عدالت میں یہ بات سامنے آئی کہ جن 48لاکھ خواتین کے سر پر غیر ملکی شہریت کی تلوار لٹکی ہوئی ہے۔ ا ن میں تقریباً تین لاکھ مرد بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنی شہریت کے ثبوت کے طور پر گاؤں پنچایت سرٹیفکیٹ ہی جمع کیا ہے ۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے آج آسام غیر ملکی شہریت معاملہ میں اسٹیٹ کورڈینیٹر کوہدایت دی ہے کہ وہ چار ہفتہ کے اندر غیر ملکی قرار دیئے گئے باشندوں میں سے ان افراد کی نشان دہی کریں جن کے پاس اپنی شہریت ثابت کرنے کے لئے صرف گاؤں پنچایت کا سرٹیفکیٹ ہی واحد دستاویز ہے، تاکہ ان افراد کے معاملے میں کچھ طے کیا جا سکے۔عدالت نے اس معاملہ کی سماعت اب 12اکتوبر کو طے کی ہے ۔ سپریم کورٹ کے ججز،جسٹس گگوئی اورجسٹس سنہا کی بنچ میں آج غیر ملکی شہریت معاملہ پر سماعت ہوئی ۔سماعت کے دوران عدالت نے تین اہم باتیں کہیں۔ ایک تو یہ کہ سرکاریں بدل جانے سے سرکار کی پالیسی میں تبدیلی نہیں آنی چاہئے ۔
آج سرکار اس معاملہ کی مخالفت کر ر ہی ہے جبکہ پچھلی سرکار نے سب سے بات چیت اور رائے مشورے کے بعد ہی یہ پالیسی طے کی تھی۔ عدالت نے دوسری بات یہ کہی جو لوگ اس معاملہ میں مداخلت کار بننا چاہتے ہیں وہ اس وقت بھی عدالت میں تاخیر سے آئے تھے جب 1971کو بنیاد پر شہریت طے کئے جانے کے معاملے کی سماعت چل رہی تھی۔عدالت نے بار بارکی ا س تاخیر کوغلط قرار دیا۔عدالت نے مزید کہا کہ ریاستی ہائی کورٹ کو منورہ بیگم کا معاملہ سننا چاہئے تھا اور مقدمہ فیصل کرنا چاہئے تھا ۔
عدالت نے اب اس معاملے کی سماعت 12اکتوبر طے کی ہے ۔ عدالت میں یہ بات سامنے آئی کہ جن 48لاکھ خواتین کے سر پر غیر ملکی شہریت کی تلوار لٹکی ہوئی ہے۔ ا ن میں تقریباً تین لاکھ مرد بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنی شہریت کے ثبوت کے طور پر گاؤں پنچایت سرٹیفکیٹ ہی جمع کیا ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ انکے پاس بھی ان کی شہریت کا کوئی اور ثبوت موجود نہیں ہے۔ عدالت نے اب اسٹیٹ کورڈی نیٹر پرتیک ہجیلا کو ہدایت دی ہے کہ وہ آئندہ چار ہفتہ کے اندر ان لوگوں کی نشاندہی کریں جن کے پاس صرف یہی دستاویز موجود ہیں تاکہ انکے بارے میں کچھ طے کیا جا سکے ۔
عدالت میں جمعیۃ علما ہند کی جانب سے آج سینئر وکیل کپل سبل ، سنجے ہیگڑے ، وویک تنکھا اور فضل ایوبی وغیرہ موجود تھے۔واضح ہو کہ آسام میں نیشنل رجسٹر آف سٹی زنس تیار کرنے کے عمل کے دوران گوہائی ہائی کورٹ کے شہریت کے ثبوت کے طور پر دیگر دستاویزات کے ساتھ گاؤ ں پنچایت یعنی پردھان کے سرٹیفکیٹ کو بھی قبول کرنے سے انکار کر دینے کے بعد یہ مسئلہ کھڑا ہوا ہے۔
یہ کام تقریباً مکمل ہی ہونے والا تھا کہ مرکز اور ریاست کی بی جے پی سرکارنے این آر سی کے لئے گاؤں پنچایت کے سرٹیفکیٹ کو ثبوت ماننے سے انکار کر دیا۔ ایسے میں وہ خواتین جن کی شادیاں اب سے 40-50سال پہلے ہوچکی ہیں اور وہ بیاہ کر دوسرے گاؤں اور شہروں میں چلی گئیں انکے پاس ہندوستانی شہری ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے کیونکہ اس زمانے میں لوگ عام طور سے پیدائش سرٹیفکیٹ تک حاصل نہیں کرتے تھے ، لڑکیاں پانچویں چھٹی جماعت تک ہی اسکول جاتی تھیں اس لئے ان کے پاس اسکول کا سرٹیفکیٹ بھی نہیں ہے ۔ ایسے میں صرف گاؤں پنجایت ہی یہ سرٹیفکیٹ دے سکتی ہے کہ فلاں عورت فلاںِ شخْص کی بیٹی، بہن یا بہوہے لیکن اب اسے ریاستی حکومت ماننے کو تیار نہیں ہے جس کے بعدمولانا سید ارشدمدنی کی ہدایت پر جمعیۃ علما ہند کی آسام یونٹ نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا اس کے علاوہ بھی کئی دیگر تنظیموں نے عدالت سے رجوع کیا ۔
Categories: حقوق انسانی, خبریں