں یہ بھر دیا جاتا ہے کہ اگر وہ عصمت دری نہیں کریں گے تو ان کے ساتھ عصمت دری ہوگی، ان کا قتل ہو سکتا ہے، اس لئے ان کو پہلے ہی دوسرے کا قتل کر دینا چاہئے۔ان کو یہ سمجھنے ہی نئی دیا جاتا ہے کہ سماج کے وسائل، زمین، جنگل اور سرمایہ لوٹ لی جا رہی ہے۔ لوگ تیار کئے جاتے ہیں، بھیڑ کا حصہ بنانے کے لئے۔
لوگوں کا بھیڑ میں بدل جانا اور بھیڑ کا قاتل ہو جانا، یہ کس ترقی کا مقام ہے؟ کیا ہماری ترقی کا یہی مقام طئے تھا؟
اصل میں سماجی تہذیبی بےکار اقتصادی ترقی یہ طئے کر دیتی ہے کہ کسی بھی قیمت پر وسائل اور اقتدار پر متاثر کن (اونچی ذات، اکثریتی نمائندہ، سرمایہ تکنیک یافتہ اور طاقت) کا قابو ہو۔اقتصادی ترقی کی پالیسی ساز لوگوں کو بخوبی یہ احساس ہوتا ہے کہ اس سے سماج میں نا برابری زبردست طریقے سے بڑھےگی۔ لوگوں سے ان کے ذریعہ معاش چھنیں گے اور بےروزگاری بڑھےگی۔لوگ بھوکے رہیں گے اور بیماریاں بڑھیں گی ؛ لیکن اقتصادی ترقی لوگوں کو اپنی بیماری کا علاج کروا پانے میں بھی لاچار بنا دےگا۔
نجی سیکٹر کا ایک اہم مقصد ہوتا ہے کہ حکومت کبھی بھی معاشرہ اور معاشرہ کے محروم طبقات کو رعایت، تحفظ اور حفاظت نہ دے، یہ تینوں صرف ملک و دنیا کے 100 سب سے طاقت ور کاروباری کمپنیوں گھرانوں کو ملنا چاہئے۔
ذرا سوچئے کی اس طرح کی ترقی سے ایک کروڑ روزگار کی ضرورت کی حالت میں پانچ لاکھ روزگار پیدا ہوتے ہوں۔ جب کسان سے ایک روپیے کا ٹماٹر لے کر بچولئے اور ایگرو- بزنس کرنے والی کمپنیاں 100 روپیے میں صارفین کو بیچتی ہوں، جب چھ پیسے کی دوائی 60 روپیے میں بیچی جاتی ہو، تب سماج کی نئی درجہ بندی کس شکل میں ہوگی؟
تب ہندوستانی سماج میں کیا ہوگا- بےروزگاری، بھوک مری- ناقص غذا، جرم، اقتصادی- جنسی- ذات پر منحصر جانبداری کی انتہائی حالت۔گزشتہ دنوں سیٹ کو لے کر ہوئے تنازعے کے بعد تشدد آمیز بھیڑ کے ذریعے پیٹ پیٹ کر مارے گئے بلّبھ گڑھ کے حافظ جنید اور کشمیر کی ایک مسجد میں بھیڑ نے پیٹ پیٹ کر ڈی ایس پی ایوب پنڈت کا قتل کر دیا تھا۔
جب ملک میں 7 کروڑ لوگ بےروزگار ہوں، 6.5 کروڑ بچّے عدم غذائیت کے شکار ہوں، 19.5 کروڑ لوگ بھوکے سوتے ہوں اور ایک فیصد لوگوں کے قابو میں ملک کی 60 فیصد جائیداد ہو، جہاں چھ کروڑ لوگ ناامیدی کے شکار ہوں، جہاں 22 سالوں میں زراعت سے جڑے 3.30 لاکھ لوگوں نے بدحالی-قرض کی وجہ سے خودکشی کر لی ہو، جہاں ایک سال میں خواتین سے عصمت دری کے 34،651 اور بچّوں سے عصمت دری کے 13،766 معاملے درج ہوتے ہوں اور حکومت کی اعلانیہ پالیسی 15 سالوں میں 100 گھرانوں- کمپنیوں کو 30 لاکھ کروڑ روپیے کی محصولی فیس کی رعایت دے دینے کی ہو ؛ وہاں سماج اپنے نظام میں اعتماد نہیں کر سکتا ہے۔
سوچئے کہ بےروزگار، کھانے کے گھر میں خالی گودام، ہر طرح قتل اور عصمت دری کا خوف، بیماری اور درد کی حالت میں علاج نہ ملنے کے پورے امکان کی حالت میں آدمی کا کردار کیا ہوگا؟
ذرا سوچئے کہ زندہ ہندوستانی تو بھوکا اور بےروزگار ہے، پر مر جانے کے بعد اس کی لاش کے ساتھ بھی نظام پوری بد سلوکی کرنے کو تیار ہے۔
اس طرح کی ترقی میں، جب وسیع سماج کو یہ سمجھ آ جاتا ہے کہ ترقی کے نام پر اس کے کھیت چھین لئے جائیںگے، اس کا گھر گرا دیا جائے گا، اس کو بغیر کسی حفاظت کے دھندے سے بےدخل کر دیا جائےگا، اور جب وہ ظلم کے خلاف مزاحمت کرےگا، تو اس کو سنگین مجرم قرار دیا جائےگا۔اس پر قومی بغاوت اور قومی حفاظتی قانون کے مجرم کی پہچان چسپا کر دی جائےگی ؛ تب وہ خود کے لئے طاقت کی تلاش کرتا ہے۔چونکہ کم از کم پچھلے 35 سالوں یعنی ایک پشت کو ایسی تعلیم دی گئی ہے، جس میں ‘ شہریت ‘ کے بجائے ‘ فرقہ وارانہ اور خود غرضی پر مبنی کردار کی زیادہ ترقی ہوئی۔
حکومتوں کی پالیسی یہ ہے کہ سماج بھوک، زراعت، بےروزگاری، جنگل- ماحولیات اور غیر برابری پر اقتدار سے بحث کرے گا، اس کو چیلنج کرے گا، اس لئے ضروری ہے کہ سماج کو زیادہ سے زیادہ غیر محفوظ بنایا جائے اور اس کی جذباتیت کا اقتصادی سیاسی طورپرنفع اٹھایا جائے۔ ماحول ایسا بنایا جائے، جس سے وہ اصل مسئلوں پر یکجا نہ ہو پائے، اپنی دلیل نہ گڑھ پائے۔
ملک کی آزادی کے بعد ہمارے نظام نے تعلیم شہریت کی ترقی کی ایسی پہل ہی نہیں کی کہ ہندوستانی شہریوں پر جم چکی تشدد آمیز فرقہ پرستی کی سوچ کو صاف کیا جائے۔صدیوں سے چلی آ رہی نسل پرستی اور جنسی تشدد کی کردار میں تبدیلی کو ‘ ترقی کی بنیاد ‘ بنایا جائے ؛ نوجوانوںو خواتین کو بھی جب ‘ ہمدردی کے جذبات پر منحصر ‘ سماج کے لئے یکجا ہونے کی نصیحت حاصل نہیں کرنے دی گئی۔حال کا سماج کسی اقدار پر منحصر یکجہتی اور تنظیم کے امکان میں اعتماد نہیں کر پاتا ہے۔ لوگ سماجی تنظیم کو اب طاقت نہیں مانتے ہیں ؛ وہ ‘ بھیڑ ‘ میں طاقت کھوجنے لگے ہیں۔
جب ‘ عدم اعتماد ‘ انتہا پر پہنچ جاتا ہے اور ریاستی نظام خود ظلم کی علامت بن جاتی ہے تب آدمی اپنے اندر کے تشدد کو کھلا چھوڑ دیتا ہے۔
اور جب اسے جمہوری اور غیر متشدد طریقے سے مزاحمت کرنے کا حق نہیں ملتا ہے، جب نظام عدل بھی سختی سے ریاستی نظام کے فیور میں ہو جاتا ہے، تب بےروزگاری، بھوک، عصمت دری جانبداری کا شکار جوان اور کہیں کہیں وسیع سماج ‘ تشدد ‘ کے متبادل کو اپنا لیتا ہے۔وہ اکیلے تشدد کرنے میں ڈرتا ہے، وہ بڑی بھیڑ میں شامل ہوکر تشدد اور قتل عام کا حصہ بن جاتا ہے۔ بےروزگار-غریب- کمزور-مظلوم اس کے بعد احساس جرم کے جال میں بھی پھنس جاتا ہے۔ہندوستان میں ‘ بھیڑ کے ذریعے تشدد ‘ کوئی نیا واقعات نہیں ہے، لیکن بھیڑ تشدد کو بنیاد پرست سیاست اور فرقہ پرستی میں یقین رکھنے والی حکومتوں کا تحفظ ہونا اس میں نیا جوڑ ہے۔ہندوستان کے جسم پر گزشتہ 70 سالوں میں فرقہ وارانہ دنگوں کے سیکڑوں گھاؤ ہیں۔ ملک کی آزادی نے بھی ان دنگوں کے سایہ میں ہی داخلہ حاصل کیا تھا۔تب سے لےکر آج تک معاشرہ- فرقہ اپنی حفاظت اور عظمت کے لئے مقامی سطح سے لے کر ریاست اور قومی سطح تک تشدد کا راستہ اختیار کرتا رہا ہے ۔ایک بہتر معاشرہ میں نفرت اور تشدد کو مٹانے کے لئے اس کے لوگوں کو سماجی اقتصادی سیاسی تہذیبی آزادی اور نظام میں یکساں ذمہ دار کردار دینا ضروری ہوتا ہے۔ ہم نے ہندوستان میں ایسا نہیں کیا۔معاشرہ کا ایک طبقہ یہ طئے کرنا چاہتا ہے کہ دوسرا طبقہ کیا کھائےگا اور کیا نہیں ؛ وہ کیا پہنے گا اور کیا نہیں ؛ وہ یہ بھی طئے کر رہے ہیں کہ بچّوں کو منطقیت، تہذیب اور حقیقی تاریخ کے بجائے جانبداری اور کورتوہم پرستی بڑھانے والی تعلیم دی جانی چاہئے۔اس کا مقصد یہ ہے کہ وسیع سماج کچھ خاص لوگوں، مذہبی رہنماؤں اور خاص سیاسی نظریہ کی نوآبادی اور غلام بنا رہے۔بھیڑ کو سیاست اور اقتدار مل کر پیدا کرتے ہیں۔ ان کو تشدد کے لئے ہدایت دیتے ہیں۔ شروع میں اس کو قابو میں بھی رکھتے ہیں، پھر بھیڑ ان کے قابو سے بھی باہر نکل جاتی ہے۔ وہ کسی کی ہدایت نہیں سنتی۔ذرا سوچئے کہ محترم وزیراعظم نریندر مودی جی بار- بار سنجیدگی اور ایمانداری سے کہہ رہے ہیں کہ گورکْشا کے نام پر تشدد برداشت نہیں ، لیکن بھیڑ ان کی بھی بات نہیں سن رہی ہے!
(مصنف سماجی محقق اور اشوکا فیلو ہیں۔)
Categories: حقوق انسانی, فکر و نظر