این آر سی کا مسئلہ صرف ایک قانونی مسئلہ نہیں ہے ،اس میں ان چیزوں کے علاوہ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ جو بھی فیصلہ لیا جائے وہ انسانیت کے نظریے سے بھی قابل قبول ہو۔
ہندوستان کا شمال مشرقی ریاست آسام حال ہی میں سرخیوں میں تھا،اس کی وجہ یہ تھی کہ سپریم کورٹ نے ایک بے حد اہم مسئلے پر آسام کی سرکار کو یہ ہدایت دی ہے کہ وہ آسام کے باشندوں کے بارے میں چھ ہفتوں کے اندر ایک رپورٹ پیش کریں ۔واضح ہو کہ عدالت نے یہ ہدایت شہریوں کی قومی رجسٹر ( این آر سی) کے جدید بنانے کے سلسلے میں دی ہے۔ این آر سی کو جدید بنانے کا کام آسام سرکار 1951کے بعد پہلی بار عدالت کی نگرانی میں کر رہی ہے ۔ معاملہ یہ ہے کہ این آر سی کے لیے48لاکھ عرضیاں دی گئی تھیں، این آرسی کے ساتھ ہندوستانی شہری ہونے کا دستاویز نہ ہونے کی وجہ سے گوہاٹی ہائی کورٹ نے اس کوخارج کردیا ۔اسی سلسلے میں انفرادی طور پراور کچھ اداروں کی طرف سے بھی عرضیاں دی گئیں تاکہ عدالت عالیہ کے فیصلے پر نظر ثانی کی جائے اور عدالت عظمیٰ اس پر دوبارہ شنوائی کرے۔
یہ مسئلہ اس وقت اتنا اہم کیوں ہوا ،اس کے پس پردہ این آر سی کی کاروائی کی ایک تاریخ ہے ۔ اس مسئلے کی شروعات اس وقت ہوئی تھی جب آسام کے ایک طالب علموں کی جماعت آل آسام اسٹوڈنٹ یونین(اے اے ایس یو)اور ایک سیاسی ادارہ آسام گن پریشد (اے جی پی) نے 1979-1985میں ایک مہم چلائی ،اس مہم کا مقصد یہ تھا کہ آسام میں بسے بنگلہ دیشی گھس پیٹھیوں کی پہچان ہو ،اورغیر قانونی طریقے سے رہنے والے باشندوں کو آسام سے باہر کیا جائے۔اس مہم کے دوران خون خرابے ہوئے۔اس معاملے میں1983کانلی فساد دل دہلانے والا تھا ۔یہ احتجاج اس وقت ختم ہوا جب سرکار اور اےاے ایس یو کے بیچ ایک سمجھوتاہوا جس کو ہم لوگ آسام اکورڈ کے نام بھی جانتے ہیں ۔
آسام اکورڈ میں یہ طے کیا گیا کہ ایک نئی این آر سی بنائی جائے گی اور اس میں آسام کے ہر ایک باشندے کو اپنا نام شامل کروانے کے لیے اپنے خاندان کی تفصیل اور متعلق دستاویزوں کے ذریعے ثابت کرنا ہوگا کہ وہ ہندوستانی ہے ۔اس سلسلے میں ضروری بات یہ کہی گئی کہ دستاویز 1971سے پہلے کے ہوں گے ۔بہرحال این آر سی کے معاملے میں آسام سرکار نے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا اور مسئلہ جوں کا توں رہا ۔اس معاملے میں سیاست بھی ہوئی ۔اس قرار/سمجھوتے کے کئی سالوں تک این آر سی کوجدید کرنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھائے گئے اور نہ ہی اس مسئلے کا کوئی حل نکلا۔بنگہ دیشی گھس پیٹھ کو لے کر سیاسی پارٹیان آپسی بحث کرتے رہے ۔
2010میں سرکارنے اس پر پہل کی اور 2014 میں این آر سی کا کام شروع ہوا۔ اس کام میں آسام سرکار کی نوکر شاہی اور ٹھیکے پر کام کرنے والے ملازم بھی شامل رہے۔یہ کام بڑے پیمانے پر 2016 تک چلتا رہا ۔این آرسی میں شامل کے لیے لوگوں سے تفصیلی فارم بھر وائے گئے ،انہیں دستاویزوں کی ایک فہرست دی گئی جس کے ذریعے وہ اپنی ہندوستانی شہریت کا ثبوت دے سکتے ہیں۔ ان دستاویزوں سے دو دو چیزیں ثابت ہونی تھی ،پہلی بات کہ جو فرد عرضی ڈال رہا ہے وہ ہندوستانی شہری ہے اور دوسرے یہ کہ اس کے باپ ،دادااور خاندان کا تعلق ہندوستان سے رہا ہے ۔اگر ہم 1951سے پہلے کے ووٹر لسٹ دیکھیں تو یہ دونوں باتیں ثابت ہو سکتی تھیں ۔مگر 1951کے ووٹر لسٹ میں سے کچھ لوگوں کو مشتبہ ووٹر یا ڈی -ووٹر کہا گیا اور انہیں اپنے شہری ہونے کا ثبوت دینے کو کہا گیا۔کیوں کہ اس معاملے میں 1971کا کٹ آف رکھا گیا جس سے معاملہ اور الجھ گیا،آسام کے زیادو تر لوگ کم پڑھے لکھے ہیں ،اس وجہ سے ان کو جن دستاویزوں کی فہرست دی گئی تھی ان میں کسی بھی دستاویز کا ہونا مشکل تھا۔مثلاً اس فہرست میں زمین کے کاغذات، بینک کے کاغذات وغیرہ تھے ۔ ایک ان پڑھ یا کم پڑھے لکھے غریب شہری کے پاس اس طرح کے دستاویز کا ہونا تقریباً ناممکن ہے ۔غریب اور ان پڑھ عورتوں کے پاس بھی ان دستاویزوں کی موجودگی کی توقع نہیں کی جا سکتی ہے ۔
لیکن ایک دستاویز تھا جس کے ذریعے کچھ لوگوں نے اپنے خاندان کا تعلق ثابت کیا اور وہ دستاویز تھا پنچایت کا دیا ہوا سرٹیفیکٹ ۔ اس کے باوجود گوہاٹی ہائی کورٹ نے ایسی کل 48لاکھ عرضیاں خارج کر دی ۔عدالت کا کہنا تھا کہ اس دستاویز کے ساتھ ایک اور دستاویز کا ہونا لازمی ہے جو کسی باشندے کا ہندوستانی شہری ہونے کا ثبوت ہو،اس مسئلے میں الجھ کر آسام سرکار اپنی این آر سی کو کو عدالت عظمیٰ کے سامنے پیش نہیں کر پائی اور جو فرد عدالت عالیہ کے فیصے سے ناخوش تھے انہوں نے عدالت عظمیٰ میں کچھ خاص عرضیاں (ایس ایل پی)لگائیں۔عدالت عظمیٰ نے اس مسئلے پر ہدایت دی کہ آسام سرکار نئے این آر سی کو اگلے چھ ہفتے میں عدالت کے سامنے پیش کرے اور اس میں سے ان 48لاکھ عرضیوں کو اصل باشندوں کی عرضیوں سے علیحدہ رکھیں تاکہ ان پر فیصلہ بعد میں لیا جاسکے۔
این آر سی کا مسئلہ صرف ایک قانونی مسئلہ نہیں ہے ،اس میں ان چیزوں کے علاوہ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ جو بھی فیصلہ لیا جائے وہ انسانیت کے نظریے سے بھی قابل قبول ہو۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ سرحدوں سے گھس پیٹھ ہو رہا ہے،لیکن کیا یہ اس پیمانے پر ہورہا ہے کہ لوگوں کو من مانے ڈھنگ سے کچھ ادارے پریشان کریں یا ان کی بولی /زبان کے علیحدہ ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ تفریق کی جائے۔آسام کے اصل باشندے آخر کون ہیں یہ کون طے کرے گا ،اس مسئلے پر بھی بھی غور و فکر ضروری ہے ۔ امید ہے کہ عدالت اس پہلو کو فیصلے سے پہلے مد نظر رکھے گی ۔عدالت کو اپنے فیصلے میں یہ دھیان رکھنا ہوگا کہ آسام کے باشندوں میں امتیاز کا پیمانہ کیا ہوگا اور یہ بھی کہ اس کی وجہ سے کوئی خون خرابہ نہ ہو۔دنگے فساد کی کالی تاریخ سے پھر کوئی بھی باشندہ گزرنا نہیں چاہے گا۔عدالت عظمیٰ کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ این آر سی کا کام بڑے پیمانے پر ہوا ہے ۔اس لیے اس میں غلطیوں کی گنجائش ہے ۔ جب عدالت 48لاکھ لوگوں کی قسمت کا فیصلہ کرے گی توہم یہی امید رکھ سکتے ہیں کہ معاملے کی باریکی اور سنجیدگی دونوں پر غور کرے گی ۔
(مضمون نگار کامن ویلتھ ہیومن رائٹس انیشیٹو [CHRI]کے ساتھ ریسرچر ہیں، لیکن یہ مضمون انہونے ذاتی حیثیت میں لکھا ہے ۔ )
Categories: حقوق انسانی, فکر و نظر