یہ درد وہی محسوس کر سکتا ہے جس کی ماں سکردو(بلتستان)میں گزر چکی ہو اور اس کی موت کی خبر کئی سالوں بعد اس کے بیٹے کوکرگل میں مل جائے ، غرض یہ کی لائن آف کنڑول صرف دو علاقوں کو تقسیم ہی نہیں کرتی بلکہ رشتوں ،جذبات اور انسانیت کا بھی قتل کرتی ہے ۔
کرگل خطہ لداخ کا وہ ضلع ہے جو ایل اوسی کے بالکل قریب واقع ہے۔لائن آف کنٹرول کے دوسری جانب بلتستان کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے۔بلتستان اور لداخ زمانہ قدیم سے ایک ہی تہذیب،قوم اور زبان سےوابستہ لوگوں کا علاقہ ہے۔زمانہ قدیم میں اس علاقہ کو تجارت کا محور کہا جاتا تھا اور وسط ایشیائی ممالک سے لوگ یہاں سے کشمیر کی طرف تجارت کرتے ۔
قیام پاکستان کے بعد یہ علاقہ جو اس وقت گلگت بلتستان کہلاتا ہے ۔ پاکستان کے انتظام میں چلا گیا ۔شروع میں اسے اسلام آباد کی نگرانی میں چلایا جاتا تھا۔اس نے اپنی اصل شناخت کھو دی تھی ،اس لیے اس کو شمالی علاقہ جات کے نام سے یاد کیا جاتا تھا ۔تقریباً بیس لاکھ کی آبادی پر مشتمل اس علاقہ کو کئی سال قبل عبوری سطح پرصوبے کا درجہ ملا ہے ۔تاہم اب بھی لوگ قانونی طور پر صوبےاور حقوق کی بات کر رہے ہیں، جس سے اب تک یہاں کے لوگ محروم ہیں ۔ کشمیر سے الگ ہونے کے بعد مظفر آباد والے علاقوں کو ایک آزاد حثیت ملی لیکن گلگت بلتستان کے عوام نہ تین میں رہے اور نہ تیرہ میں ۔ انہیں پاکستان نے نہ صوبہ تسلیم کیا اور نہ ہی خودمختار ریاست بنانے کی اجازت ملی ۔
اس کےبر عکس یہاں خطہ لداخ میں محض تین لاکھ کی آبای کے لئے لداخ خود مختار پہاڑی ترقیاتی کونسل کا قیام عمل میں لا یا گیا، اور خصوصی رعایت دیتے ہوئےممبر پارلیمنٹ کی ایک نشست بھی دی گئی ۔سرحد کے دونوں جانب واقع ان دونوں علاقوں میں اگر چہ اپنی اپنی نوعیت کے ترقی کے کام تو جاری ہیں ۔ یعنی سرحد کے اس پار والا علاقہ گلگت بلتستان چین اور پاکستان راہداری منصوبہ کے چلتے اس وقت عالمی ذرائع ابلاغ کا محور بنا ہوا ہے جبکہ خطہ لداخ بھی سیاحت اور اپنی علیحدہ ہ تہذیب کے چلتے لوگوں کی توجہ کا مرکز ہے ۔تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیا ن چل رہے تنازعوں اور جنگوں کے درمیاں یہاں کے عوام ہمیشہ بلی کا بکرا بنتے رہے ہیں ۔ چونکہ ان علاقوں کی تاریخ ،ثقافت ، زبان ایک ہے جسکی وجہ سے یہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ سرحد کے آر پار منقسم ہیں ۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ یہاں کے عوام گزشتہ 71سالوں سے اپنے رشتہ دار اور احباب سے جدائی کا غم برداشت کر رہے ہیں ۔ انسانی تاریخ کا ایک بڑا المیہ یہاں کے لوگ بھی گزشتہ دہائیوں سے دیکھ رہے ہیں۔ بھائی بھائی سے الگ ماں بیٹے سے اور میاں بیوی سے ۔ اپنے لوگوں کی جدائی کی تکلیف اور بچھڑ جانے کا غم کوئی اپنا ہی جانے ، یہ بات وہی محسوس کر پائے گا جس کا بھائی لائن آف کنڑول کی دوسری جانب ہو اور ایک بھائی کی شادی اس جانب ہو رہی ہو اور وہ اس میں شامل نہ ہو پارہا ہو، یہ درد وہی محسوس کر سکتا ہے جس کی ماں اسکردو(بلتستان)میں گزر چکی ہو اور اس کی موت کی خبر کئی سالوں بعد اس کے بیٹے کوکرگل میں مل جائے ، غرض یہ کی لائن آف کنڑول صرف دو علاقوں کو تقسیم ہی نہیں کرتی بلکہ رشتوں ،جذبات اور انسانیت کا بھی قتل کرتی ہے ۔
ہندوستان اور پاکستان کے در میان سرحدی رابطہ اگر چہ جنگی بیان بازیوں اور تلخ روابط کے باوجود بھی رہے ہیں ۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ہند و پاک کے مابین کبھی سیاسی بیان بازی اور معاملات کشیدہ ہونے پر واگہہ بارڈر بند کر دیا گیا ہو ۔ بلکہ ہمیشہ سفارتی چینل کھلا رکھا جا تا ہے ۔ یہاں تک کہ سری نگر اور مظفر آباد کے درمیان سرحدی کشیدگی کے باوجود ان علاقوں کے عوام کو آپس میں ملوانے کی غرض سے سری نگر مظفر آبا د سٹرک کھول دی گئی ۔ پونچھ اور رالاکوٹ کو رابطہ بھی کسی حد تک بحال کیا گیا ۔ لیکن ستم بالاے ستم خطہ لداخ اور گلگت بلتستان کے عوام میں سرحدی حالات قدرے بہتر رہنے کے باوجود اس علاقہ کے لوگوں کو کبھی بھی اپنے رشتہ داروں سے ملنے کا آج تک موقع نہیں ملا ۔ کرگل میں آباد کھرمنگ بلتستان جسکا فاصلہ 30کلومیٹر سے بھی کم ہے اپنے رشتہ داروں اور اہلخانہ سے ملنے واگہہ کےذریعہ ہزاروں کلومیٹر سفر طے کرکے جانے پر مجبور ہیں ۔
ہند و پاک کے شہروں میں آباد لوگوں کو اپنے دوستوں عزیز و اقارب سے ملاقات کے سلسلے میں کوئی دشواری نہیں ہے ۔ حالات چاہے جیسے بھی ہوں لوگوں کو اپنے رشتہ داروں سے کم از کم فون پر رابطہ کرنے کی اجازت ہے ۔لیکن ایک بڑی جمہوریت میں زندگی گزارنے کا دعویٰ کرنے والے ہم لوگ کبھی کبھی شرم سے سر جھکا لیتے ہیں ۔ جب پاکستان میں موجود ہمارا کوئی رشتہ دار ہم سے پوچھتا ہے کہ آپ ہم سے رابطہ کیوں نہیں کرتے اور ہم جواب میں یہ کہہ دیں کہ ہمارے یہاں سے پاکستان سے فون کالز پر پابندی لگی ہوئی ہے ۔
مجھے اس موقع پر یہ کہتے ہوئے کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہو رہی ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کو اس معاملے میں یورپی ممالک سے سبق لینا چاہئے جن کے درمیان دو بڑی عالمی جنگیں ہوئیں ،وہ ایک دوسرے کے دشمن تھے ،لیکن آج دوست بنے بیٹھے ہیں۔ایسے ہزاروں خاندان ہیں جن میں سے کوئی اپنی ماں سے زندگی میں ایک بار ملا ہے یا پھر کوئی صرف ارمان لے کر اس دنیا سے چل بسا ہے ۔ منقسم خاندانوں یہ مسئلہ مین سٹریم میڈیا میں نہیں ہے ۔ اس کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ اس خطہ لداخ اور گلگت بلتستان میں آج تک اس حوالے سے کوئی منظم تحریک نہیں چلائی گئی ۔ اگر چہ بلتستان میں مرحوم سید حیدر شاہ رضوی شہید نے اس سلسلے میں ” اضلاع بنا ؤ سرحدیں کھولو” کے عنوان سے ایک تحریک شروع کی تھی تاہم ان کی اس تحریک کو پاکستان میں حکومتی سطح پر دبایا گیا اور انہیں زہر دیکر شہید کر دیا گیا ۔
ادھر کرگل میں بھی مقامی قیادت نے اس سلسلے میں ملکی اور ریاستی سطح پر اس مسئلہ کو اٹھایا لیکن ابھی اس سلسلہ میں کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیاگیا ۔ابھی حالیہ دنوں میں وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کرگل میں ایک عوامی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کرگل اسکردو اور ترتک خپلو سٹرک کھولنے کی بات کی تھی انہوں نے کہا تھا کہ اس سٹرک سے زمانہ قدیم کے تاریخی روابط پھر سے بحال ہو جائیں گے اور کرگل سنٹرل ایشیا کا گیٹ وے بنے گا ۔ اس بیان کے بعد لوگوں میں ایک امید سی بنی ہے لیکن یہ بات کس قدر صحیح ثابت ہوگی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔
Categories: حقوق انسانی, فکر و نظر