حقوق انسانی

کیا روہنگیا پناہ گزیں واقعی ہماری سلامتی کے لئے خطرہ ہیں؟

 

دورۂ میانمار سے پہلے وزیراعظم مودی کو اس اہم سوال کا جواب ڈھونڈنا ہوگا ورنہ ہندوستان کو دنیا کے سامنے شرمندگی اٹھانی پڑ سکتی ہے۔

A boy looks from his temporary shelter at a Rohingya refugee camp as Myanmar's government embarks on a national census, in Sittwe

وزیراعظم نریندر مودی اس ہفتے چین میں برکس سربراہی اجلاس میں شرکت کے بعد میانمار کا دورہ کرنے والے ہیں جہاں وہ  پانچ   اور  چھ ستمبر کو میزبان ملک کے لیڈروں کے ساتھ اہم تجارتی امور پر بات چیت کریں گے. مودی کا دورہ  ایک ایسے وقت میں پیش آ رہا ہے جب میانمار عالمی طور پر سرخیوں میں ہے. اس پر روہنگیا مسلم اقلیت کے خلاف نسل کشی کا الزام لگ رہا ہے. جو خبریں وہاں سے آرہی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں بوسنیا جیسے حالات پیدا ہو گئے ہیں. روہنگیا مسلمانوں کے لئے اپنے ملک کی زمین تنگ ہو چکی ہے کیونکہ جمہوری طور پر منتخب حکومت اور فوج دونوں ہی انہیں صفحہء ہستی سے مٹا دینے کے درپے ہیں. ایسے میں ایک جمہوری ملک کے نمائندہ کی حیثیت سے وزیراعظم مودی سے یہ امید بیجا نہیں ہوگی کہ وہ اس انتہائی سنگین انسانی بحران پر تشویش کا اظہار کریں اور مظلوموں کے ساتھ کھڑے نظر آئیں۔.

مگر قوی امکان  ہے کہ  وہ ایسا نہیں کریں گے. انسانی حقوق کا تحفّظ ان کی ترجیحات میں شامل نہیں. روہنگیا مسلمانوں سے انہیں ویسے بھی ہمدردی نہیں بلکہ ان کی حکومت تو ہندوستان میں رہ رہے روہنگیا پناہ گزینوں  کو نکال باہر کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے جسے سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کیا جا چکا ہے. ایک اندازے کے مطابق  چالیس ہزار روہنگیا ہندوستان کے مختلف شہروں بشمول دہلی، جموں اور جئے پور میں پناہ لئے ھوۓ ہیں. وزارت داخلہ کی جانب سے ریاستی حکومتوں کو جاری ایک نوٹ میں کہا گیا ہے کہ غیر قانونی طور پر رہ رہے غیر ملکیوں کی نشاندہی کر کے انہیں واپس بھیجنے کے انتظامات کئے  جائیں.  پارلیمنٹ میں بھی حکومت نے روہنگیا پناہ گزینوں کے حوالے سے جو  بیان دیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت انہیں ملک کی سلامتی کے لئے خطرہ سمجھتی ہے کیونکہ نوبل انعام یافتہ ان سان سو کی  کی سربراہی میں چل رہی سرکار اور فوجی قیادت ان پر دہشت گرد ہونے کا بےبنیاد الزام لگا رہی ہے۔

A woman walks among debris after fire destroyed shelters at a camp for internally displaced Rohingya Muslims in the western Rakhine State near Sittwe

اس پس منظر میں وزیراعظم سے کسی خیر کی امید نہیں. مگر انہیں یہ احساس ہونا چاہئے کہ میانمار کے ظالم و جابر فوجی حکمرانوں  کی طرفداری کر کے وہ وقتی طور پر ان سے  کچھ تجارتی مراعات تو حاصل کر لیں گے مگر اقوام عالم می ہندوستان کی ساکھ کو زبردست نقصان پہنچائیں گے.  تقریباً تمام عالمی ایجنسیاں جیسے اقوام متحدہ، رابطہ عالم اسلامی، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور بہت سارے ممالک  میانمار کے خلاف بیچینی کا اظہار  کر چکے ہیں. ہر طرف سے گہار لگائی جا رہی ہے کہ میانمار نے روہنگیا آبادی  کے ساتھ جو سلوک رو رکھا ہوا ہے وہ قابل قبول نہیں ہے. اقوام متحدہ نے تو میانمار پر بد ترین نسلی امتیاز برتنے اور انسانیت سوز جرائم میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا ہے. ترکی کے صدر طیب اردوغان نے عید الاظحیٰ کے موقعہ  پر اپنے خطاب میں کہا ہے کہ وہ اس مسلے  کو اقوام متحدہ کے آئندہ اجلاس میں اٹھائیں گے. ان کا کہنا ہے کہ  “میانمار میں نسل کشی ہو رہی ہے اور جو لوگ جمہوریت کے نام پر اس طرف سے اپنی آنکھیں موڑے ھوۓ ہیں وہ بھی اس جرم  میں برابر کے شریک ہیں”۔

جب دنیا میں ایسا ماحول بنا ہوا ہو اس وقت وزیراعظم مودی میانمار کے حکمرانوں کی راگ میں راگ الاپیں گے اور یہ دعویٰ کریں گے کہ مٹھی بھر روہنگیا پناہ گزینوں سے ہندوستان کی سلامتی کو خطرہ ہے تو کوئی اس پر یقین نہیں کرے گا.  در اصل مودی کے اس رویہ کی دو خاص وجہیں ہیں. پہلی وجہ تجارت ہے. وہاں کے مارکیٹ میں  چین اپنے قدم پہلے سے جماۓ ھوۓ ہے. ہندوستان اپنے لئے گنجائش نکلنا چاہتا ہے. ہندوستان نے دو سو کروڑ ڈالر کے ترقیاتی امداد کا وعدہ کر رکھا ہے مگر اس کے تحت ملنے والے پروجیکٹس میں تاخیر ہو رہی ہے. مودی کے دورے سے اس میں تیزی آنے کی امید کی جا رہی ہے. اس لحاظ سے مودی کا یہ قدم قابل ستائش ہے مگر یہ جس قیمت پر حاصل کیا جاۓ گا وہ اس اصولی موقف کے خلاف ہے جسے ہندوستان نے ملک کی آزادی کے وقت اپنایا تھا. دوسری وجہ ان پر کسی طرح کے سیاسی یا سماجی دباؤ کا فقدان ہے. مودی کی متلقالعنان طبیت ویسے بھی کوئی دباؤ قبول نہیں کرتی.  اوپر سے اپوزیشن پارٹیاں  بے سمتی کا شکار ہیں. جب وہ ملکی معاملات  میں کوئی متحدہ راہ عمل طئے  نہیں کر پاتیں تو کسی بیرونی معاملے میں ان سے کوئی اصولی موقف اختیار کرنے کی امید نہیں لگائی جا سکتی۔

لے دے کر انسانی حقوق کی تنظیمیں رہ جاتی ہیں. انہوں نے روہنگیا پناہ گزینوں کے حق میں  آواز اٹھائی ہے جس کا ٹکا سا جواب ریاستی وزیر داخلہ کرن ریجوجو کی طرف سے آگیا کہ حکومت کو “لیکچر” نہ دیا جائے. ہم تو  بڑے ہی وسیع القلب اور  روادار ملک ہیں. ہم  نے دنیا میں سب سے زیادہ غیر ملکی پناہ گزینوں کو اپنے یہاں جگہ دے رکھی ہے. لہٰذا آپ ہندوستان کو بدنام کرنے کی حرکت سے باز رہیں. اس کے  ساتھ ہی کرن ریجوجو نے یہ بھی دعویٰ  کیا ہے کہ چونکہ ہندوستان  اقوام متحدہ کے رفیوجی کنونشن کا دستخط کنندہ نہیں ہے اس لئے اس کی نظر میں یونائیٹڈ نیشنز ہائی کمشنر فار ریفیوجیز یعنی یو این ایچ سی آر  کے ذریعہ روہنگیا مسلمانوں کو  پناہ گزیں قرار دیے جانے  کی کوئی اہمیت نہیں ہے. مگر ان کے اس دعویٰ  کو مبصّرین نے عذر لنگ قررار دیتے ھوۓ انہیں یاد دلایا ہے کہ بین الاقوامی طور پر طئے شدہ اصول کے مطابق ہندوستان روہنگیا  مسلمانوں کو تحفّظ فراہم کرنے کا پابند ہے. اس دلیل کے باوجود مرکزی حکومت  اپنے فیصلے پر اٹل ہے. ادھر ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے ہندوستان سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے اور روہنگیا مسلمانوں کو اپنے یہاں  رہنے دے کیونکہ میانمار بھیجنا انہیں موت کے منھ میں ڈالنے  کے مترادف ہوگا۔

روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جبر و استبداد کی داستان  بہت پرانی ہے. میانمار انہیں اپنے ملک کا شہری نہیں مانتا. 1982ء میں ایک قانون بنا کر ان کی شہریت  ختم کر دی گئی ہے . اس  کے بعد سے  پورے ملک میں ان کے خلاف نفرت کا ایک ماحول بنا ہے  جس میں پولیس اور فوج سرگرم رول ادا کرتی رہی ہے. وقفے وقفے سے ان کے خلاف پر تشدّد کاروائیاں ہوتی رہتی ہیں. ملکی قانون کے مطابق وہ سرکاری ملازمتیں حاصل نہیں کر سکتے، نہ اپنے بچوں کا داخلہ سرکاری سکولوں میں کروا سکتے ہیں  نہ ہی سرکاری اسپتالوں میں جا سکتے ہیں. شادی بیاہ جیسے کاموں کے لئے بھی انہیں سرکار سے اجازت طلب کرنی ہوتی ہے. ان حالات میں ان کے پاسس ملک چھوڑ کر بھاگنے کے سوا کوئی چارہ نہیں. میانمار کے حکمراں  بھی یہی چاہتے ہیں. چنانچہ ان کی جتنی آبادی میانمار کی ریاست رخائن میں آباد ہے (اندازاً دس سے تیرہ لاکھ) اتنی ہی رفیوجیز کی حیثیت سے بنگلہ دیش، سعودی عرب، پاکستان، ہندوستان، ملیشیا، انڈونسیا  اور تھائی لینڈ میں آباد ہے. بنگلہ دیش میں سب سے زیادہ قریب پانچ لاکھ۔

برسہا برس سے ذلّت کی زندگی بسر کرتے رہنے  کے بعد اب ان کی طرف سے بھی  مزاحمت کی خبریں آنے لگی ہیں  جس کے جواب میں میانمار حکمرانوں کی جانب سے انہیں دہشت گرد بتایا جا رہا ہے. ہندوستان شاید اکیلا ملک ہے جو میانمار کی ہاں میں ہاں ملا رہا ہے . تازہ ترین بحران تشدّد کی نئی وارداتوں سے پیدا ہوا ہے. 25 اگست کو روہنگیا مزاحمتی فورس نے پولیس اور فوجی چوکیوں پر دھاوا بول دیا جس میں چند جانیں گئیں. اس کے بعد میانمار سیکورٹی فورسز کی جانب سے  جوابی کروائی  کا جو دور شروع ہوا ہے اس میں چار سو لوگ مارے جا چکے ہیں. یو این ایچ سی آر کے مطابق اب تک تقریباً ساٹھ ہزار روہنگیا مسلمان اپنی جانیں بچا کر پڑوسی ملک بنگلہ دیش جا چکے ہیں اور رخائن میں 2600 سے زیادہ مکانات کو جلا دیا گیا ہے. اس وقت تمام عالمی ادارے اور جمہوری طاقتیں میانمار پر دباؤ ڈال رہی ہیں کہ وہ انسانیت سوز مظالم سے باز رہے مگر ہندوستان ایک مظلوم قوم کی دادرسی کرنے کے بجاۓ انہیں اپنی سلامتی کے لئے خطرہ بتا کر ان سے اپنا پلّہ جھاڑنا چاہتا ہے۔