فکر و نظر

بد عنوانی کے سنگین الزام کے بعد بھی کسی شخص کو چیف جسٹس بنایا جا سکتا ہے ؟

جسٹس دیپک مشرا کو ملک کا چیف جسٹس بنائے جانے پر سوال اٹھا رہے ہیں سابق وزیر قانون شانتی بھوشن۔ نوٹ : یہ مضمون جسٹس دیپک مشرا کے چیف جسٹس بننے کے اعلان کے بعد مرتب کیا گیا تھا ۔جسسٹس دیپک مشرا نے پیر کو 45ویں چیف جسٹس کے طور پر حلف لیا۔

dipak-misra

27 اگست کوچیف جسٹس جے ایس کھیہر اپنی مدت پوری کررہے ہیں ۔ ان کے بعد اس عہدے پر جسٹس دیپک مشرا کو نامزد کرنے کی پیشکش خود جسٹس کھیہر نے کی تھی،جس پر صدر جمہوریہ اور مرکز کی منظوری بھی مل چکی ہے۔ لیکن کیا انہیں صرف اس بنیاد پر اتنے بڑے عہدے کی ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے سنیئرجج ہیں؟

 چیف جسٹس آف انڈیا ایک آئینی عہدہ ہے۔چیف جسٹس ملک کی عدلیہ کا صدر ہوتا ہے۔اس آئینی منصب کے تحت سپریم کورٹ کے 31 ججوں سمیت ایک ہزار ہائی کورٹ جج اور 16 ہزار ماتحت جج آتے ہیں۔

چیف جسٹس ،عدالت  عظمیٰ میں آئین سے متعلق  پیچیدہ مسائل کے علاوہ قانون کے اصولوں کو متاثر کرنے والے معاملات، ملک کی حکومت سے منسلک معاملوں سمیت ملک کے تقریباً 1.3 ارب شہریوں کی زندگی اور آزادی سے متعلق معاملات میں فیصلہ دینے کے ساتھ ہی عام اور مجرمانہ معاملات کی اپیل میں بھی فیصلہ دیتے ہیں۔

سپریم کورٹ کا صدر ہونے کے ناطے چیف جسٹس کو نہ صرف نظم و نسق سے جڑی طاقتیں حاصل ہیں، بلکہ ان کو آئینی بینچ اور معاملات، جو کئی بار سیاسی طور پر حساس بھی ہوتے ہے، کی تقسیم کا بھی حق ملا ہوا ہے۔

1981 کے ججوں کی تقرری سے جڑے پہلے کیس میں سپریم کورٹ نے اس بات کی جانب اشارہ کیا تھا :

 منصفین کو سخت ہونا چاہئے،ایسا جو کسی بھی طرح کی طاقت چاہے وہ اقتدار کی ہو،اقتصادی یا سیاسی،کے سامنے نہ جھکے اور جو قانون کے بنیادی اصولوں کو قائم رکھ سکے ‘

1993 میں ججوں کی تقرری سے جڑے دوسرے کیس میں سپریم کورٹ نے کہا :

‘ یہ تو سبھی کو معلوم ہے کہ سینئر ججوں کی تقرری میں عمر کا خیال رکھا جاتا ہے ،وہ سن رسیدہ ہوتے ہیں،اپنے قانونی پیشے میں اچھے پس منظر کے علاوہ شہرت بھی رکھتے ہیں۔ سینئرججوں کی تقرری کے لیے ذمہ دار آئینی حکام سے امید کی جاتی ہے کہ وہ مکمل طور پر متعین کریں کہ ناقابل تردید طور پر  ایماندار شخص  کا ہی ایسے اعلیٰ اور اہم عہدے پر تقرر ہو اور کوئی مشتبہ آدمی اس منصب پر نہ پہنچ پائے۔ اس لیےیہ وقت ہے جب سینئرججوں کی تقرری میں شامل تمام آئینی افسر اپنی آئینی ذمہ داری کے اس سنگین مسئلے کے متعلق باخبر رہیں اور اس بات کو لےکر محتاط رہیں کہ کوئی مشتبہ تقرری نہ ہو سکے۔’

اس طرح سپریم کورٹ نے عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ میں ججوں کی تقرری کے عمل کے لئے ملک کے چیف جسٹس کو برتری دی۔ اس طرح عدلیہ کا مستقبل طے کرنے میں ملک کے چیف جسٹس کا بےحد اہم کردار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ این جے اے سی معاملے میں موجودہ چیف جسٹس نے خبردار‌کیا تھا :

‘ججوں کو چننے کی ذمہ داری بہت بڑی ہے،ساتھ ہی کوئی غلط تقرری ہونے کے نتیجے اتنے خطرناک ہیں کہ اگر عدلیہ کے اونچے عہدوں کے لیے ہونے والے انتخاب اور تقرری کے عمل میں کوئی غلطی ہو جائے،تو ملک میں ایک طرح کی بدنظمی پھیل سکتی ہے۔’

منوج نرولا بنام حکومت ہند معاملے میں جسٹس مشرا نے خود اس بات کی تصدیق کی تھی، ‘ ایک جمہوری نظام کو اگر اس کی خالص صورت میں سمجھیں تو یہ بنیادی طور پر بد عنوانی، خاص طور پر بلند سطح پر ہونے والی بد عنوانی کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتی ۔ ‘

زمین کے بٹوارے کا معاملہ

پھر بھی جسٹس مشرا سے ہوئی ایک ‘ چوک ‘ حیران کرتی  ہے۔ انہوں نے 1979 میں (جب وہ ایک وکیل تھے) تب اڑیسہ حکومت کو دو ایکڑ زمین کی لیز (پٹّہ) کے لیے درخواست دی تھی۔ اس معاملے میں ان کے ذریعے تقسیم کی شرط کے بطور دیے گئے ایک حلف نامے میں انہوں نے کہا تھا : ‘ میں ذات سے برہمن ہوں اور اپنی پوری فیملی سمیت میری زمینی جائیداد صفر ہے۔ ‘

بعد میں 11 فروری 1985 کو اڑیسہ حکومت کے لینڈ سیٹل مینٹ ایکٹ 1962 کے تحت مشرا کے خلاف ہوئی کاروائی کے بعد کٹک کے علاوہ ضلع مجسٹریٹ کے ایک حکم کے بعد یہ لیز منسوخ کر دی گئی۔

‘یہ سرکاری حکم خصوصی طور پر پیراگراف 4 کے بارے میں بتاتا ہے کہ بے زمین شخص وہ ہوتا ہے، جس کے پاس اپنی فیملی کے ممبروں سمیت دو ایکڑ سے زیادہ زمین نہیں ہوتی،ساتھ ہی جس کا زراعت کے علاوہ کوئی ذریعہ معاش نہیں ہوتا اس لیے میں اس بات کو لےکر مطمئن ہوں کہ مخالف موکل (جسٹس مشرا) بے زمین شخص نہیں تھے اور نہ ہی وہ حکومت کے ذریعے زراعت کے مقصد کے لئے دی جانے والی زمین کے سیٹل مینٹ کے لیے موزوں  ہیں۔ اس  بنیاد پر ہی یہ لیز خارج کی جا سکتی ہے… میں اس بات کو لےکر بھی مطمئن ہوں کہ پٹّےدار نے غلط بیانی اور دھوکہ دھڑی سے لیز حاصل کی ہے۔’

یہ بھی دیکھا گیا کہ اور بھی کئی لوگ تھے، جنہوں نے مشتبہ طریقوں سے زمین حاصل کی تھی۔ چترنجن موہنتی کے ذریعے اڑیسہ کی عدالت عالیہ میں دائر ایک عرضی کے جواب میں کورٹ نے 18 جنوری 2012 کو دیے ایک آرڈر میں سی بی آئی کو اس بتائے گئے علاقے میں سرکاری زمینوں پر ناجائز غیرقانونی قبضہ اور قبضوں کے بارے میں پوچھ تاچھ اور جانچ کرنے کو کہا تھا۔ سی بی آئی کی ابتدائی جانچ میں بتایا گیا :

‘ PE 1 (S)/2011 کے مطابق کٹک ضلعے کے بداناسی علاقے کے بدیادھرپور، بینتاکرپاڈا، رام گڑھ، تھانگرہڈا، برج بہاری پور اور یونٹ 1 سے 8 سمیت 13 موضعوں کی سرکاری زمینوں کے ناجائز غیرقانونی قبضہ کے معاملے کی جانچ ‘

سی بی آئی نے اس معاملے کی فائنل رپورٹ 30 مئی 2013 کو شیئر کی، جہاں اس نے پایا :

‘اس معاملے میں،شری دیپک مشرا پسر رگھوناتھ مشرا،گاؤں تلسی پور،پوسٹ لال باغ،کٹک باشندہ بان پور، پری کو 30۔11۔1979 کو اس وقت کے تحصیل دار کے ذریعے پلاٹ نمبر 34،کھاتا نمبر 330،موضع بدیادھرپور میں دو ایکڑ زمین مستند کی گئی تھی۔’

‘تحصیل دار کے ذریعے دیا گیا تقسیمی حکم 11۔02۔1985 کو کٹک کے علاوہ ضلع مجسٹریٹ کے ذریعے دئے گئے ایک حکم کے بعد منسوخ کر دیا گیا تھا۔ لیکن اس کا رکارڈ 06۔01۔2012 کو کٹک تحصیل دار کے 6 جنوری 2012 کو ہی دئے گئے ایک حکم کے بعد سدھارا گیا ہے۔’

سی بی آئی نے آگے پایا :

‘جانچ میں 1977 سے 1980 کے دوران بدیادھرپور موضع میں کٹک صدر کے تحصیل دار کے ذریعے مستفیدین کو سرکاری زمین کے غیر مستقل  پٹّہ دینے کے کئی معاملے سامنے آ چکے ہیں۔ حالانکہ غیر قانونی پٹّہ دینے کے کچھ معاملے اضافی ضلع مجسٹریٹ (ریونیو) کے ذریعے منسوح کر دئے گئے تھے لیکن پٹّہ داروں نے اب تک وہ زمین خالی نہیں کی ہے۔ یہاں تک کہ 1984-85 میں پٹّہ منسوح کرنے کے حکم کے باوجود زمین کے رکارڈ 06۔01۔2012 میں اصلاح کی گئی۔’

اس جانچ رپورٹ کے بعد ہائی کورٹ کی کاروائی کی کوئی واضح جانکاری موجود نہیں ہے۔

کسی حلف نامہ، جس کو قانونی طور پر ایک ثبوت کی طرح دیکھا جاتا ہے، میں کوئی غلط بیان دینا اور اس کو غلط جانتے ہوئے بھی سچ ثابت کرنے کی کوشش کرنا تعزیرات ہند کے سیکشن 199 اور سیکشن 200 کے تحت سنگین جرم ہے، جس کے لیے سات سال کی سزا اور جرمانہ دیا جا سکتا ہے۔ اس طرح جسٹس مشرا کے ذریعے اس طرح کا حلف نامہ داخل کرنا ایک بےحد سنگین معاملہ ہے۔

اس کے علاوہ جسٹس مشرا کا نام اروناچل پردیش کے سابق وزیراعلیٰ کالکھو پل کے سوسائڈ نوٹ میں بھی پایا گیا تھا۔ حالانکہ اس معاملے کی کوئی جانچ شروع نہیں ہوئی ہے، لیکن قانونی جانچ میں اس سوسائڈ نوٹ کے حقیقی ہونے کی بات سامنے آئی۔اویڈنس ایکٹ کے سیکشن 32 کے مطابق کوئی سوسائڈ نوٹ ایک واضح ثبوت ہے اور اگر کبھی ضرورت ہو تو ایف آئی آر درج کروانے کے بارے میں اس کی تفصیلی جانچ کی جا سکتی ہے۔

حال ہی میں تین ہائی کورٹ کے ججوں کے ذریعے اڑیسہ ہائی کورٹ کے دو نشست دار منصفوں کے خلاف الزامات میں بھی جسٹس مشرا کا نام آنے کی خبر آئی تھی۔

کیا کسی ایسے شخص کو چیف جسٹس بننا چاہئے، بھلے ہی وہ سینئر جج ہوں؟ سینئرٹی ایک ضروری اصول ہے، حالانکہ اکیلا وہ اصول بھی نہیں، جس کی بنیاد پر ملک کے چیف جسٹس  کی تقرری ہونی چاہئے۔

میں نے ہمیشہ منصفوں کسی سیاسی یا نظریاتی سبب کے چلتے کسی جج کے حملے کی مخالفت کی ہے۔ 1977 میں بطور وزیر قانون میں نے اپنی پارٹی کے ذریعے ایمرجنسی کا فیصلہ لینے والے ججوں کو ہٹا دینے کی مانگ کی مخالفت کی تھی۔ حالانکہ اس معاملے میں مدعا اخلاقیات کی بنیاد پر صلاحیت کا ہے۔

(شانتی بھوشن سپریم کورٹ کے سینئروکیل ہیں اور 79-1977کے دوران وزیر قانون رہ چکے ہیں)